-----------------------------------------------------------
🕯حضرت عیسیٰ عادل الخطیب رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب: آپ کا نام عیسیٰ بن ملک عادل سیف الدین ابی بکر بن ایوب اور آپ کا لقب شرف الدین تھا۔
تاریخ و مقامِ ولادت: آپ 576ء میں مصر کے مشہور شہر قاہرہ میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: آپ نے فقہ جمال الدین محمود حصیری سے پڑھی اور دیگر علوم و فنون کی کتابیں جلیل القدر علماء سے پڑھی۔ کتاب مسعودی کو یاد کیا اور امام احمد کی تمام مسند کو سنا اور حدیث کو روایت کیا۔
سیرت و خصائص: آپ بڑے عالم فاضل، فقیہ، ادیب، نحوی، لُغوی، شاعرِ عروضی اور مجاہد فی سبیل اللہ تھے۔ ملک مصر میں آٹھ سال تک بادشاہ رہے۔ بنی ایوب میں آپ کے اور آپ کی اولاد کے علاوہ کوئی حنفی المذہب نہیں تھا۔ آپ نے فقہاء کو حکم دیا تھا کہ میرے لئے امام اعظم علیہ الرحمہ کا مذہب دیگر سب علماء سے علیحدہ کرو، پس فقہاء نے ایسا ہی کیا اور آپ نے اسے یاد کیا۔ اور علماء کو حکم دیا کہ امام احمد کی مسند کو ابواب پر مرتب کریں اور ہر ایک حدیث کو اس باب میں وارد کریں جو اس کو اس کے معنی کا تقاضا کرے۔ اسی طرح آپ نے ایک کتاب لغت میں بھی جامع کبیر مرتب کرائی۔ آپ کے وقت میں علماء و فضلاء کی بڑی قدر تھی اور دور دور سے آکر آپ کے پاس جمع ہوگئے تھے اور بڑے بڑے وظائف ان کے لئے مقرر فرمائے اور ان کو اپنی مجالس میں بٹھا کر آپ ان سے علمی استفادہ کرتے۔ (لیکن موجودہ دور جتنا ظلم جماعتِ علماء سے کیا جاتا ہے شاید ہی کسی دوسرے گروہ کے ساتھ ایسا معاملہ ہو۔ یہ نورانی جماعت چاہتی ہے ہم امتِ محمدیہ ﷺ کی اخلاقی و ذہنی تربیت کرکے انہیں ایک انسان کے اعلی محاسن تک پہنچائے، تو ہونا یہ چاہیئے تھا کہ عوام کو علماء سے قریب کیا جائے، لیکن قریب کرنے کے بجائے علماء سے دور ہی کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام ظلمت و جہالت کے اندھیرے میں خود بھی جا رہے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو اسی اندھیرے میں ڈال کر شرم و حیاء کے دائرے سے باہر نکال رہے ہیں۔ علماء سے فائدہ حاصل کرنے بجائے انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ ان کی تعلیم فقط دین تک محدود ہے لیکن ان کی سوچ بہت غلطی پر مبنی ہے کیونکہ جس طرح ایک عالم دین کا علم رکھتا ہے اسی طرح اسے دنیا میں چلنے والے حالات پر بھی ایک گہری نگاہ حاصل ہوتی ہے۔تاریخ کی کتابیں اس بات کی گواہی دیرہی ہیں بڑے بڑے بادشاہوں کو اپنی سلطنت چلانے کے لئے علماء کی رائے اور مشوروں کی ضرورت ہوتی تھی)۔
ابنِ خلکان نے لکھا ہے کہ بڑے بڑے شعراء نے آپ کی مدح کی اور اچھی مدح کی۔ 611 ھ میں حج کیا۔ جامع کبیر کی کئی ایک مجلد میں تصنیف کی اور ایک کتاب عروض میں لکھی۔
خطیب بغدادی نے جو امام اعظم علیہ الرحمہ کے حق میں تاریخِ بغداد میں کچھ کلام کیا ہے اس کی تردید میں ایک کتاب سہم المصیب فی الرد علی الخطیب تصنیف کی۔
وصال: آپ کی وفات یکم ذو الحجہ 624 ھ/ بمطابق 11 نومبر 1227ء کی چاند رات کو ہوئی اور دمشق کے قلعہ میں دفن کئے گئے، پھر آپ کی نعش جبلِ صالحہ کی طرف لے جا کر وہاں کے مدرسہ میں جہاں آپ کے خاندان کے لوگوں کی قبریں ہیں اور معظمہ نام سے مشہور ہے، دفن کئے گئے۔ (معلوم ہوا کہ علماء و اولیاء کے جسدِ خاکی کو نہ زمین کھاتی ہے اور نہ ہی ان کا جسم گل سڑ جاتا ہے بلکہ صحیح و سالم رہتاہے۔ اور یہ صرف حضرت عیسیٰ عادل خطیب کے بارے میں ہی منقول نہیں بلکہ متعدد اولیاء و علماء کے بارے میں درج ہے کہ انہیں دفنانے کے ایک عرصہ بعد کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری قبر میں دفنانے کے لئے جب انہیں نکالا گیا تو ان کے مبارک جسم صحیح اور سالم تھے)
ماخذ و مراجع: حدائق الحنفیہ۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں