حضور اشرف الفقہاء اور یادوں کے تابندہ نقوش

حضور اشرف الفقہاء اور یادوں کے تابندہ نقوش
(بموقع عرسِ حضور اشرف الفقہاء) 

غلام مصطفیٰ رضوی 
نوری مشن مالیگاؤں

٦؍اگست ۲۰۲۰ء/۱۵؍ذی الحجہ ١٤٤١ھ جمعرات کی صبح حضور اشرف الفقہاء مفتی محمد مجیب اشرف علیہ الرحمۃ اِس جہان سے رُخصت ہو گئے... یادوں کے تابندہ نقوش چھوڑ گئے...
٭٭٭ 
١٩ برس قبل حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے مالیگاؤں میں فرمایا تھا: "مجیب اشرف اپنے وقت کا مفتی ہے"...لاریب! مفتی اعظم مہاراشٹر کا تاج حضور اشرف الفقہاء کے سر زیب دیتا ہے...آپ وقت کے عظیم فقیہ تھے... واقعی آپ نے شرعی رہبری میں کامیاب نقوش چھوڑے...
٭٭٭
حضور اشرف الفقہاء نے فتاویٰ بھی تحریر فرمائے... جن کا مجموعہ زیر ترتیب تھا...وصال سے کچھ دنوں قبل ایک ملاقات میں آپ نے بتایا تھا کہ فتاویٰ بعد از ترتیب شائع کرنے کا عزم ہے...
ہم نے دیکھا ہمیشہ فون پر لوگ شرعی مسائل دریافت کرتے... آپ رہنمائی فرماتے... راقم نے خود کئی بار رہنمائی چاہی... ایام حج میں زائرین/حجاج مسلسل رابطہ کرتے... مسائلِ حج دریافت کرتے...خندہ پیشانی سے جواب عنایت فرماتے... پیچیدگی دور فرماتے... 
٭٭٭
ان کی یاد روشنی لے کر آتی ہے... ان کا تصور ایمان تازہ کرتا ہے... ہاں! ان کی مجالس نورٌ علٰی نور ہوتیں... دل چمک جاتے... باطن مہک مہک اُٹھتے... ہم نے دیکھا ہے کہ مشرک آتے ہیں... ایمان سے معمور ہو کر جاتے ہیں... تربیت گاہِ اشرف الفقہاء میں ہم نے نو مسلم کو بھی استفادہ کرتے دیکھا... بڑے بڑے افسران دست بستہ دیکھے... حضور اشرف الفقہاء نے ایک بار مجھ سے کہا : کئی افسران آئے اور اسلام قبول کر کے گئے... اکثر تعلیم یافتہ افراد آتے رہتے ہیں اور اسلام قبول کر کے جاتے ہیں...
٭٭٭
ہم نے حضور اشرف الفقہاء کو علما کی بزم میں دیکھا... میرِ مجلس پایا... علما کا قدر داں پایا... چھوٹوں پر ایسی شفقت کہ نوجوان علما یہ گمان کرتے کہ حضرت تو سب سے زیادہ مجھ پر شفقت فرماتے ہیں... جہاں جاتے عوام کو علما سے وابستہ رہنے کی نصیحت فرماتے... علما کی اور علم دین کی قدر سکھاتے... طلبۂ علومِ دینیہ کی تکریم سکھاتے... حصولِ علمِ دین کی ترغیب دیتے... دینی درس گاہوں کے قیام کی فکر دیتے... مدارس کی سرپرستی فرماتے... مدارس کو اپنی جیب سے چندہ عنایت فرماتے... یہ مشاہدہ ہے...
٭٭٭
ان کا اخلاق بلند تھا... کردار نکھرا ہوا تھا... زباں پاکیزہ اور چہرہ روشن... ایسا کہ دیکھو تو خدا یاد آ جائے... بے شک! اللہ والوں کے چہرے تاباں ہوتے ہیں اور کردار اُجلے... جن کی بارگاہِ ناز کے چند لمحے زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیتے... تیری محفل میں بیٹھنے والا... آدمی خوش نصیب ہوتا ہے... اور جو نوازے گئے وہ بزبانِ حال گویا کہہ رہے ہیں... 
عباؤں قباؤں کو میں کیا کروں گا
عطا ہو گیا مجھ کو تاجِ غلامی
٭٭٭
خاکساری ایسی کہ بھری بزم میں کہتے کہ... مجھے بولنا نہیں آتا... دیہاتی لہجے میں تقریر کرتا ہوں... تواضع ایسا کہ کہتے کہ مجھے علم کہاں... یہ تو میرے حضور مفتی اعظم اور حضور شارح بخاری کا فیضان ہے کہ کچھ بول لیتا ہوں... اسی تواضع نے ایسا سربلند کیا کہ... بات دل میں اترتی... زندگیاں بدل جاتیں... بدعقیدگی کے داغ دُھل جاتے... دل محبتِ محبوب پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے منور ہو جاتا... عقیدہ سنور جاتا.. عقیدت رہِ مستقیم پر گامزن ہو جاتی...
٭٭٭
ان کا باطن روشن تھا... جو ان سے بیعت ہو جاتا... وہ بھی اُجلے مَن سے آراستہ ہو جاتا... راقم کا مشاہدہ ہے... جہاں جہاں ہم نے مجلسِ بیعت منعقد کی... تزکیۂ باطن و تطہیرِ قلب کا نظارہ کیا... تصلبِ دینی کے جلوے دیکھے... راقم خود درجنوں طلبہ/سیکڑوں اہلِ علم کو آپ کی مجلس میں لے گیا... اور زندگیوں میں صالح انقلاب دیکھا... احباب گواہ ہیں... ماضی کی تلخیاں نگاہِ اشرف الفقہاء کے فیض سے چھَٹ گئیں...حال اسلامی سانچے میں ڈھل چکا ہے... روشن ضمیر! دل بدل دیتے ہیں...اور عملی زندگی اسلامی بہاروں کا مسکن بن جاتی ہے... 
٭٭٭
وہ بزم کی رونق تھے... ساداتِ مارہرہ مطہرہ کے جھرمٹ میں بھی دیکھا... حضور امین ملت میرے اشرف الفقہاء فرماتے... بلکہ مسلکِ اعلٰی حضرت کے لیے مستعدی اور ہمہ جہت خدمات کے پیشِ نظر "جوان اشرف الفقہاء" کہتے... آپ کے تفقہ اور خدمات کا تذکرہ فرماتے... بڑی محبتوں کا اظہار کرتے... ایک بار حضور احسن العلماء کے اکرام کا بھی ذکر کیا.... کہ حضور احسن العلماء؛ حضور اشرف الفقہاء کا خطاب بڑے اہتمام سے سنتے تھے... ہم نے رفیقِ ملت حضرت سید نجیب حیدر میاں کی زبان بھی حضور اشرف الفقہاء کے تذکروں سے تَر دیکھی... ہم نے کئی مشائخ کی زباں پر اشرف الفقہاء کی دعوتی و تعمیری خدمات کا چرچا مشاہدہ کیا...
٭٭٭
علمی شخصیت تھے... علمی کاموں کو پسند فرماتے... جب مالیگاؤں تشریف لاتے... راقم کو یاد کرتے... کبھی تاخیر سے خدمت اقدس میں حاضر ہوتا تو فرماتے... میں منتظر تھا... محفل سجی ہوتی... علمی موضوعات ہوتے... کبھی محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی باتیں... کبھی عقائد اہلسنّت کا بیاں... کبھی تاریخ اسلامی کے تاباں اوراق وا ہوتے... کبھی درس گاہی نکات... علمی اشکالات کی گرہیں کھولی جاتیں...فنونِ ادب کے صفحات چمکتے... احادیثِ مبارکہ کی توضیحات سے بزم چمک جاتی... اعلیٰ حضرت کا ذکرِ جمیل ہوتا... حضور مفتی اعظم کی بارگاہِ ناز میں گزرے پاکیزہ لمحات یاد کیے جاتے... اس درمیان مختلف علاقوں سے وفود آتے... مسائل کا حل چاہتے... اشرف الفقہاء مسکرا کر حل فرماتے... مسائل حل فرماتے... دَقائق دور کرتے... پیچیدگیاں دور فرماتے... باہمی رنجش ختم کرتے... شیر و شکر ہو کر فروغِ مسلک اعلیٰ حضرت کی تلقین فرماتے...
٭٭٭
عموماً جلسوں کی کامیابی کے بعد تعلیم گاہوں کے قیام کی تلقین کرتے... مساجد اہلسنّت کے قیام کے لئے حوصلہ دیتے... مدارس کی سرپرستی فرماتے... ہنر مندی کی ذہن سازی کرتے... نتیجہ یہ ہوا کہ جس زمیں پر گئے... درجنوں مساجد قائم ہوئیں... متوسلین نے انقلاب برپا کر دیا... صالح انقلاب... پاکیزہ انقلاب... وہ انقلاب جس سے جہان روشن اور آخرت درخشاں...
٭٭٭
پیکرِ تقویٰ تھے... حضور مفتی اعظم کے شیدائی و فِدائی تھے... ہر اَدا سُنّت مصطفیٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی آئینہ دار تھی... خلافِ سُنّت کام دیکھتے تو نرمی سے اصلاح فرماتے... نمازوں کی پابندی فرماتے... منزل بہ منزل سفر ہوتا... لیکن نمازیں برابر وقتوں پر ادا کی جاتیں... مسائل سے متعلق بڑے محتاط تھے... اسلاف کی روش اختیار کر رکھی تھی... اسی لیے مصالحت سے کوسوں دور تھے... اللہ تعالیٰ کی رضا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خوشنودی کے لیے تاعمر سرگرم عمل رہے... ہر بیان کا خلاصہ اعلیٰ حضرت کا یہ شعر ہوتا کہ... 
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دُنیا سے مسلمان گیا
٭٭٭
وقت کی قدر فرماتے... پابندیِ وقت کے لیے راقم کو نصیحت بھی کی... بیان سے قبل وقت کی معلومات لیتے... وقت متعین سے پانچ منٹ قبل گفتگو ختم فرماتے... کبھی وقت کم ملتا تو اتنے وقت میں ہی گفتگو مکمل فرما لیتے... اس خوش اسلوبی سے کہ احساس بھی نہیں ہوتا.... کہ معمولی سے وقت میں انشراح صدر فرما دیا... ایک بار جمعہ کی نماز کے لیے ایک مسجد میں جب ٹائم معلوم کیا تو امام صاحب نے کہا کہ... حضور! جمعہ کا عمومی وقت ڈیڑھ بجے ہے...آپ دو بجے تک بیان فرمائیں... حضور اشرف الفقہاء نے فرمایا کہ عمومی وقت کا لحاظ ضروری ہے... لوگ نوکری اور ڈیوٹی والے ہوتے ہیں... ان کی رعایت ضرور کرنی چاہیے... پھر ڈیڑھ بجے سے قبل ہی بیان مکمل فرما دیا...
٭٭٭
خندہ پیشانی سے ملتے... ہر ایک سے مشفقانہ رویہ ہوتا... وصال کے بعد سے اَب تک سیکڑوں افراد مِلے... سبھی کا ایسا گمان تھا کہ حضور اشرف الفقہاء مجھ پر سب سے زیادہ مہربان تھے... کسی نے کہا کہ جب ملاقات کو حاضر ہوتا خیریت پوچھتے... مُسکرا کے ملتے... دُعائیں دیتے... ہر فرد کے ساتھ یہی سلوک تھا...
ہم نے بہت سے صاحبِ ثروت اور دولت مندوں کو دیکھا کہ مال پر رویہ طے ہوتا ہے... غریبوں سے بدسلوکی... امیروں کی عزت... ہاں! وہ غریب سے بھی یکساں سلوک کرتے... ان سے ملاحت ایسی کہ ان کی صحبت میں بیٹھنے والا اپنا غم بھول جاتا... ایمان کی تازگی لے کر جاتا... عزم پا کر رُخصت ہوتا... 
٭٭٭
ضعف کا عالَم ہوتا... آرام کی ضرورت ہوتی... لیکن! معمولات کے مطابق تمام کام بحسن و خوبی انجام دیتے... سفر کی تکان، عمر کا تقاضا، ملاقاتیوں کا اژدہام.... پھر بھی ماتھے پر شکن نمودار نہ ہوتی... 
جلسوں میں مجمع کثیر ہوتا... لوگ دیدار کو حاضر ہوتے... تمنائیں لے کر آتے کہ دست بوسی کی سعادت حاصل کریں گے... ہر ایک سے ملتے... لوگ قطاریں لگائے کھڑے ہوتے... ہم بھی محوِ زیارت ہوتے... مُسکرا کر دُعائیں دیتے... دیدار سے سب غم غلط ہو جاتے... اُلجھنیں دور ہو جاتیں... راقم کا یہ مشاہدہ ہے... 
٭٭٭
بریلی شریف سے محبت کا انداز نرالا تھا... بریلی! محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پیغام کا خوب صورت عنوان ہے... بریلی نسبتوں کا گلشن ہے... جہاں سے بخشش کے باغات کی خوشبو آتی ہے...
راقم نے جب ١٤٣٦ھ میں ارضِ حرم میں ملاقات کی... بتایا کہ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ سے بارہا ملاقات کا شرف حاصل ہوا... بہت خوش ہوئے... حضور تاج الشریعہ کی ایک ایک ادا کا پوچھتے رہے... بزمِ عرفاں کے کیف و سُرور کو محسوس کرتے رہے...
اکثر حضور مفتی اعظم کا تذکرہ فرماتے... ان کے ساتھ سفر کی یادوں کے چراغ فصیلِ حیات پر روشن کرتے... تقویٰ و استقامت کا بیان کرتے... دین پر استقامت کا منظر تازہ کرتے... عقیدہ و عقیدت کو جِلا بخشتے...
٭٭٭
روحانیت کے متلاشی آتے... تعویذ طلب کرتے... لے جاتے... پانی پر دَم کراتے... شفا پاتے... فیض اُٹھاتے... اپنے مشاہدات بیان کرتے... کہ کس طرح لاینحل مسائل حضور اشرف الفقہاء کی دُعا اور تعویذ سے حل ہو گئے... آپ تصلبِ دینی کی نصیحت فرماتے... مسلکِ اعلیٰ حضرت پر سختی سے قائم رہنے کا درس دیتے...
کسی کو نامُراد نہیں لوٹاتے... لوگ تھکن، عمر اور سفر کا کچھ خیال نہیں کرتے... وقت تنگ ہوتا... واپسی کا لمحہ... تعویذ مانگنے والوں کا پورا پورا خیال فرماتے...
٭٭٭
دس ماہ قبل راقم نے ایک علمی پروجیکٹ کے لیے مشورہ طلب کیا... رہنمائی کی... رہبری کی... کامیابی کا مژدہ سُنایا... انھیں ایام بعض ناگفتہ بہ حالات کے باعث کام بننا دُشوار نظر آیا... لیکن! حضور اشرف الفقہاء نے ہمت دی؛ کام بنتے چلے گئے... آپ نے مجھے نصیحت کی کہ بنیاد مضبوط کیجئے... پھر کام ظاہر کیجئے... تب تک خاموشی سے لگے رہیے... تا کہ کام پختہ ہو... حائل رکاوٹیں دور ہوں... ہم نے مشاہدہ کیا... دُشواریاں دور ہوئیں... مطلع صاف دکھائی دینے لگا... ہر رکاوٹ قدموں کو منجمد نہ کرسکی... بلکہ حضور اشرف الفقہاء کی دعاؤں کی گھنیری چھاؤں میں مشکلیں آسان ہو گئیں... اب بھی کامیابی کی راہیں کشادہ ہیں اور منزل کے نشاں تازہ... مکینِ گنبد خضرا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے نواز دیا... حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا... 
مِری مشکل کو یوں آساں مِرے مشکل کشا کر دیں 
ہر اِک موج بلا کو میرے مولیٰ نا خدا کر دیں 
٭٭٭

١٥ ذی الحجہ ١٤٤٢ھ/٢٦ جولائی ٢٠٢١ء
ترسیل: اعلیٰ حضرت ریسرچ سینٹر مالیگاؤں
Cell. 9325028586
noorimission92@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے