حضرت مولانا فتح محمد اچھروی رحمۃ اللّٰه علیہ

📚     «  مختصــر ســوانح حیــات  »     📚
-----------------------------------------------------------
🕯️حضرت مولانا فتح محمد اچھروی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسم گرامی: مولانا فتح محمد اچھروی۔
کنیت: ابوالمشتاق۔
لقب: زبدۃ الکاملین، رئیس العلماء الراسخین۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے: مولانا فتح محمد اچھروی بن میاں امام دین۔ علیہما الرحمہ۔

مقامِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت اچھرہ لاہور میں ہوئی۔

تحصیلِ علم: آپ نے علماءِ لاہور سے علمی استفادہ کیا۔ اپنے وقت کے جید عالم دین و عارف تھے۔ بہترین مدرس، صاحبِ تقویٰ و فضیلت عالم تھے۔ بڑے بڑے اکابرین نے آپ سے اکتساب علم کیا۔

بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ غلام محی الدین قصوری رحمہ اللّٰه کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور انہی سے مجاز تھے۔

سیرت و خصائص: زبدۃالکاملین، عمدۃالعارفین، رئیس  الفضلاء و المتکلمین، حضرت علامہ مولانا فتح محمد اچھروی رحمۃ اللّٰه علیہ۔
آپ نے ساری زندگی قال اللہ اور قال رسول اللہ کی صدائیں بلند فرمائیں۔ ایک زمانہ آپ سے فیض یاب ہوا۔ بچپن میں آپ پر چیچک کا شدید حملہ ہوا جس سے ظاہری بینائی زائل ہو گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے آپ کو وہ نورِ بصیرت و معرفت عطاء ہوا کہ مشائخِ  کبار نے آپ سےاستفادہ کیا۔
عربی، فارسی، طب، تصوف اور تمام مروجہ علوم میں کامل دسترس رکھتے تھےاور ہر قسم کے طلباء کو شرح و بسط سے درس دیا کرتے تھے۔

ایک دفعہ حضرت خواجہ عبد الرسول قصوری رحمہ اللّٰہ اچھرہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرے دیکھا کہ ایک کتیا اپنے بچوں سمیت اس مسجد سے باہر آرہی ہے۔ اس سے آپ کو بہت صدمہ ہوا کہ لوگ خانۂ خدا سے اس قدر بےپرواہ ہو چکے ہیں کہ مساجد حیوانات کی آماہ جگاہ بن چکی ہیں۔ واپسی پر پھر وہیں سے گزرے تو فرمایا: ’’مجھے اس جگہ نور دکھائی دیتا ہے، یہاں خدا کا نور برسےگا‘‘۔
آپ کی یہ پیشین گوئی اس طرح پوری ہوئی کہ مولانا حافظ فتح محمد رحمۃ اللّٰه علیہ نے اس مسجد میں جامعہ فتحیہ جاری کیا جہاں سے بڑے بڑے فضلاء فیض یاب ہوئے اور قال اللہ اور قال الرسول کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں کے فضلاء میں سے ایک نام ملک المدرسین، امام المناطقہ حضرت علامہ مولانا عطاء محمد بندیالوی رحمہ اللّٰہ کا بھی ہے۔

مولانا حافظ فتح محمد تقویٰ و پرہیز گاری میں اپنی مثال آپ تھے ، اپنے گھر میں بوئی ہوئی سبزی سے آپ کا کھانا تیار ہوا کرتا تھا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ بھی تقدس مآب خاتون تھیں۔ اگر کسی خادمہ کا پکایا ہوا کھانا تناول فرما لیتے تو فوراً قے ہو جاتی۔ اس دور کے مشائخ عظام مثلاً شیرِ ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری اور حضرت خواجہ محبوب عالم توکلی خلیفہ حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی وغیرہما کے آپ کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے۔ یہ حضرات اکثر ملاقات کے لئے آپ کے پاس تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت حافظ صاحب کو بزرگان دین اور مشائخ کرام سے گہری عقیدت تھی۔ ایک مرتبہ آپ امام ربانی حضرت مجد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پر انور پر حاضر ہوئے۔ ایک درویش نے بحالت مراقبہ بارگاہ مجدد میں کرایہ کی درخواست کی، ارشاد ہوا، حافظ فتح محمد شاہ سے لے لو، اور ان کی شکل بھی دکھا دی، مگر وہ درویش سوال نہ کر سکے، ادھر دربار مجددی سے حافظ صاحب کو ایماء ہوا کہ فلا شخص کو کرایہ دے دیا جائے چنانچہ آپ نے اپنے خادم جمال الدین کو فرمایا کہ یہ مسافر جو احاطۂ درگاہ سے باہر جا رہا ہے،اسے اتنا کرایہ دے دو۔

حضرت حافظ صاحب کے زمانے میں مولوی عبد اللہ چکڑا لوی نے فتنہ انکار حدیث کھڑا کیا تو آپ نے اس کے استیصال کے لئے سعی بلیغ فرمائی اور چکڑا لوی کے رد میں متعدد رسائل تصنیف فرمائے،ان میں سے ایک رسالہ کانام صلوٰۃ القرآن بمتابعۃ حبیب الرحمن المعروف بہ رد چکڑالوی ہے۔ اسی طرح آپ کےفیض یافتہ علماءِ کرام نے رد وہابیت و قادیانیت وغیرہ کی خوب خبر لی۔ جامعہ فتحیہ اچھرہ جوآپ کی ایک علمی یادگارتھااب وہ دیوبندیوں کے قبضے میں ہے۔

تاریخِ وصال: آپ کا وصال 29/شوال المکرم 1335ھ مطابق اگست/1917ء کو ہوا۔ آپ کی تربت لاہور میں ہے۔

ماخذ و مراجع: تذکرہ اکابر اہل سنت۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے