آبروئے خاندانِ برکات‘‘ حضور نظمی میاں مارہروی کے خطاب کا تحریری مرقع! ایک تجزیہ

*’’آبروئے خاندانِ برکات‘‘*
حضور نظمی میاں مارہروی کے خطاب کا تحریری مرقع! ایک تجزیہ
_(مناسبت: عرسِ حضور مفتی اعظم)_
https://m.facebook.com/107640804524449/posts/263954495559745/
غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں

    پیشِ تجزیہ کتاب’’آبروئے خاندانِ برکات‘‘ مشاہداتی بزم ہے- جو حضرت سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی علیہ الرحمۃ کا خطاب ہے۔ محمد زبیر قادری نے تحریری صورت میں مرتب کیا۔ الحاج محمد سعید نوری کی فرمائش پر رضا اکیڈمی ممبئی نے ۲۰۰۹ء میں اشاعت کی۔ کُل صفحات۱٦؍ ہیں۔ مطالعہ کی میز پر آویزاں کرنے کے لائق ہے۔ سطر سطر سے مارہرہ شریف کی مشک بار فضا مشاہدہ ہوتی ہے۔ پس منظر کچھ یوں ہے… رمضان المبارک ۱٤۲۹ھ کے پاکیزہ ایام تھے۔ حضرت نظمی میاں مارہروی ارضِ طیبہ کی پاکیزہ فضاؤں میں تھے۔ سبز گنبد کا نور نگاہوں کو تقویت پہنچا رہا تھا۔

    آخری عشرہ کی ایک شب قیام گاہ(ہوٹل) میں بصد شوق بزم سجائی گئی۔ ممبئی کے احباب کا اصرار۔ نظمی میاں کی ذات بابرکت۔ رنگ جَم گیا۔ ذکر چل پڑا عاشقِ رسول؛حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ کا۔ سبحان اللہ! حضور مفتی اعظم آبروئے خاندانِ برکات ہیں؛ جن کا تذکرہ جب آتا ہے تو مارہرہ شریف کی برکتوں کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ آج بھی مارہرہ شریف کی ہر محفل، ہر بزم، ہر مجلس چشم و چراغِ خاندانِ برکاتیہ اعلیٰ حضرت کے تذکروں سے گونج رہی ہے۔ شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم کا جب ذکر آتا ہے تو شہزادگانِ صاحب البرکات والہانہ کیف میں ڈوب جاتے ہیں۔حضور امینِ ملت کی مبارک زبان سے ہم نے بکثرت  ذکرِ رضاؔ و حضور مفتی اعظم سُنا۔ رفیقِ ملت بھی ہر گفتگو میں والہانہ انداز میں رضاؔ و نوریؔ کی یادوں کی خوشبو بکھیرتے ہیں۔ اپنے مُرشد کا ذکرِ جمیل اُلفتوں کے سائے میں کرتے ہیں-

    ذکر چل رہا تھا نظمی میاں کی اُس محفل کا جو مکینِ گنبدِ خضریٰ ﷺ کی ارضِ معنبر میں سجی ہوئی تھی۔ ذکر تھا حضور مفتی اعظم کا۔ سبحان اللہ! مارہرہ مطہرہ سے اَٹوٹ رشتوں کا بیاں ہوا۔ کیسا آپ خود لُطف اندوز ہوں۔ معلومات میں اضافہ کریں۔ ایمان تازہ کریں۔ کھو جائیں۔ یادوں کے نقوش تازہ کریں۔ مارہرہ شریف کی خوشبوؤں سے دل و دماغ معطر کریں۔ پھر دربارِ مفتی اعظم میں حاضر ہو جائیں۔ سُنیے سُنیے نظمی میاں بیان کر رہے ہیں کہ:

    ’’میرے خاندان کے بہت چہیتے شہزادے تھے(مفتی اعظم)،اور میرے خاندان کے چشم و چراغ و چراغِ خاندانِ برکات کے بیٹے تھے۔ اعلیٰ حضرت کے بیٹے تھے۔‘‘ (ص۸،۹)
 
   اپنی رسمِ سجادگی کے ذکر میں فرماتے ہیں:

    ’’ابا(سیدالعلماء) نے اپنے وصیت نامے میں لکھا تھا کہ میرے چہلم کے دن حسنین اپنا عمامہ، سجادگی کا عمامہ وہ اپنے چچا حسن میاں(احسن العلماء) سے پہنیں، حسن میاں سے بندھوائیں۔ تو اسی وصیت کے مطابق چچا میاں نے جو ہے عمامے کا ایک گھیرا باندھا، اور اس کے بعد حضور مفتی اعظم ہند کے حوالے کر دیا۔ کیوں کہ یہ ان ہی کا منصب تھا، سرکار مفتی اعظم کا منصب تھا……سب سے پہلی نذر بڑے بڑے جو پہلے دس روپے کے نوٹ آتے تھے، وہ پانچ نوٹ مفتی اعظم قبلہ نے ایک لفافے میں دیے۔ الحمدللہ! وہ خزانہ آج بھی میرے پاس ہے۔ وہ خزانہ ہے اور میں اپنے آپ کو پتہ نہیں کتنا غنی سمجھتا ہوں، اُس لفافے کے بل بوتے پر۔ وہ مجھے نذر پیش کی۔میری اَمی نے اُس لفافے پر اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ’’حضور مفتی اعظم کی نذرِ سجادگی‘‘، وہ میرے پاس اب بھی محفوظ ہے۔میں اُس میں سے کبھی نکال لیتا ہوں؛ جب پیسوں کی کمی ہوتی ہے تو نکال کر پھر سے چوم کر رکھ دیتا ہوں۔تو پھر سے پیسہ بھر جاتا ہے۔ یہ میرے مفتی اعظم ہند کی کرامت ہے۔‘‘(ص۹،۱۰)

    حضور مفتی اعظم سے متعلق نظمی میاں کے تاثرات کی جھلک دیکھیں:’’اللہ کے ولی (مفتی اعظم) اپنی روح کی نظروں سے دیکھا کرتے ہیں۔ ان کی روحانی نظریں بہت تیز ہوا کرتی ہیں…‘‘

    بریلی شریف جب تشریف لے گئے تو فرمایا کہ :’’اِس وقت میری منزل مفتی اعظم ہیں…‘‘

    محبتوں کا ذکر فرماتے ہیں:’’ میں نے ہاتھ بڑھا کے سرکار مفتی اعظم کی دست بوسی کی۔ اُس کے بعد حضور مفتی اعظم نے میرے ہاتھ چومے…‘‘

    بارگاہِ مفتی اعظم سے واپسی کے ضمن میں فرماتے ہیں:’’کیا کیا لایا میں وہاں سے یہ تو میں جانتا ہوں یا میرا اللہ جانتا ہے…‘‘

    روحانیت اور خاندانی تعلقات کی بہاروں سے متعلق گویا ہیں: ’’ان کی روحانیت کا فیض آج بھی جاری و ساری ہے۔ اور ان شاء اللہ جاری و ساری رہے گا…وہ ایسی شخصیت ہیں،جتنے پاور فل وہ مزار شریف کے اوپر تھے، اس سے کہیں زیادہ پاور فل وہ مزار شریف کے اندر ہیں…یہ ہمارا ایمان ہے، ہمارا عقیدہ ہے…الحمدللہ رب العالمین، وہ میرے خاندان کی آبرو ہیں، آبرو... وہ بپوتی ہیں ہماری…خانقاہِ برکاتیہ کی آبرو ہیں وہ مفتی اعظم ہند قبلہ…آج جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ضرورت کیا ہے؟ ارے مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ضرورت ہم کو ہر قدم پر ہے…اگر مسلکِ اعلیٰ حضرت نہ ہو تو ہماری زندگی بیکار ہے…اگر اعلیٰ حضرت کا خاندان نہ ہوتا تو آج ہماری دُنیا میں پتہ نہیں کیا ہوتا۔‘‘(ص۱۳)

    ’’مسلمان کو مسلمان رکھنا یہ اعلیٰ حضرت کا کارنامہ ہے سب سے بڑا۔اور یہی اس خاندان کا کارنامہ ہے۔ سرکار مفتی اعظم کا کارنامہ ہے۔ جن کی صورت دیکھ کر نہ جانے کتنے مسلمان ہو گئے۔ ایسا نورانی چہرہ! ‘‘(ص۱۳)

    سبحان اللہ! نظمی میاں کیا خوب فرما گئے کہ: ’’ہاں! ہم نے غوث اعظم کو دیکھا ہے۔ ہم نے تو مصطفیٰ رضا خاں کو دیکھا ہے تو غوث اعظم کو دیکھا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے غوث اعظم کو۔ بے شک دیکھا ہے۔‘‘(ص۱۴)

    پوری تقریر قیمتی موتیوں کی مالا ہے۔ہر نگینہ چمک رہا ہے۔ مارہرہ شریف کے باغ میں بریلی شریف کا گُلِ ہزارہ مہک رہا ہے۔ خوشبو بکھیر رہا ہے۔ حضور نظمی میاں نے کئی جہتوں سے مشاہدات کی محفل سجائی ہے۔ آپ بھی تقریر کے تحریری گلدستے کی خوشبو سونگھیں۔ کتنے ہی گلوں کی کیاریاں سجی ملیں گی۔ اِس قدر اہم خطاب کو برقی سطح سے قرطاس کی بزم میں لاکر طباعت کا زیور پہنانے والے الحاج محمد سعید نوری اور زبیر قادری دونوں لائق مبارک و تہنیت ہیں…

    اللہ تعالیٰ ہمیں مارہرہ مطہرہ و بریلی شریف کی راہِ محبت کا مسافر بنائے…اور مَن کی دُنیا روشن رہے۔
٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے