تکفیرفقہی:اقسام واحکام
قسط یازدہم
ضروریات اہل سنت کے منکر کاحکم
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز نے تحریر فرمایا:
”مانی ہوئی باتیں چارقسم کی ہوتی ہیں:
ضروریات دین:ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی قطعیات الدلالات واضحۃ الافادات سے ہوتا ہے، جن میں نہ شبہے کی گنجائش، نہ تاویل کی راہ، اور ان کا منکر یاان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے۔
ضروریات مذہب اہل سنت وجماعت: ان کاثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے، مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوع شبہہ اورتاویل کا احتمال ہوتا ہے،اسی لیے ان کا منکر کافر نہیں، بلکہ گمراہ،بدمذہب، بددین کہلاتا ہے۔
ثابتات محکمہ:ان کے ثبوت کو دلیل ظنی کافی،جب کہ اس کا مفاد اکبررائے ہوکہ جانب خلاف کومطروح ومضمحل اورالتفات کے ناقابل بنادے۔اس کے ثبوت کے لیے حدیث آحاد،صحیح یاحسن کافی،اورقول سواد اعظم وجمہور علما کی سندوافی:فان ید اللہ علی الجماعۃ۔
ان کا منکر وضوح امر کے بعد خاطی وآثم،خطاکاروگناہگار قرار پاتا ہے۔نہ بددین وگمراہ،نہ کافر وخارج از اسلام۔
ظنیات محتملہ:ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیل ظنی بھی کافی،جس نے جانب خلاف کے لیے بھی گنجائش رکھی ہو۔ان کے منکر کو صرف مخطی وقصور وار کہا جائے گا۔نہ گناہگار،چہ جائیکہ گمراہ،چہ جائیکہ کافر۔
ان میں سے ہربات اپنے ہی مرتبے کی دلیل چاہتی ہے۔جوفرق مراتب نہ کرے، اور ایک مرتبے کی بات کواس سے اعلیٰ درجے کی دلیل مانگے،وہ جاہل بے وقوف ہے یا مکار فیلسوف“۔ (فتاویٰ رضویہ ج۹۲ ص ۵۸۳-جامعہ نظامیہ رضویہ: لاہور)
ضروریات اہل سنت کی چند تعبیرات مندرجہ ذیل ہیں:
(الف)ضروریات دین کی قسم دوم
(ب) قطعیات غیر ضروریہ
(ج)نظریات یقینیہ
(د)غیر ضروری اجماعی امور۔
احکام کا اجمالی بیان
(1) علم قطعی کے بعدضروریات دین کا انکارتاویل کے ساتھ ہو،یابلاتاویل ہو، دونوں صورت میں کفر کلامی کا حکم عائدہوگا۔بشرطے کہ انکار مفسر ہو۔
(2) ضروریات اہل سنت کی قطعیت کاعلم ہونے کے بعدتاویل کے ساتھ انکار فقہائے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں کفر اور متکلمین کے یہاں گمرہی ہے۔
(3)ضروریات اہل سنت کی قطعیت کاعلم ہونے کے بعدان کا بلاتاویل انکار استخفاف بالدین اورکفر کلامی ہے،جب کہ انکار مفسر(صریح متعین) ہو۔
ضروریات اہل سنت کا ثبوت ان دلیلوں سے ہوتا ہے،جس میں احتمال بلادلیل ہوتا ہے،یعنی قطعی بالمعنی الاعم دلائل سے ہوتا ہے۔ ضروریات اہل سنت کے انکار پر فقہا ئے احناف اور ان کے مؤیدین حکم کفر جاری کرتے ہیں اور متکلمین حکم ضلالت نافذکرتے ہیں۔
(۱)قال القاضی عیاض:(ذہب عبید اللّٰہ بن الحسن العنبری الٰی تصویب اقوال المجتہدین فی اصول الدین فِیمَا کَانَ عُرضَۃً لِلتَّاوِیلِ- وَفَارَقَ فی ذٰلک فرق الامۃ اِذ اَجمَعُوا سواہ علٰی ان الحق فی اصول الدین فی واحد والمخطیء فیہ اٰثمٌ عاصٍِ فاسقٌ-وانما الخلاف فی تکفیرہ)
(کتاب الشفاء:جلددوم:ص281)
توضیح:ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت دونوں کا شمار اصول دین میں ہوتا ہے۔ قطعی علم ہونے کی حالت میں ضروریات دین کاانکار ہوتو کفر کلامی ہے۔
تاویل فاسد کے ساتھ ضروریات اہل سنت کے انکار پر بہت سے فقہا حکم کفر عائد کرتے ہیں اور متکلمین اور بہت سے فقہا ضلالت وگمرہی کا حکم عائد کرتے ہیں۔
منقولہ بالا عبارت میں ”فیما کان عرضۃ للتاویل“سے قطعی بالمعنی الاعم امور مراد ہیں، جن میں احتمال بعید کی گنجائش ہوتی ہے۔ایسے امورضروریات اہل سنت میں شمار ہوتے ہیں۔ اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اصول دین میں دونوں قسم کے امو ر کا شمار ہوتا ہے۔
جن اصول دین کے دلائل میں احتمال بعید ہو، ان کو ضروریات دین قسم دوم میں شمار کیا جاتا ہے۔ضروریات دین کی قسم دوم کوضروریات اہل سنت کہا جاتا ہے۔
اہل سنت وجماعت کاعقیدہ ہے کہ اصول دین میں ایک ہی قول حق ہے۔اس کے علاوہ سب باطل۔اصول دین کی دونوں قسموں کے انکار کا حکم جدا گانہ ہے۔
قال القاری:(قد ذہب(الی تصویب اقوال المجتہدین)اجمعین(فی اصول الدین)ولوکانوا من المبتدعین(فیما کان عرضۃ للتاویل)ای قابلا لہ مما لم یرد فیہ نص صریح کتاویل المعتزلۃ انہ تعالٰی متکلم بخلقہ الکلام فی جسم متمسکین بشجرۃ موسی علیہ الصلٰوۃ والسلام(وفارق)العنبری (فی ذلک)القول(فرق الامۃ)ای طوائفہا من الناجیۃ وغیرہا(اذ اجمعوا سواہ علی ان الحق فی اصول الدین واحد والمخطئ فیہ آثم عاص فاسق وانما الخلاف فی تکفیرہ)علی ما سبق بعض تحریرہ-واما فروع الدین فالمخطئ فیہا معذور بل ماجور باجر واحد-والمصیب لہ اجران کما فی حدیث ورد بذلک)(شرح الشفا جلددوم:ص507-دار الکتب العلمیہ بیرو ت)
توضیح:فروع دین سے یہاں امورعملیہ اجتہادیہ یعنی مسائل فقہیہ اجتہادیہ مراد ہیں۔ یعنی ظنی امور مراد ہیں جن میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔مجتہد اپنے دلائل کی روشنی میں ظنی امور میں اختلاف کرے تو یہ جائز وصحیح ہے۔ اگر حق کو پالے تو دواجرہے،لغزش ہوجائے تو ایک اجر ہے۔قطعیات کی دونوں قسموں یعنی قطعی بالمعنی الاخص وقطعی بالمعنی الاعم میں اجتہاد جاری نہیں ہوتا۔ اجتہاد کے ذریعہ نئی راہ اختیار کرنے والے پر شرعی حکم وارد ہوگا۔
مندرجہ ذیل امور میں اجتہاد جاری نہیں ہوگا۔
(۱)قطعی الثبوت بالمعنی الاخص وقطعی الدلالت بالمعنی الاخص۔
(۲)قطعی الثبوت بالمعنی الاخص وقطعی الدلالت بالمعنی الاعم۔
(۳)قطعی الثبوت بالمعنی الاعم وقطعی الدلالت بالمعنی الاخص۔
(۴)قطعی الثبوت بالمعنی الاعم وقطعی الدلالت بالمعنی الاعم۔
مندرجہ ذیل امور میں اجتہاد جاری ہوگا۔
(۱)قطعی الثبوت بالمعنی الاخص وظنی الدلالت
(۲)قطعی الثبوت بالمعنی الاعم وظنی الدلالت
(۳)ظنی الثبوت وقطعی الدلالت بالمعنی الاخص
(۴)طنی الثبوت وقطعی الدلالت بالمعنی الاعم
(۵)ظنی الثبوت وظنی الدلالت۔
(۶)جس بارے میں نہ نص وارد نہ ہو،نہ ہی اجماع قائم ہو۔
بعض اصطلاحات کی وضاحت
(الف)دینی امور میں قطعی الثبوت بالمعنی الاخص وہ امرہے جوحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قطعی طورپرثابت ہو،اورعدم ثبوت کا احتمال بعید بھی نہ ہو۔
قطعی الثبوت بالمعنی الاخص کی دو قسمیں ہیں۔
(۱)وہ امر دینی جس کو کسی صحابی نے حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک سے سماعت کیا ہو۔ ان کے حق میں وہ قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہے۔
(۲)اسی طرح جو امر حضور اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام سے متواتر ہو،وہ قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہے۔لفظ متواتر ہو تو وہ لفظ قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہے،جیسے قرآن مجید کے تمام الفاظ وحروف۔ اگر معنی متواتر ہو تو وہ معنی قطعی الثبوت ہے،جیسے ختم نبوت کا معنی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بعثت اوردنیا میں جلوہ گری کے اعتبار سے سب سے آخری نبی ہیں۔آیت قرآنیہ میں وارد لفظ (خاتم النبیین) کا یہی مفہوم حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متواتر ہے۔
(ب)دینی امور میں قطعی الثبوت بالمعنی الاعم وہ امرہے جوحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قطعی طورپرثابت ہو،لیکن عدم ثبوت کا احتمال بعید ہو،جیسے وہ احادیث طیبہ جو متواتر معنوی ہیں۔
(ج)قطعی الدلالت بالمعنی الاخص وہ ہے کہ اس کے معنی مراد میں دوسرے معنی کا احتمال بعید بھی نہ ہو۔اس کو حنفی اصول فقہ میں ”مفسر“کہا جاتا ہے۔
(د) قطعی الدلالت بالمعنی الاعم وہ ہے کہ اس کے معنی میں دوسرے معنی کا صرف احتمال بعید ہو۔ احتمال قریب نہ ہو۔حنفی اصول فقہ میں نص اور ظاہراسی قبیل سے ہے۔
قال الخفاجی:(وذہب(الی تصویب اقوال المجتہدین)ای القول بانہا صواب(فی اصول الدین)مما یتعلق بالاعتقاد کالاجتہاد فی الفروع (فیما کان عرضۃ)ای قابلا(للتاویل)وفی الاساس:فرس عرضۃ للسباق ای قویۃ علیہ مطیقۃ لہ،انتہی-کانہ لقابلیتہ تعرض لہ(وفارق)ای خالف العنبری(فی ذلک)القول الذی قالہ فی تجویزہ الاجتہاد فی اصول الدین وفارق(فرق الامۃ)من علماء الشرع والسنۃ والمتکلمین،فانہا امور سمعیۃ لابد فیہا من نقل صحیح(اذ اجمعوا)ای علماء الامۃ(سواہ)ای غیر العنبری(علی ان الحق فی اصول الدین)والعقائد(فی واحد)لا یقبل التعدد لبراہینہ القطعیۃ فلیس کالفروع التی ہی محل الاجتہاد۔
وذہب بعضہم الی ان کل مجتہد فیہا مصیب وفی نسخۃ ”فی الواحد“(والمخطئ فیہ)الذی لم یصادف الحق الواحد(آثم عاص فاسق)لعدولہ عن الحق برأیہ(وانما الخلاف فی تکفیرہ)باجتہادہ المخطئ فیما لیس محل الاجتہاد-وانما محلہ الفروع العملیۃ فہو مثاب فی اجتہادہ سواء قلنا:المصیب واحد ام لا؟ علی ما اشتہر فی الاصول-اما فی اصول الدین فالمصیب واحد قطعًا فلا وجہ للاجتہاد فیہا،وان بذل وسعہ وجہدہ)(نسیم الریاض ج۶ص۸۳۳-دار الکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:اصول دین میں قابل تاویل امور سے ضروریات دین کی قسم دوم مرادہے جو قطعی بالمعنی الاعم دلائل سے ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے منکر کی تکفیر میں اختلاف ہے۔متکلمین اس کے منکر کوضال وگمراہ کہتے ہیں اور فقہائے احناف اوراس کے مؤیدین کافر کہتے ہیں۔
ضروریات اہل سنت کا انکاراور غیرحنفی فقہا:
ضروریات اہل سنت کے انکار پر حکم کفر جاری کرنے میں بہت سے غیر حنفی فقہا بھی فقہائے احناف کے ساتھ ہیں۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے اجماع منصو ص (اجماع قولی،غیر سکوتی)سے جوامر ثابت ہو، و ہ ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔اس کے انکار پر فقہائے احناف اوران کے مؤیدین حکم کفر نافذکرتے ہیں،بشرطے کہ وہ امر اجماعی تواتر کے ساتھ منقول ہو۔
(۱)قال بحرالعلوم الفرنجی محلی فی بحث الاجماع:((انکار حکم الاجماع القطعی)وہو المنقول متواترًا من غیر استقرار خلاف سابق علیہ(کفر عند اکثر الحنفیۃ وطائفۃ)ممن عداہم،لانہ انکار لما ثبت قطعا انہ حکم اللّٰہ تعالی(خلافا لطائفۃ)قالوا:حجیتہ وان کان قطعیا لکنہا نظریۃ فدخل فی حیز الاشکال من حیز الظہورکالبسملۃ(ومن ہہنا)ای من اجل ان انکار حکمہ لیس کفرا(لم تکفر الروافض)مع کونہم منکرین لخلافۃ خلیفۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم حقا،وقد انعقد علیہ الاجماع من غیرارتیاب)
(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت:جلددوم:ص294-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:منقولہ بالا عبارت میں (وطائفۃ)ممن عداہم)سے مراد یہ ہے کہ بہت سے غیر حنفی فقہا بھی قطعیات (ضروریات اہل سنت)کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔
اجماع، قیاس اورخبر واحد کا دلیل شرعی ہونا حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت نہیں،بلکہ دلائل سے ثابت ہے۔ان امور کے دلیل شرعی ہونے پر حضرات صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ اجماع شرعی کا دلیل شرعی ہونا امورمتواترہ اورضروریات دین سے نہیں، اس لیے اجماع سے ثابت ہونے والے امور بھی ضروریات دین سے نہیں۔
ضروریات دین میں جو اجماع پایا جاتا ہے،وہ اجماع شرعی نہیں،بلکہ اجماع متصل ہے۔ اجماع شرعی اور اجماع متصل کی بحث ”ضروریات دین اور عہد حاضر کے منکرین“ (دفتر اول)میں مرقوم ہے۔
(۲)قال الامام احمد رضا القادری:(اقول:تحقیق المقام اَنَّ اَکثَرَ الحَنفیۃ یُکَفِّرُونَ بانکارکل مقطوع بہ -کما ہومُصَرَّحٌ فی ردالمحتار وغیرہ-وہم ومن وافقہم،ہم القائلون بانکارکل مجمع علیہ-بَعدَ مَا کَانَ الاِجمَاعُ قَطعِیًّا نَقلًا وَدَلَالَۃً-وَلَاحَاجَۃَ اِلٰی وجود النص-وَالمُحَقِّقُونَ لَا یُکَفِّرُونَ اِلَّا بانکارمَا عُلِمَ مِنَ الدِّینِ ضَرُورَۃً بحیث یشترک فی معرفتہ الخاص والعام المخالطون للخواص-فان کان المجمع عَلَیہِ ہکذا-کَفَرَ مُنکِرُہ-وَاِلَّا،لَا-وَلا حَاجَۃَ عند ہم اَیضًا اِلٰی وجود نَصٍّ-فَاِنَّ کَثِیرًا مِن ضَرُورِیَاتِ الدِّین مِمَّا لَا نَصَّ عَلَیہِ کَمَا یَظہَرُبِمُرَاجَعَۃِ ”الاعلام“وغیرہ)
(المعتمد المستند:ص195-المجمع الاسلامی مبارک پور)
توضیح:منقولہ بالاعبارت میں (وہم ومن وافقہم،ہم القائلون بانکارکل مجمع علیہ)سے مراد یہ ہے کہ بہت سے غیر حنفی فقہا بھی قطعیات (ضروریات اہل سنت)کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔
فقہائے احناف ہرقطعی امر کے انکار پر حکم کفر جاری کرتے ہیں، خواہ وہ ضروریات دین میں سے ہو،یا ضروریات اہل سنت میں سے۔
جس امر پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع قطعی ہو، اور قطعی طورپرمنقول ہو،یعنی تواتر کے ساتھ منقول ہو، اور اپنے مفہوم پر دلالت میں قطعی ہو، جیسے خلافت صدیقی پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع قطعی ہے۔اس کا انکار فقہائے احناف کے یہاں کفر ہوگا۔
انکار قطعیات پر تکفیر صحابہ کرام سے منقول
بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین قطعیات غیر ضروریہ (ضروریات اہل سنت)کے منکر کی تکفیر فرماتے تھے۔ قرآن مقدس کے غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ ضروریات اہل سنت سے ہے۔بہت سے صحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین خلق قرآن کے قائلین کی تکفیر فرماتے تھے۔
قال الامام احمد رضا القادری:(وَقَد تَوَاتَرَعن الصحابۃ والتابعین العظام والمجتہدین الاعلام علیہم الرضوان التام-اِکفَارُ القَاءِلِ بِخَلق الکلام کَمَا نَقَلنَا نُصُوصًا کَثِیرًامنہم فی(سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح)وَہُمُ القُدوَۃُ لِلفُقَہَاءِ الکِرَامِ فِی اِکفَارِکُلِّ مَن اَنکَرَ قَطعِیًّا- وَالمُتَکَلِّمُونَ خَصُّوہُ بالضروری-وہوالاحوط) (المعتمد المستند: ص50)
انکار قطعیات اور امام احمد بن حنبل
حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہما باب تکفیر میں اسی مذہب پر ہیں،جس کوبعد میں مذہب متکلمین کہا گیا۔کتاب الشفا میں منقول حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض اقوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باب تکفیر میں اس مذہب پر ہیں جس کو بعد میں مذہب فقہا کہا گیا۔
فقہائے احناف اوران کے مؤیدین ضروریات دین کی قسم دوم یعنی ضروریات اہل سنت کے انکار پر بھی حکم کفرعائد کرتے ہیں۔حضرات ائمہ مجتہدین میں سے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے۔آپ خلق قرآن کے قائلین کی تکفیر فرماتے تھے،حالاں کہ قرآن مقدس کے غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ ضروریات دین میں سے نہیں،بلکہ ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔
معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ قرآن مجید کومخلوق مانتے تھے،اس سبب سے ان لوگوں پر کفر فقہی کا حکم عائدکیا گیا۔ حضرت امام احمد حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے عہد کے بہت سے فقہائے کرام ومحدثین عظام نے خلق قرآن کے قائلین کو کافر قرار دیا۔ یہ حضرات کافرفقہی کے لیے ”من شک فی کفرہ فقدکفر“کی اصطلاح بھی استعمال فرماتے تھے۔ہمارے رسالہ: مناظراتی مباحث اورعقائد ونظریات:بحث دوم:فصل دوم میں وہ اقوال منقول ہیں۔
(الف)امام احمد بن حنبل نے نقل فرمایا:(قال ابوبکر بن عیاش:
من قال:القرآن مخلوق فہوکافر-ومن شک فی کفرہ فہوکافر)
(الورع للامام احمد بن حنبل:جلد اول ص88-مکتبہ شاملہ)
(ب)امام مسددبن مسرہد بصری نے معتزلہ،جہمیہ وغیرہ کے فتنوں کے زمانے میں حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چند سوالات کیے۔امام احمدبن حنبل نے جواب میں ایک رسالہ تصنیف فرمایاجو”العقیدہ“کے نام سے مشہور ہے۔آپ نے رقم فرمایا:
(وآمرکم أن لا تؤثروا علی القرآن شیئا-فإنہ کلام اللّٰہ وما تکلم اللّٰہ بہ فلیس بمخلوق-وما أخبر بہ عن القرون الماضیۃ فلیس بمخلوق- وما فی اللوح المحفوظ وما فی المصحف وتلاوۃ الناس وکیفما وصف فہو کلام اللّٰہ غیر مخلوق-فمن قال مخلوق فہو کافر باللّٰہ العظیم-ومن لم یکفرہ فہو کافر)
(العثیدۃ للامام احمدبن حنبل -روایت محدث خلال حنبلی-ص60-مکتبہ شاملہ)
توضیح:قرآن مجید کے غیر مخلوق ہونے کی عمدہ بحث امام احمد رضا قادری نے ”انوار المنان فی توحید القرآن“ میں رقم فرمائی ہے۔قرآن مجید کے غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ ضروریات اہل سنت میں سے کیسے ہے؟ان شاء اللہ تعالیٰ کبھی تفصیل مرقوم ہوگی۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:30:اگست 2021
٭٭٭٭٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں