خلیفہ سرکار مفتئ اعظم ہند، حضور اشرف الفقہاء حضرت علامہ مفتی محمد مجیب اشرف رضوی قادری اعظمی رحمۃ اللّٰه علیہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯️خلیفہ سرکار مفتئ اعظم ہند، حضور اشرف الفقہاء حضرت علامہ مفتی محمد مجیب اشرف رضوی قادری اعظمی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسم گرامی: محمد مجیب اشرف رضوی۔
القابات: خطیب الہند، اشرف العلماء، اشرف الفقہاء، شارح کلام رضا، مفسر قرآن، مناظر اہلسنت، مفتی اعظم مہاراشٹرا۔
سلسلہ نسب: محمد مجیب اشرف رضوی ابن الحاج صوفی محمد حسن اشرفی ابن حافظ جمیع اللّٰه علیہما الرحمہ۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت آپ کے وطن مالوف مدینۃ العلماء محلہ کریم الدین پور قصبہ گھوسی ضلع اعظم گڑھ یوپی میں 2 رمضان المبارک 1356ھ بمطابق 6 نومبر 1937ء بروز سنیچر بوقت سحر ہوئی۔

تعلیم و تربیت: آپ کا خاندان نہایت شریف اور معزز تھا۔ آپ کے خاندان میں بڑے بڑے علماء فضلاء اور ادباء پیدا ہوئے۔ خود آپ کے دادا (الحاج حافظ احمد صاحب علیہ الرحمہ) اپنے وقت کے عالم و فاضل اور حافظ قرآن تھے اور مسجد (جامع مسجد کریم الدین پور گھوسی) میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ اور آپ کے نانا جامع معقول و منقول بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صدیق صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ (بانی: مدرسہ اہلسنت مصباح العلوم مبارک پور، موجودہ جامعہ اشرفیہ) ہیں۔ آپ کے نانا، حضور صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰه علیہ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ 
جب آپ (حضور اشرف الفقہاء علیہ الرحمہ) کی عمر 4 سال 4 مہینے 4 دن ہوئی تو آپ کی رسم بسم اللّٰه خوانی ادا کی گئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم حضرت میاں جی تقی علیہ الرحمہ سے حاصل کی، بعدہٗ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم مدرسہ اہلسنت شمس العلوم سے ہوئی۔ 3 سال تک فارسی کتابیں حضرت مولانا سعید خاں اعظمی علیہ الرحمہ فتح پوری سے پڑھیں اور عربی کی چند کتابیں اپنے عم محترم حضرت مولانا شمس الدین صاحب سے اور باقی تمام کتابیں حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللّٰه علیہ سے پڑھیں۔
1951ء میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم پر حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ بسلسلۂ تدریس دارالعلوم فضل رحمانیہ پیچڑوا گونڈہ تشریف لے گئے تو حضور اشرف الفقہاء بھی اپنے مشفق کریم استاذ کے ساتھ دارالعلوم رحمانیہ چلے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک 14 سال تھی۔ آپ نے یہاں 2 سال رہ کر شرح جامی تک کی کتابوں کا درس حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ سے حاصل کیا اور چند کتابیں شہزادۂ صدر الشریعہ علامہ رضاء المصطفیٰ امجدی علیہ الرحمہ سے بھی پڑھیں۔
1953ء میں شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتیِ اعظم ہند رحمۃ اللّٰه علیہ نے حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ کو مرکزی ادارہ دارالعلوم مظہر اسلام میں درس و تدریس کے لیے بلا لیا تو حضور اشرف الفقہاء بھی دارالعلوم رحمانیہ سے بریلی شریف مظہر اسلام میں اپنے کریم استاذ کے ساتھ چلے گئے، آپ نے یہاں 6 سال رہ کر درس نظامی کو مکمل کیا اور 1957ء میں آپ کو سند فضیلت و فراغت سے نوازا۔

درس و تدریس: 1957ء میں جب حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ نے تعلیم و تربیت سے فراغت پائی تو اسی دوران ہندوستان کے مشہور و معروف اور قدیم اسلامی درسگاہ جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور کو ایک لائق و فائق نائب شیخ الحدیث کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ فقیہ ہند مفتی عبدالرشید فتحپوری علیہ الرحمہ نے حضور مفتئ اعظم ہند اور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہما الرحمہ کو خط روانہ فرمایا کہ جامعہ کے لیے ایک قابل اور محنتی نائب شیخ الحدیث روانہ فرمائیں۔ چنانچہ دونوں بزرگوں نے حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ کا انتخاب فرمایا۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک 20 سال تھی۔ اسی طرح یہ جواں نو خیز عالم نبیل و فاضل جلیل ناگپور کے لیے روانہ ہوگیا۔
1985ء میں حضرت قبلہ پہلی بار حضرت صدرالعلماء علامہ تحسین رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمہ کے ہمراہ تشریف لائے۔ اس وقت حضور صدر العلماء جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور کے مہتمم تھے۔
حضرت مفتی عبدالرشید فتحپوری نے آپ کی کم عمری کی بنا پر آپ کو بجائے جامعہ میں رکھنے کے جامعہ کی شاخ "کامٹی" میں منصف صدارت پر مقرر فرمایا۔ یہاں آپ نے عہدۂ صدارت پر فائز رہتے ہوئے تشنگان علوم دینیہ کی سیرابی کرتے رہے۔ چونکہ کامٹی کے مدرسہ میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دو صال خدمات انجام دے کر 1960ء میں استعفیٰ دے دیا اور حضرت مفتی اعظم ہند کی اجازت سے ناگپور کی "کچھی میمن مسجد" میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے پر مامور ہوگئے۔ ابھی چند ماہ گزرے بھی نہ تھے کہ حضرت مفتی عبدالرشید فتحپوری کو آپ کی اعلیٰ تدریسی صلاحیتوں کا اندازہ ہوا اور آپ نے حضرت علیہ الرحمہ کو جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور میں نائب شیخ الحدیث کے منصب پر فائز فرمایا، جامعہ میں حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ نے 1960ء سے 1965ء تک باقاعدہ پوری لگن محنت اور ذمہ داری کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔

بیعت و خلافت: جن مشائخ عظام و بزرگانِ دین متین نے حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ کو اجازت و خلافت سے نوازا ہے ان کے اسمائے مبارکہ مندرجہ ذیل ہیں:
1) 1955ء میں شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ سے دور طالب علمی میں مرید ہوئے اور 1960ء میں ناگپور کی سرزمین پر مرشد برحق حضور مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ نے سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی خلافت و اجازت سے نوازا۔
2) نائب مفتی اعظم ہند حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ نے آپ کو کل 14 سلاسل طریقت کی خلافت عطا فرمائی۔
3) 1983ء میں سلسلہ شاذلیہ کے مشہور و معروف بزرگ حضرت سید علاؤالدین طاہر گیلانی نے شہر کراچی میں خلافت و اجازت سے نوازا۔
4) 1991ء میں شہزادۂ غوث اعظم حضرت تاج العلماء شیخ عبدالعزیز کے فرزند ارجمند شیخ حضرت محمد یوسف گیلانی بغدادی نے بھی خلافت و اجازت سے نوازا۔

سیرت و خصائص: خلیفہ سرکار مفتئ اعظم ہند، حضور اشرف الفقہاء، اشرف العلماء، شارح کلام رضا، مفسر قرآن، مناظر اہلسنت، مفتی اعظم مہاراشٹرا، حضرت علامہ مفتی محمد مجیب اشرف رضوی قادری اعظمی رحمۃ اللّٰه علیہ۔
آپ کی ذات ستودہ صفات کو اللّٰه رب العزت نے گونا گوں خوبیوں سے بہرہ ور فرمایا تھا۔ آپ استقامت فی الدین کے کوہ گراں تھے۔ عبادت و ریاضت، صداقت و دیانت، اخوت و مساوات، محبت و انصاف، حلم و بردباری، علم و عمل، فضل و کمال، تقویٰ و پرہیز گاری، خشیت الٰہی، حق گوئی و بے باکی، حسن و جمال یہ تمام کمالات و خوبیاں آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔
ہندوستان کی زرخیز زمین میں ہزاروں علماء، فضلاء، فقہاء، محدثین، مفسرین اور مناظر پیدا ہوئے۔ جنہوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہند و بیرون ہند میں دین اسلام کی وہ نمایاں خدمات انجام دیں ہیں جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہیں نابغۂ روزگار جلیل القدر، شہرۂ آفاق شخصیتوں میں سے ایک حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ کی ذات بابرکت تھی آپ نے اپنی 85 سالہ زندگی میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، تاریخ اسلام اس کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔

حضور مفتئ اعظم ہند اور محدث اعظم ہند کی خصوصی عنایات:
شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتئ اعظم ہند علامہ محمد مصطفیٰ رضا نوری بریلوی اور حضور محدث اعظم ہند علامہ سید محمد اشرفی کچھوچھوی قدس سرہما نے بخاری شریف اور دورے کا امتحان بنفس نفیس لیا۔ حضور محدث اعظم ہند نے آپ کی سند پر بقلمِ خود یہ تحریر رقم فرمائی "الحمد اللّٰه المجید کہ حق بحق دار رسید" اور حضور مفتی اعظم ہند نے آپ کو اپنی سندِ حدیث اور اپنا جبہ مبارک و دستار مقدس عنایت فرمائی۔
علاوہ ازیں حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہٗ ہمیشہ آپ کو "ہمارے مولانا" کہہ کر پکارتے تھے۔

شہزادہ غوث اعظم کی خصوصی عنایت:
فضیلۃ الشیخ حضرت محمد یوسف گیلانی بغدادی نے آپ علیہ الرحمہ کو خلافت و اجازت سے نوازے کے ساتھ ساتھ 3 چادریں عنایت فرمائیں۔ جس میں ایک چادر کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ غلاف ایک سال تک متواتر حضور غوث اعظم رضی اللّٰه عنہ کے مزار مبارک پر چڑھا رہا۔

تاج الاسلام فقیہ العصر جانشین حضور مفتی اعظم ہند حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خان قادری ازہری رحمۃ اللّٰه علیہ نے مالیگاؤں شہر کے ایک جلسے میں فرمایا تھا کہ: "مجیب اشرف تو اپنے وقت کا مفتی ہے" سبحان اللّٰه

ازدواجی زندگی: 1952ء میں حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ کا اپنے ماموں جان حضرت مولانا غلام یزدانی کی بڑی صاحبزادی محترمہ عزیزہ بانو سے نکاح ہوا۔ آپ کے بڑے ماموں مولانا غلام جیلانی صاحب نے نکاح پڑھایا 1971ء میں محترمہ عزیزہ بانو کا انتقال ہوگیا تھا۔ بعدہٗ حضور اشرف الفقہاء نے دوسرا نکاح 1972ء میں محترمہ نجم النساء سے فرمایا۔

اولاد و امجاد: حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ کی کل 5 اولادیں محترمہ عزیزہ بانو کے بطن سے ہیں۔
2 شہزادے: الحاج محمد تنویر اشرف رضوی۔ حافظ محمد تحسین اشرف رضوی۔
3 صاحبزادیاں: راشدہ، حامدہ، اور عابدہ۔ 
زوجۂ ثانی محترمہ نجم النساء سے کوئی اولاد نہیں۔

دارالعلوم امجدیہ کا قیام: حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ پوری زندگی ہر دم متحرک اور ہر لمحہ ملت کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم رہے۔ آپ کے سینے میں قوم و ملت کا درد سچی تڑپ اور لگن موجزن رہی، ہر لمحہ فکر مند رہے، ہر لمحہ ملت اسلامیہ کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ آپ میں تعمیری جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
اسی جذبہ کے پیش نظر 1966ء میں ناگپور کی سرزمین پر "دارالعلوم امجدیہ" کا قیام عمل لایا۔ دارالعلوم امجدیہ تین ماہ تک بڑی مسجد آستانہ حضرت سیدنا بغدادی شاہ رحمۃ اللّٰه علیہ پر چلا۔ بعدہٗ "مسجد کھدان" نعل صاحب چوک میں ایک سال تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر وہاں سے کرایہ کے مکان میں دارالعلوم منتقل کر دیا۔ اس کرایہ کے مکان سے متصل جناب الحاج عبدالسبحان صاحب مرحوم کا ایک پلاٹ تھا، جس کو ان کے صاحبزادگان نے دارالعلوم کے لیے بلا معاوضہ دے دیا۔ 
پھر 4 سال بعد اسی پلاٹ پر حضور مفتی اعظم ہند اور حضور برہان ملت مفتی برہان الحق علیہما الرحمہ کے ہاتھوں دارالعلوم امجدیہ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اور ایک شاندار اور تاریخی نام ادارہ سے منسلک کر دیا یعنی "الجامعۃ الرضویہ" بعدۂ حضور مفتی اعظم ہند نے اپنی دعاؤں میں ارشاد فرمایا کہ "الٰہی اس ادارے کو مسلک اعلیٰ حضرت کا مضبوط قلعہ بنا دے" یہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کا ہی فیضان ہے کہ آج تک ملک کے تقریباً تمام صوبہ کے طلبہ اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔
دارالعلوم امجدیہ یہ ہندوستان کا وہ واحد ادارہ ہے جس کے تعمیری فنڈ میں 2 سالک (مفتی اعظم ہند اور برہان ملت) اور مجذوب (بابا منصور) نے چندہ دیا۔
حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ نے انتہائی محنت اور جانفشانی سے دارالعوام کو پروان چڑھایا اور تعمیری کام کی تکمیل کے بعد آپ اسی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ تبلیغی دورے اور زیادتی کار کی وجہ سے آپ کا تدریسی سلسلہ مستقل جاری نہ رہ سکا۔

تصنیف و تالیف: حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ نے قرطاس و قلم کے حوالے سے بھی قوم و ملت کی خاطر خواہ خدمت انجام دی ہے:
1) مسائل سجدہ سہو
2) ارشاد المرشد
3) پیکر استقامت و کرامت
4) خطبات کولمبو
5) تحسین العیادہ
6) تابش انوار مفتی اعظم ہند
(طباعت کے مراحل سے گزر چکی ہیں)
7) تنویر التوقیر ترجمہ الصلوۃ علی البشیر النذیر
8) المرویات الرضویہ فی الاحادیث النبویہ
(زیورِ طباعت سے آراستہ ہونے کو ہے)
اس کے علاوہ تین ہزار سے زائد فتاوے بھی تحریر شدہ ہیں جو "فتاویٰ اشرف الفقہاء" کے نام سے عنقریب منظر عام پر آئے گی۔

شعر و ادب: حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ کو شعر و ادب کا کافی ذوق و شوق تھا۔ آپ ایک اچھے سخن سنج، سخن داں، سخن شناس، اور سخن کے نکتہ ور تھے۔ شارحِ کلام رضا کی حیثیت سے دنیائے سنیت میں مشہور تھے۔ طبیعت موزوں ہے شعر کہتے تھے اور خوب کہتے تھے۔ لیکن شاعری کی طرف مستقل رغبت نہیں تھی۔ البتہ سفر حج کے دوران محبوب کردگار صلی ﷲ علیہ وسلم کے شہر پاک مدینہ منورہ میں عین دربار رسالت مآب صلی ﷲ علیہ وسلم میں حاضری کے وقت اکثر نعتیں قلم بند فرمائی ہیں۔ ایسی 30 یا 35 نعتیں ہیں جو کہ آپ نے مدینہ منورہ میں رقم فرمائی ہیں۔ ویسے حضرت نے شاعری کا آغاز زمانۂ طالب علمی ہی میں کر دیا تھا۔ چنانچہ 1954ء کے آس پاس جب آپ بریلی میں زیرِ تعلیم تھے یہاں ایک عظیم الشان آل انڈیا طرحی مشاعرہ منعقد ہوا، جس کی صدارت مشہور شاعر شکیل بدایونی کر رہے تھے، مصرع طرح تھا "کس طرح آتا ہے دل اور کس طرح جاتا ہے دل" حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ نے بھی اس مصرع پر طبع آزمائی فرمائی اور ایک نعت تحریر کرکے مشاعرہ گاہ پہنچے، مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا، مصرع طرح پر آپ نے جو گرہ لگائی تھی اس سن کر صدر مشاعرہ شکیل بدایونی نے آپ کو بہت داد دی اور 10 روپیے کے انعام سے بھی نوازا۔ شعر خاطر نشین کریں:

میں ازل سے اُن کا دیوانہ ہوں مجھ کو ہوش کیا
"کس طرح آتا ہے دل، اور کس طرح جاتا ہے دل"

غرض کہ آپ کا کلام بلاغت نظام شعری و فنی محاسن کا لہریں لیتا ہوا ایک دریا تھا۔ جس میں جذبہ و تخیل، معانی آفرینی، پیکر تراشی، ترکیب سازی، محاورات، محاکات، ایجاز و اختصار وغیرہ کے گوہر ہائے آبدار موجود تھا۔

زیارت حرمین شریفین: حضور اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ کو 32 مرتبہ حج و زیارت حرمین شریفین کی سعادت حاصل ہوئی۔ تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
1) 1984ء (2) 1986ء (3) 1988ء (4) 1989ء (5) 1991ء (6) 1992ء (7) 1994ء (8) 1995ء (9) 1996ء (10) 1997ء (11) 1998ء (12) 1999ء (13) 2000ء (14) 2001ء (15) 2002ء (16) 2003ء (17) 2004ء (18) 2005ء (19) 2006ء (20) 2007ء (21) 2008ء (22) 2008ء (23) 2009ء (24) 2010ء (25) 2011ء (26) 2012ء (27) 2014ء (28) 2015ء (29) 2016ء (30) 2017ء (31) 2018ء (32) 2019ء۔
نیز آپ عمرہ کی سعادت سے متعدد مرتبہ مشرف ہو چکے ہیں۔ خصوصاً رمضان المبارک کے مقدس و بابرکت مہینے میں آپ عمرہ کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔

تبلیغی دورے:
اندرون ملک تبلیغی اسفار: کرناٹک، آندھراپردیش، گجرات، مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش، اترپردیش، راجستھان، اور اڑیسہ جیسی ریاستوں کے سیکڑوں اضلاع، شہروں اور چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں آپ کے تبلیغی دورے ہوئے۔
بیرون ملک تبلیغی اسفار: حجاز مقدس، کویت، مصر، ایران، عراق، نیپال، سری لنکا، پاکستان، برطانیہ، دبئی، ساؤتھ افریقہ، ملاوی، موزمبیق، زامبیا، لیسوتھو، وغیرہ افریقن کنٹریز کے مختلف علاقوں میں بھی تبلیغی اسفار ہوئے۔ 

مناظروں میں شرکت:

1) جھریا، دھنباد (جھارکھنڈ) میں دیوبندیوں سے۔
2) بجرڈیہا (بنارس) میں غیر مقلدوں سے۔
3) فروری 2008 اٹارسی (مدھیہ پردیش) میں علمائے اہل سنت اور علمائے دیوبند کے درمیان مناظرہ میں شرکت ہوئی۔ جس میں آپ صدرِ مناظرہ تھے۔ (یہ مناظرہ یوٹیوب پر دیکھا جا سکتا ہے)
4) ناگپور میں اشرف الفقہاء رحمۃ اللّٰه علیہ اور ارشاد دیوبندی و طاہر گیاوی کے درمیان مناظروں میں شرکت ہوئی۔

وصال پاک: 15 ذی الحجہ 1441ھ بمطابق 6 اگست 2020ء بروز جمعرات دن کو تقریباً 10 بج کر 30 منٹ پر بعمر 85 آسمان علم و عمل کے نیر تاباں، عشق و عرفان کا ماہ تمام وصل محبوب کی لذتوں سے ہم کنار ہوگیا۔ 
آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی آخری آرام گاہ "مومن پورہ مسلم قبرستان" میں منتخب کی گئی جو ہر شخص کے لیے فیض و کرم کا دریۂ عام بنا۔

ماخذ و مراجع: تابشِ انوار مفتی اعظم ہند، خطبات کولمبو، تعلیمی نصاب دارالعلوم امجدیہ ناگپور، تذکرہ مجیب، ارشاد المرشد، مسائل سجدہ سہو، مناقب اشرف الفقہاء۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب📝 شمـــس تبـــریز نـــوری امجـــدی بانی گروپ فیضـــانِ دارالعـــلوم امجـــدیہ ناگپور 966551830750+📲
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے