کفرفقہی کے اقسام واحکام
قسط نہم
ذات الٰہی کی عدم معرفت کے تین حالات
اللہ تعالیٰ کی عدم معرفت کی تین صورتیں ہیں۔ ان کے سبب کفر کلامی کا حکم عائد ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کے وجود سے لاعلمی کفر ہے،کیوں کہ لاعلمی کے سبب جب ایمان نہیں لایا تو عدم ایمان یعنی کفر پایا گیا۔اسی طرح جو کام صرف کافر کرتا ہے،مثلاً کفار کی مذہبی عبادتیں یا ضروریات دین کا انکارتو ایسے امور کے سبب بھی کفرکا حکم عائد ہوگا۔
قال القاضی:(قال القاضی ابوبکر:القول عندی ان الکفر باللّٰہ ہو الجہل بوجودہ-والایمان باللّٰہ ہو العلم بوجودہ-وانہ لایکفر احد بقولٍ ولارأیٍ اِلَّا اَن یَکُونَ ہو الجہل باللّٰہ-فان عصٰی بقول او فعل نَصَّ اللّٰہُ وَ رَسُولُہٗ-اَو اَجمَعَ المُسلِمُونَ اَنَّہٗ لَایوجد الامن کافر-او یقوم دلیل علٰی ذلک-فَقَد کَفَرَ-لَیسَ لِاَجَلِ قولہ او فعلہ-لکن ممایقارنہ من الکفر۔
فالکفر باللّٰہ لا یکون الا باحد ثَلَاثَۃِ اُمُورٍ:
(۱)احدہا الجہل باللّٰہ تَعَالٰی
(۲)والثانی اَن یَاتِیَ فِعلًا اَو یَقُولُ قَولًا-یخبراللّٰہُ وَرَسُولُہ-اَو یُجمِعُ المُسلِمُونَ اَنَّ ذلک لَا یَکُونُ اِلَّا من کافرکالسجود للصنم والمشی الی الکنائس بالتزام الزنار مع اصحابہا فی اَعیَادِہِم۔
(۳)اویکون ذلک القول اوالفعل لا یمکن معہ العلم باللّٰہ۔
قال:فہذان الضربان-وان لم یکونا جہلًا بِاللّٰہ-فَہُمَا عَلَمٌ اَنَّ فَاعِلَہُمَا کَافِرٌ مُنسَلَخٌ مِنَ الاِیمَانِ)(الشفاء:جلددوم:ص292)
توضیح:منقولہ بالا عبارت میں اللہ تعالیٰ کی عدم معرفت کی تینوں صورتوں کا بیان ہے۔
اللہ تعالیٰ کی عدم معرفت کی تین صورتیں ہیں۔ ان کے سبب کفر کلامی کا حکم عائد ہوگا۔
(1)اللہ تعالیٰ کی بالکل معرفت ہی حاصل نہ ہو۔ایسا شخص کافر ہے۔جب وہ جانتا ہی نہیں تو اللہ تعالیٰ کو مانے گا بھی نہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کونہ مانے،وہ کافر ہے۔
(2)کوئی ایسا قول کہے،یا ایسا عمل کرے جو صرف کافر کرتے ہیں،جیسے بت کو سجدہ کرنا۔یہودیوں کے تہوا ر کے دن زنار باندھ کر ان کے ساتھ کلیسا (عبادت خانہ)جانا۔
(3)کوئی ایسا قول وفعل کرے،جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معرفت ممکن نہ ہو، جیسے کسی فرض قطعی کا انکار۔ فرض قطعی وہ فرض ہے جو حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی ہو۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کے احکام کو ماننے کا حکم فرمایا ہے۔جب وہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں مان رہا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ ناواقف ہے۔ رب تعالیٰ وہ ذات اقدس ہے جس کا ہر حکم مانا جاتا ہے۔
(فہذان الضربان:الخ)کا مفہوم یہ ہے کہ اخیر کی دونوں صورتوں میں گرچہ منکر اللہ تعالیٰ سے واقف ہے،لیکن یہ ایسے قول وفعل ہیں جومومن سے واقع نہیں ہوتے، پس یہ دونوں قسمیں اس بات کی علامت ہیں کہ ایسا شخص مومن نہیں۔
قال القاری:((اویکون ذلک القول اوالفعل لا یمکن)ای لا یتصور (معہ العلم باللّٰہ)کانکار فرض مجمع علیہ-والقاء مصحف فی قاذورۃ)
(شرح الشفاء:جلدچہارم: ص523)
توضیح:عدم معرفت کی تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی ایسا قول وفعل کرے جس کے ساتھ علم باللہ متصورنہ ہو،جیسے کسی فرض قطعی کا انکار،مثلاً نماز پنج گانہ کا انکار۔اسی طرح قرآن شریف کوآلودگی کی جگہ ڈالنا۔جب وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود مانتا ہے تو اس کے کلام مقدس کی تعظیم کرے گا۔ کلام مقدس کی بے ادبی سے ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود نہیں مانتا ہے۔ اس قسم کے امور عدم معرفت کی علامت ہیں کہ وہ کما حقہ معرفت نہیں رکھتا۔
علامہ شہاب الدین خفاجی حنفی نے عدم معرفت کی آخری دونوں قسموں کے بارے میں رقم فرمایا:((فہذان الضربان وان لم یکونا جہلًا بِاللّٰہِ تَعَالٰی)ای ان لم یقتض قولہ وفعلہ المذکورَانِ جَہلًا بِاللّٰہ تَعَالٰی(فَہُمَا عَلَمٌ)بِفَتحَتَینِ-اَی عَلَامَۃٌ وَاَمَارَۃٌ(عَلٰی ان فاعلہما کافرٌ منسلخ)خارجٌ (من الایمان)باللّٰہ تَعَالٰی-لان الایمان عند الاشاعرۃ تصدیق النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیما علم مجیۂ بہ ضَرُورَۃً-وَمِمَّا جَاءَ بِہٖ الاِقرَارُبِاللّٰہ وَرُسُلِہٖ وَکُتُُبِہٖ-فالکفر حینئذٍ جحد ذلک-وقد جعل الشرعُ بَعضَ الامور عَلَامَۃً عَلٰی ذٰلک)
(نسیم الریاض:جلد چہارم:ص523)
توضیح:اخیر کی دونوں قسمیں گرچہ اللہ تعالیٰ کی عدم معرفت اور جہل باللہ نہیں ہے،لیکن وہ دونوں قسمیں اس بات کی علامت ہیں کہ ایسا شخص مومن نہیں ہے، کیوں کہ شریعت اسلامیہ نے بعض امور کو کفرکی علامت قرار دیا ہے،جیسے بت کو سجدہ کرنا۔کوئی شخص تمام ضروریات دین کو مانتا ہو،لیکن بت کوسجدہ کرتا ہوتویہ کافر ہے،کیوں کہ بت کوسجدہ کرنا کفار کی عبادت ہے۔ عبادت کفار کو اختیار کرنا کفر کلامی ہے،گر چہ وہ تمام ضروریات دین کومانتا ہو۔
قال الجرجانی:((ولایکفراحد من اہل القبلۃ الابما فیہ نفی الصانع القادر العالم-او شرک-او انکارالنبوۃ اوانکارما علم مجیۂ علیہ الصلٰوۃ والسلام ضرورۃً-او انکار المجمع علیہ کاستحلال المحرمات)التی اجمع علٰی حرمتہا-فان کان ذلک المجمع علیہ مما علم ضرورۃً من الدین فذاک ظاہر داخل فیما تقدم ذکرہ-والا فان کان اجماعًا ظنیًّا فلا کفربمخالفتہ-وان کان قطعیًّا ففیہ خلافٌ(واما ماعداہ فالقائل بہ مبتدع غیرکافر-وللفقہاء فی معاملتہم خلاف-ہوخارج عن فَنِّنَا))
(شرح مواقف:ص762-مطبع نول کشورلکھنؤ)
توضیح:منقولہ بالاعبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ضروریات دین کا منکر کافر ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:28:اگست 2021
٭٭٭٭٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں