کفرفقہی کے اقسام واحکام ‏/ ‏قسط ‏ہشتم ‏/ ‏معتزلہ،نصاریٰ اورمجسمہ کا بیان

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

کفرفقہی کے اقسام واحکام

(قسط ہشتم)

معتزلہ،نصاریٰ اورمجسمہ کا بیان
  
قسم ہفتم میں معتزلہ کا تفصیلی حکم بیان کیاگیا ہے۔ معتزلہ ضروریات دین کوتسلیم کرتے ہیں۔تاویل کے ساتھ ضروریات اہل سنت میں سے بعض امور کے منکر ہیں،اسی لیے وہ متکلمین کے یہاں گمراہ ہیں،کافر نہیں۔معتزلہ فقہا کے یہاں کافرفقہی ہیں۔

نصاریٰ بھی صفات الٰہیہ میں تاویل کرتے ہیں،لیکن ان کی تاویل کے سبب تین معبود کا ثبوت ہوجاتا ہے، لہٰذاوہ اصحاب توحید میں شمار نہیں کیے جاسکتے۔یہ زمانہ فترت کے نصاریٰ کا حکم ہے۔ بعد کے نصاریٰ آخری نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نبوت کا انکارکرنے کے سبب کافر ہیں۔اب یہ لوگ اگر توحید خالص کا اقرار بھی کریں تو بھی مومن نہیں ہوسکتے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے کفریات ہیں،مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینا،وغیرہ۔

 نصاریٰ اصحاب توحید نہیں
 
کفر معلوم کا لزوم بھی التزام ہے،یعنی جب قائل کوعلم ہے کہ اس قول پر کفر لازم آتا ہے، اس کے باوجود اس نے وہ قول کیا تویہ لزوم بھی التزام کی منزل میں ہے،اورقائل پر حکم کفر عائد ہوگا۔لزوم کفر کی صورت میں متکلمین کے یہاں اس وقت حکم کفرعائد ہوگا،جب ضروریات دین میں سے کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو،اور قائل کو اس کا علم ہو۔اگر قائل کواس کا علم نہیں،یاضروری دینی کا انکار لازم نہ آئے،توکفر نہیں۔اسی طرح قائل لازم کا انکار کرے،توبھی کفر کلامی کا حکم نہیں،جیسے معتزلہ کے قول سے صفات الٰہیہ کا انکار لازم آتا ہے،لیکن وہ لازم کا انکار کرتے ہیں۔

 نصاریٰ نے صفات الٰہیہ کی ایسی تاویل کی کہ اس سے تین قدیم اور واجب الوجود ذات کا وجود ثابت ہوگیا،لہٰذا بطلان توحید کے سبب وہ اہل توحید نہیں۔

قال التفتازانی:((وہی لاہوولاغیرہ)یعنی صفات اللّٰہ تعالٰی لیست عین الذات ولا غیرالذات فلا یلزم قدم الغیر ولاتکثرالقدماء-والنصارٰی وان لم یُصَرِّحُوابالقدماء المتغایرۃ لکن لزمہم لانہم اَثبَتُوا الاقانیمَ الثلثۃَ التی ہی-الوجود والعلم والحیا ۃ-وَسَمُّوہا الاب والابن وروح القدس- وَزَعَمُوا اَنَّ اقنوم العلم قد انتقل الٰی بدن عیسٰی علیہ السلام-فَجَوَّزُوا الانفکاک والانتقال فکانت الاقانیم ذوات متغایرۃ)(شرح العقائد النسفیہ: ص46-مجلس برکات مبارک پور)

توضیح:نصاریٰ نے اقانیم ثلاثہ کا قول کیا۔ وجود، علم اورحیات۔نصاریٰ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جوہر ہے جوتین اقنوم پرمشتمل ہے۔ وجود سے مراد باپ یعنی اللہ تعالیٰ ہے۔علم سے مراد بیٹا یعنی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام ہیں اور حیات سے مراد روح خداوندی ہے۔ان کے یہاں ان تینوں کا مجموعہ خدا ہے۔

نصاریٰ نے تین مستقل اور متغایر خدا ہونے کی صراحت نہیں کی،یعنی یہ نہیں کہا کہ یہ تینوں بالذات ایک دوسرے سے الگ اور مستقل طورپر خدا ہیں،بلکہ تینوں کے مجموعہ کوایک مانا، لیکن ان لوگوں نے کہا کہ اقنوم علم حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے جسم مبارک کی طرف منتقل ہوگیا تو ان لوگوں کے قول کے مطابق تین اقنوم میں سے ایک اقنوم،ذات الٰہی سے جدا ہو گیا اور منتقل ہوکرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم میں آگیا،پس اس سے بالکل واضح ہو گیا کہ اقنوم علم بذات خود کوئی ذات ہے،جو منتقل ہوسکتاہے،کیوں کہ صفت اپنے موصوف سے جدا نہیں ہوتی،بلکہ صفت اپنے موصوف کے ساتھ قائم ہوتی ہے،وہ قائم بالغیر ہوتی ہے۔ ذات جدا ہوتی ہے،کیوں کہ ذات قائم بالذات ہوتی ہے۔

نصاریٰ کے قول سے لازم آیا کہ اقنوم علم ایک مستقل ذات اور قائم بالذات امر ہے۔ یہ صفت نہیں،پس متعد د واجب الوجود ذات اور متعددقدیم ذات کا وجود لازم آیا،اور نصاریٰ اقنوم علم کے مستقل ذات ہونے کا انکار بھی نہیں کرتے،لہٰذا لزوم کفر کا علم اوراس کے عدم انکار کے سبب کفر لزومی،کفر التزامی ہوگیا۔

الحاصل ان کے عقیدہ سے تین متغایر ذات کا وجود لازم آیا اوروہ اس تثلیث کے منکر نہیں،بلکہ تثلیث ان کے بنیادی عقائد میں سے ہیں، اور متعدد ذات کو قدیم اور واجب الوجود ماننا کفرکلامی اور توحید کے منافی ہے،پس وہ کافر اور غیر موحد ثابت ہوئے۔

علامہ فرہاری نے رقم فرمایا:(زعموا ان الذات المقدسۃ نفس ہذہ الصفات الثلاثۃ-وسموہا اقانیم-لانہا اصل الموجودات) 
(النبراس شرح شرح العقائد ص265)
ترجمہ:نصاری نے کہا کہ (اللہ تعالی کی) ذات مقدسہ بعینہ یہ تین صفات(کا مجموعہ)ہے۔اور ان صفات کا نام اقانیم رکھا,کیوں کہ یہ تینوں موجودات کی اصل ہیں۔

علامہ فرہاری نے نصاریٰ کے التزام کفر کی وضاحت کرتے ہوئے رقم فرمایا:
(البحث الاول:بانہ تقرر فی الشرع ان التزام الکفرکفر،لا لزومہ- والا لزم تکفیر کثیر من اہل القبلۃ-والنصاری لم یلتزموا التکثر-ولکن لزمہم من الانتقال-اجیب بوجہین:احدہما ان النصاری التزموہ بعد ما ظہر لہم)(النبراس شرح شرح العقائد ص266-مکتبہ یاسین ترکی)

توضیح:نصاریٰ نے التزامی طورپر یہ نہیں کہا کہ متعدد ذات قدیم ہیں،لیکن ان لوگوں نے کہا کہ اقنوم علم منتقل ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے جسم مبارک میں آگیا،اور صفت منتقل نہیں ہوتی ہے،بلکہ ذات منتقل ہوتی ہے،لہٰذا اقنوم علم صفت نہیں، بلکہ اس کا ایک ذات ہونا لازم آیا،اور نصاریٰ نے اقنوم علم کے مستقل ذات ہونے کا انکار نہیں کیا۔

قال الخیالی:((قولہ لکن لزمہم ذلک)قیل علیہ-اللزوم غیر الالتزام ولا کُفرَ الا بالالتزام-وجوابہ:ان لزوم الکفر المعلوم کفرٌ ایضًا ولذا قال فی المواقف:من یلزمہ الکفر ولایعلم بہ فلیس بکافر-ولا شَکَّ ان لزوم الذاتیۃ للانتقال من اجلی البدیہات علٰی ان قولہ تعالٰی-وَمَا مِن اِلٰہٍ اِلَّااِلٰہٌ وَاحِدٌ-بَعدَ قولہ تعالٰی(لَقَد کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوااِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ)شَاہِد صدقٌ عَلٰی اَنَّہُم کَانُوا یَقُولُونَ بِاٰلِہَۃٍ وَذَوَاتٍ ثَلٰثَۃٍ)(حاشیۃ الخیالی: ص۱۷)

توضیح:(ان لزوم الذاتیۃ للانتقال من اجلی البدیہیات)سے مراد یہ ہے کہ جو منتقل ہوگا،اس کا ذات ہونا لازم ہے۔ کوئی صفت اپنے موصوف سے منتقل ہوکر دوسرے جسم میں نہیں جا سکتی،مثلاًزید کی کڈنی نکال کر بکر کے جسم میں لگائی جا سکتی ہے،لیکن زید کا علم بکر کے جسم تک منتقل نہیں کیا جا سکتا۔

نصاریٰ کے عقیدۂ انتقال کے سبب اقنوم علم، اللہ تعالیٰ کی صفت ثابت نہ ہوسکا،بلکہ وہ ایک مستقل ذات ثابت ہوگیا جو منتقل ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک میں آگیا۔ چوں کہ نصاریٰ اقنوم علم کے مستقل ذات ہونے کا انکاربھی نہیں کرتے،حالاں کہ انہیں معلوم ہے کہ اقنوم علم کے منتقل ہونے کا قول کرنے سے اس کا ذات ہونا لازم آتاہے، اور لزوم کے عدم انکار کے سبب لزوم،التزام کی منزل میں آگیا،پس ان کے عقیدہ کے اعتبار سے متعدد واجب الوجود ذات کاوجود ثابت ہوگیا۔متعدد واجب الوجود ذات کا عقیدہ رکھنا کفر ہے،پس نصاریٰ پرالتزام کفر کا حکم عائد ہوگا۔
  
آیت مقدسہ (قالوا ان اللہ ثالث ثلثۃ)سے ثابت ہے کہ نصاریٰ تین ذات اور تین معبود کے قائل تھے۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کوکافر قرار دیا۔

قال السیالکوتی:((قولہ وان لزوم الکفر المعلوم کفرٌ ایضًا)یعنی کما ان التزامَ الکفر کُفرٌ-کذلک لزوم الکفر المعلوم کفرٌ-لان لزوم الشیء مع العلم بہ التزام)(حاشیۃ السیالکوتی علی الخیالی: ص129)

ترجمہ:کفر معلوم کا لزوم بھی التزام ہے۔یعنی جس طرح التزام کفر،کفر ہے،اسی طرح کفر معلوم کا لزوم، کفرہے،اس لیے کہ علم کے ساتھ کسی چیز کا لزوم،التزام ہے۔ 
 
قال السیالکوتی:((قولہ ولذا قال فی المواقف)فان تقییدہ بقولہ- وَلَا یَعلَمُ بِہ-یَدُلُّ بِالمَفہُومِ المُخَالِفِ عَلٰی اَنَّہ اِن عَلِمَ بِہ یَکفُرُ)
(حاشیۃ السیالکوتی علی الخیالی:ص129)

توضیح:(لا یعلم بہ)کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر لزوم کفر کا علم ہے تو حکم کفر عائد ہوگا۔

صفات غیر ثابتہ کا اثبات:

قال الہیتمی:(ومنہا القول الذی ہو کُفرٌ سَوَاءٌ صَدَرَعَن اِعتِقَادٍ اَو عِنَادٍ اَو اِستِہزَاءٍ-فََمِن ذٰلک اِعتِقَادُ قِدَمِ العالم اوحدوث الصانع-اونفی ما ہو ثابت للقدیم بالاجماع المعلوم من الدین بالضرورۃ کَکَونِہ عَالِمًا اَو قَادِرًا وَکَونِہ یَعلَمُ الجُزءِیَّاتِ-اَو اِثبَاتُ ما ہو منتفٍ عنہ بالاجماع کذٰلک کالالوان او اثبات الاتصال والانفصال لہ)(الاعلام بقواطع الاسلام:ص351)

 توضیح:ضروریات دین کا انکار کفر ہے،مثلاً رب تعالیٰ سے کسی ایسے امر کی نفی کیا جو رب تعالیٰ کے لیے ثابت ہے،اور اس کا ثبوت ضروریات دین سے ہے تو یہ نفی کفر ہے۔

اسی طرح رب تعالیٰ کے لیے کوئی ایساامر ثابت کیا جورب تعالیٰ کے لیے ثابت نہیں اور اس کی نفی ضروریات دین میں سے ہو تو یہ اثبات کفر ہے۔ ضروریات دین کے خلاف ہراثبات ونفی کفر کلامی ہے۔اللہ تعالیٰ کے لیے لون ورنگ،اتصال وانفصال ثابت کرنا کفر ہے۔ یہ سب حوادث کی کیفیات ہیں اور اللہ تعالیٰ حوادث کی صفات سے متصف نہیں، کیوں کہ حوادث کی صفات بھی حادث ہیں،جب کہ اللہ تعالیٰ کی صفات قدیم اور ازلی ہیں۔

علامہ تفتازانی نے صفات الٰہیہ کے بارے میں رقم فرمایا:(ازلیۃ،لا کما یزعم الکرامیۃ من ان لہ صفات لکنہا حادثۃ-لاستحالۃ قیام الحوادث بذاتہ) 
( شرح العقائد النسفیہ:ص65-مجلس برکا ت مبارکپور)


مجسمہ کے اقسام واحکام:

قال الہیتمی:(والمشہور من المذہب کما قالہ جمعٌ متأخرون ان المجسمۃ لا یُکَفَّرُونَ لکن اطلق فی المجموع تکفیرہم-وینبغی حمل الاول علٰی ما اذا قالوا:جسم لا کالاجسام-والثانی علٰی ما اذا قالوا:جسم کالاجسام-لان النقص اللازم عَلَی الاَوَّلِ قد لایلتزمونہ وَمَرَّ اَنَّ لَازِمَ المَذہَبِ غَیرُمَذہَبٍ-بخلاف الثانی فانہ صریح فی الحدوث والترکیب والالوان والاتصال فیکون کفرًا-لانہ اَثبَتَ لِلقَدِیمِ مَا ہو منفی عنہ بالاجماع-وَمَا عُلِمَ من الدین بالضرورۃ انتفاۂ عنہ-ولا ینبغی التوقف فی ذلک)(الاعلام بقواطع الاسلام:ص358)

 توضیح:مجسمہ کافر ہیں یا نہیں؟دراصل دو مذہب کے سبب مجسمہ کے بارے میں دو قول ہیں۔ایک مذہب کے مطابق وہ گمراہ ہیں اور ایک مذہب کے مطابق کافر ہیں۔

(۱)اگر مجسمہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم والا ہے،لیکن رب تعالیٰ کا جسم ہمارے جسم کی طرح نہیں تو یہ ضلالت وگمرہی ہے۔

(۲)اگر مجسمہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم والا ہے،جیسے کہ ہمارا جسم ہے تو یہ کفر کلامی ہے،کیوں کہ جب ہماری طرح جسم ثابت کیا گیا توحادث ہونا،مرکب ہونا،محتاج ہونا،مخلوق ہونا،رنگ والا ہونا اور بہت سے نقائص ثابت ہوگئے پس یہ کفر کلامی ہے۔اس عقیدہ سے آیت قرآنیہ(لیس کمثلہ شئ) کا صریح ومفسرانکار ہوگیا،اور یہ کفر کلامی ہے۔


صریح انکار اورلزومی انکار میں فرق:

قال الہیتمی:(وَقَد اَشَارَ اِبنُ الرَّفعَۃِ الٰی مدرک القول بالکفر والقول بعدمہ-بما حاصلہ ان المخالفین لِصِفَات الباری تَعَالٰی الذی ہو متصفٌ بہا-اِنَّمَا لَم یُحکَم بِکُفرِہِم-لانہم یعترفون باثبات الربوبیۃ لِذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَہِیَ وَاحِدَۃٌ-والقول بالکفر نَظرًا اِلٰی اَنَّ تَغیِیرَ الصِّفَاتِ بما لایعتبر فیہ النظرُ والعیانُ بمنزلۃ تغییر الذات-فَکُفِّرُوا لِاَنَّہُم لَم یَعبُدُوا اللّٰہَ سبحانہ وَتَعَالٰی المُنَزَّہُ عَنِ النَّقصِ-لانہم عَبَدُوامَن صِفَتُہ کَذَا وَکَذَا-وَاللّٰہُ سُبحَانَہ مُنَزَّہٌ عَن ذٰلِکَ-فَہُم عَابِدُونَ لِغَیرِہ بہذا الاعتبار-قال وہذا ما یحکٰی عن اختیار شیخ الاسلام ابن عبد السلام قَدَّسَ اللّٰہُ رُوحَہ-انتہٰی۔
وَمَیلُ کلام ابن الرفعۃ الٰی عدم التکفیر وہوکذلک وَاِن لَزم علٰی ہذا الاعتقاد نقص-لان لازمَ المَذہَبِ غَیرُ مَذہَبٍ کَمَا یَاتِی-ومن ثم قال الاسنوی:المجسمۃ ملزمون بالالوان وبالاتصال وبالانفصال مع انا لا نکفرہم علی المشہور کما دل علیہ کلام الشرح والروضۃ فی الشہادات :الخ-وسیاتی الجمع بین ہذا وقول النووی عَفَااللّٰہُ تَعَالٰی عَنہ فی شرح المہذب بکفرہم-فالحاصل اَنَّ مَن نَفٰی اَو اَثبَتَ مَا ہُوَ صَرِیحٌ فی النقص کَفَرَ -اَو مَا ہُوَ ملزومٌ لِلنَّقصِ فَلَا)(الاعلام بقواطع الاسلام: ص351)

 توضیح:علامہ ہیتمی کے قول سے واضح ہوگیا کہ جس نفی واثبات میں رب تعالیٰ کی صریح تنقیص ہو،وہ کفر کلامی ہے،اور جس سے نقص لازم آئے،وہ متکلمین کے یہاں کفر نہیں، کیوں کہ متکلمین لازم مذہب کومذہب نہیں مانتے۔

طارق انورمصباحی
 
جاری کردہ: 27:اگست 2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے