مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرفقہی کے اقسام واحکام
قسط دہم
ذات الٰہی وصفات الٰہیہ سے متعلق احکام
عقل ونقل ہراعتبارسے رب تعالیٰ کا وجود ثابت ہے۔جس امرسے رب تعالیٰ کے وجود کا انکارہوجائے،وہ کفرکلامی ہوگا،اور جس امرسے وجود باری کاانکار لازم آئے،وہ کفر فقہی ہوگا۔انکارکی تمام صورتو ں کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت نہیں۔
اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:
”ایجاب وسلب متناقض ہیں،جمع نہیں ہوسکتے۔ وجود شئ اس کے لوازم کے وجود کا مقتضی اور ان کے نقائض ومنافیات کانافی ہے کہ لازم کا منافی موجود ہوتو لازم نہ ہو،اور لازم نہ ہوتو شئ نہ ہوتوظاہر ہواکہ سلب شئ کے تین طریقے ہیں۔
اول: خود اس کی نفی مثلاً کوئی کہے:انسان ہے ہی نہیں۔
دوم:اس کے لوازم سے کسی شئ کی نفی مثلاً کہے:انسان توہے،لیکن وہ ایک ایسی شئ کا نام ہے جو حیوان یا ناطق نہیں۔
سوم: ان کے منافیات سے کسی شئ کا اثبات مثلاً کہے:انسان حیوان ناہق یا صاہل سے عبارت ہے۔
ظاہر ہے کہ ان دونوں پچھلوں نے اگرچہ زبان سے انسان کوموجود کہا،مگر حقیقۃً انسان کو نہ جانا،وہ اپنے زعم باطل میں کسی ایسی چیز کوانسان سمجھے ہوئے ہیں، جو ہرگز انسان نہیں توانسان کی نفی اوراس سے جہل میں یہ دونوں اوروہ پہلا جس نے سرے سے انسان کا انکار کیا،سب برابر ہیں،فقط لفظ کا فرق ہے۔
مولیٰ عزوجل کو جمیع صفات کمال لازم ذات،اور جمیع عیوب ونقائص اس پر محال بالذات کہ اس کے کمال ذاتی کے منافی ہیں۔ کفار میں ہرگز کوئی نہ ملے گا جواس کی کسی صفت کمالیہ کامنکر یامعاذاللہ اس کے عیوب ونقص کامثبت نہ ہو تودہریے اگرقسم اول کے منکر ہیں کہ نفس وجود سے انکار رکھتے ہیں،باقی سب کفار دوقسم اخیر کے منکر ہیں کہ کسی کمال لازم ذات کے نافی یاکسی عیب منافی کے مثبت ہیں۔بہر حال اللہ عزوجل کونہ جاننے میں وہ اور دہریے برابر ہوئے،وہی لفظ وطرز ادا کا فرق ہے۔دہریوں نے سرے سے انکار کیا اوران قہریوں نے اپنے اوہام تراشیدہ کا نام خدا رکھ کر لفظ کا اقرار کیا“۔(فتاویٰ رضویہ ج۵۱ص۰۳۵-جامعہ نظامیہ لاہور)
صفات الٰہیہ سے متعلق تین احکام:
صفات الٰہیہ کے انکار کی تین صورتیں ہیں:
(۱) حقائق کا علم ہوتے ہوئے کسی صفت خداوندی کاالتزامی انکار:یہ کفر کلامی ہے۔
(۲)جہالت ونادانی کے سبب کسی صفت کا انکار:یہ متکلمین کے یہاں کفر نہیں ہے۔ جو فقہا لازم مذہب کو مذہب مانتے ہیں،ان کے یہاں کفرفقہی کا حکم ہوگا۔
(۳)کسی تاویل فاسد کے سبب کسی صفت کالزومی انکار:
معتزلہ کا قول ہے کہ اگر صفات الٰہیہ کو ذات الٰہی پر زائدمانا جائے تو ذات الٰہی کے ساتھ متعددقدیم کا وجود لازم آئے گا،اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کو عالم وقادروغیرہ مانتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ذات الٰہی ہی علم وقدرت وغیرہ ہے۔معتزلہ صفات الٰہیہ اور ذات الٰہی کی عینیت کے قائل ہیں۔معتزلہ واصحاب تاویل کے قول سے لزومی طورپر صفات
حکم اول:تکفیر کلامی
جوشخص صفات الٰہیہ ذاتیہ میں سے کسی صفت ذاتی کاعلم رکھتے ہوئے اس کا التزامی انکار کرے،وہ کافرکلامی ہے۔
(۱)قال القاضی:(فاما من نفی صفۃً من صفات اللّٰہ تَعَالٰی الذَّاتِیَۃَ اَو جَحَدَہَا مُستَبصِرًا فی ذلک-کقولہ -لَیسَ بعالمٍ ولا قادرٍ ولا مریدٍ ولا متکلمٍ-وشِبہَ ذلک من صفات الکمال الواجبۃ لہ تَعَالٰی-فَقَد نَصَّ اَءِمَّتُنَا عَلَی الاِجمَاعِ عَلٰی کُفرِ مَن نفی عنہ تعالی الوصفَ بھا-وَاَعرَاہُ عَنہَا- وَعَلٰی ہٰذَا حُمِلَ قَولُ سُحنُونَ-”مَن قَالَ-لَیسَ لِلّٰہِ کَلَامٌ فہوکافرٌ“- وَہُوَ لَا یُکَفِّرُ المُتَاَوِّلِینَ کَمَا قَدَّمنَاہُ)(الشفاء:جلددوم:ص292)
توضیح:جس کو اللہ تعالیٰ کی کسی صفت ذاتی کا قطعی یقینی علم ہے،اس کے باوجود وہ اس صفت کا التزامی انکار بلا تاویل کرے تووہ کافرکلامی ہے۔اسی طرح صفات کمالیہ واجبہ میں سے کسی صفت کا انکار کرے تو حکم کفر ہے۔معتزلہ ودیگر اصحاب تاویل التزامی انکار نہیں کرتے،بلکہ وہ تاویل فاسد کے سبب انکار کرتے ہیں،لہٰذاان پر کفر کلامی کا حکم نہیں۔
قال القاری:((مستبصرًا)ای متیقنا غیرشاک)
(شرح الشفاء للقاری جلد چہارم:ص523-دارالکتاب العربی بیروت)
توضیح:(مستبصرا فی ذلک)کامفہوم یہ ہے کہ اس صفت کا یقینی علم ہے، اس کے باوجود انکار کرتا ہے تو حکم کفر ہوگا۔ معتزلہ وغیرہ تعددقدما کے شبہہ کے سبب صفات الٰہیہ کا لزومی انکار کرتے ہیں۔وہ التزامی انکار نہیں ہے۔
قال القاری:((فَقَد نَصَّ اَءِمَّتُنَا)المالکیۃ(عَلَی الاِجمَاعِ عَلٰی کُفرِمَن نفی عنہ تعالی الوصفَ بھا-وَاَعرَاہُ عَنہَا)ای اخلاہ منہا بلا وصفہ بہا- وہذا قول الباقلانی-ولا اعرف خلافًا فی ذلک-لانہ سبحانہ وَتَعَالٰی وصف ذاتہ بہذہ الصفات فی کلامہ القدیم الذی یستفاد منہ الدین القویم -فَمَن اَنکَرَشَیءًا مِن ذٰلِکَ فَقَد اَنکَرَ القُراٰنَ العَظِیم)
(شرح الشفاء للقاری: جلد چہارم:ص523-دارالکتاب العربی بیروت)
توضیح:اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی صفات مقدسہ کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا۔اب اگر ان صفات میں سے کسی صفت کا انکار ہے تو یہ قرآن عظیم کا انکار ہے۔
قال الہیتمی:(ومنہا القول الذی ہو کُفرٌ سَوَاءٌ صَدَرَ عَن اِعتِقَادٍ اَو عِنَادٍ اَو اِستِہزَاءٍ-فََمِن ذٰلک اِعتِقَادُ قِدَمِ العالم اوحدوث الصانع-او نفی ما ہو ثابت للقدیم بالاجماع المعلوم من الدین بالضرورۃ کَکَونِہ عَالِمًا اَو قَادِرًا وَکَونِہ یَعلَمُ الجُزءِیَّاتِ-اَو اِثبَاتُ ما ہو منتفٍ عنہ بالاجماع کذٰلک کالالوان اواثبات الاتصال والانفصال لہ)(الاعلام بقواطع الاسلام:ص351)
توضیح:وہ صفات جن پر اجماع امت ہے اور جن کوماننا ضروریات دین میں سے ہے، ان میں سے کسی صفت کا انکار کفر کلامی ہے۔ اسی طرح جن صفات کے اللہ تعالیٰ سے منتفی اور مسلوب ہونے پر اجماع ہے،اور ان کو مسلوب ماننا ضروریات دین میں سے ہیں،ان میں سے کسی صفت کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات ثبویہ ہیں،بہت سی صفات سلبیہ ہیں،بہت سی صفات حقیقیہ ہیں اوربہت سی صفات اضافیہ ہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ تفصیلی مضمون رقم کیا جائے گا۔
حکم دوم:تکفیر فقہی
(جہالت کے سبب انکار)
کسی ضروری دینی کا لاعلمی کے سبب انکار ہوجائے تو متکلمین حکم کفر عائد نہیں کرتے۔ اس بارے میں فقہا کا دومذہب ہے۔ایک طبقہ لاعلمی کو عذر مانتا ہے۔جب کہ دوسرا طبقہ لا علمی کوعذرنہیں مانتا اور حکم کفر عائد کرتا ہے۔یہ تکفیر فقہی ہے۔
جوصفات الٰہیہ میں سے کسی صفت سے جاہل ہو، اورجہالت کے سبب اس صفت کا انکار کرے تووہ بعض فقہا کے یہاں کافرہے اورایک جماعت کے یہاں وہ مومن ہے۔
(۱)قال القاضی:(فَاَمَّا مَن جہل صِفَۃً من ہذہ الصِّفَاتِ-فَاختَلَفَ العُلَمَاءُ ہٰہُنَا-فَکَفَّرَہٗ بَعضُہُم-وحُکِیَ ذٰلِکَ عَن اَبِی جَعفَر الطَّبَرِیِّ وغیرہ -وقال بہ ابو الحسن الاشعری مَرَّۃً-وذَہَبَت طَاءِفَۃٌ اِلٰی اَنَّ ہٰذَا لَا یُخرِجُہٗ عَن اِسمِ الاِیمَانِ-وَاِلَیہِ رَجَعَ الاَشعَرِیُّ-قَالَ:لِاَنَّہٗ لَم یَعتَقِد ذٰلِکَ اِعتِقَادًا یَقطَعُ بِصَوَابِہٖ وَیَرَاہُ دِینًا وَشَرعًا-وَاِنَّمَا یَکفُرُ مَن اِعتَقَدَ اَنَّ مَقَالَہٗ حَقّ)
(الشفاء:جلددوم:ص292)
توضیح:صفات ذاتیہ میں سے کسی صفت کا انکارجہالت ولاعلمی کی وجہ سے کردیا،لیکن وہ اس کا اعتقاد نہیں رکھتا ہے،اور نہ ہی اس کو اپنا مذہب مانتا ہے،بلکہ لاعلمی کی وجہ سے کہا تو اس کے کفر میں اختلاف ہے۔ بعض فقہا اسے کافرکہتے ہیں۔عہد حاضر میں جاہل لوگ بول دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ ہے۔ اب ان کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جگہ سے پاک ہے۔ جب بتایا جائے تو وہ اپنی غلطی مان لیتے ہیں اور اس سے توبہ کرلیتے ہیں۔
متکلمین کے یہاں اس صورت میں حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔فلاسفہ بھی اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا انکار کرتے ہیں، لیکن وہ لاعلمی کے سبب انکار نہیں کرتے،بلکہ اپنے غلط دلائل کی بنیاد پر اعتراض کرتے ہیں۔
فلاسفہ پر حکم کفر عائد ہوگا اور جاہل مسلمانوں پر متکلمین کے یہاں حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔بعض فقہا کے یہاں حکم کفر عائد ہوگا۔ (لِاَنَّہٗ لَم یَعتَقِد ذٰلِکَ اِعتِقَادًا یَقطَعُ بِصَوَابِہٖ وَیَرَاہُ دِینًا وَشَرعًا-وَاِنَّمَا یَکفُرُ مَن اِعتَقَدَ اَنَّ مَقَالَہٗ حَق)کا یہی مفہوم ہے جو لاعلمی کے سبب انکار کرے اور اس کو اپنا دین وعقیدہ نہ سمجھے،بلکہ سمجھانے اوربتانے پر حق بات قبول کرلے،اس پر متکلمین کے یہاں حکم کفر نہیں او ربہت سے فقہا کے یہاں کفر فقہی کا حکم ہے۔ فلاسفہ نے اپنی باطل دلیل کے سبب بعض صفات الٰہیہ کا انکار کرتے ہیں،اور اس کو اپنا عقیدہ بتاتے ہیں،لہٰذا متکلمین کے یہاں بھی ان پر حکم کفر عائدہوتا ہے۔
قال الخفاجی:((فَاَمَّا مَن جہل صِفَۃً من ہذہ الصِّفَاتِ)الذاتیۃ کالعلم والقدرۃ ولم ینفہا مستبصرًا ای مستندًا لِدَلِیلٍ وَلَاجَحَدَہَا عِنَادًا(فَاختَلَفَ العُلَمَاءُ ہٰہُنَا)ای فی تکفیرہ وعدمہ لعذرہ بجہلہ(فَکَفَّرَہٗ بَعضُہُم)ولم یجعل الجہل عذرًا لہ-لوجوب النظر علیہ۔
(و حُکِیَ ذٰلِکَ)ای تکفیرہ(عَن اَبِی جَعفَر)محمد بن جریر (الطَّبَرِیِّ)العلامۃ المفسرکما تقدم فی ترجمتہ (وغیرہ)من العلماء(وقال بہ)ای ذہب الٰی مثل رأیہ فی التکفیر(ابو الحسن الاشعری)امام اہل السنۃ -وقولہ(مَرَّۃً)اشارۃ الٰی انہ احد قولین لہ فی ہٰذہ المسئلۃ۔
(وَذَہَبَت طَاءِفَۃٌ)من اہل السنۃ(اِلٰی اَنَّ ہٰذَا)ای جہلہ بصفۃ من صفاتہ تعالی الذاتیۃ(لَا یُخرِجُہٗ عَن اِسمِ الاِیمَانِ)یعنی انہ مومن غیر کافر- فیطلق علیہ اسم مأخوذ من الایمان-اواسم مقحم ہنا کقولہ-”الی الحول ثم اسم السلام علیکما”(وَاِلَیہِ)ای الٰی ہذا القول بعدم تکفیرہ(رَجَعَ الاَشعَرِیُّ)عن قولہ الاول لترجحہ عندہ وقیام الدلیل علیہ۔
(قَالَ) الاشعری انما لم نکفرہ(لِاَنَّہٗ)ای النَّافِیُ لِصِفَۃٍ جَہِلَہَا(لَم یَعتَقِد ذٰلِکَ)ای انتفاء الصفۃ الذاتیۃ(اِعتِقَادًا یَقطَعُ بِصَوَابِہٖ)لقیام دلیل عندہ کالفلاسفۃ-وانما قالہ لجہلہ فہومعذور(وَیَرَاہُ دِینًا وَشَرعًا)ای یعتقد برأیہ کذلک-وانما قالہ توہمًا وجہلًا(وَاِنَّمَا یَکفُرُمَن اِعتَقَدَ اَنَّ مَقَالَہٗ)وفی نسحۃ ماقالہ ای قولہ(حَق)صواب موافق للبرہان ومطابق للواقع)
(نسیم الریاض: جلدچہارم:ص524-دارالکتاب العربی بیروت)
توضیح:(لقیام دلیل عندہ کالفلاسفۃ)کا مفہوم یہ ہے کہ کسی دلیل کے سبب کسی صفت کا انکار کرے،جیسے فلاسفہ بعض صفات الٰہیہ کاانکار کرتے ہیں تو یہ کفر ہے،کیوں کہ یہ لاعلمی کے سبب انکار نہیں،بلکہ اپنی دلیل باطل کے سبب انکار ہے۔
(وانما قالہ لجہلہ فہو معذور)کا مفہوم یہ ہے کہ جو کسی دلیل کے سبب انکار نہ کرے، بلکہ جہالت کے سبب انکار کرے توحکم کفر نہیں،بلکہ ایسا شخص متکلمین اور بہت سے فقہا کے یہاں معذور ہے۔
(ای یعتقد برایہ کذلک)کا مفہوم یہ ہے کہ کسی دلیل فاسد کے سبب کسی صفت کا انکار کرے،اور اس انکار کو اپنا عقیدہ بنالے،تب حکم کفر ہے۔
(وانما قالہ توہما وجہلا)کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے وہم اور جہالت سے کسی صفت کا انکار کرے توایسا شخص متکلمین اور بہت سے فقہا کے یہاں معذور ہے۔
قال القاری:((لایخرجہ عن اصل الایمان)ای اصلہ:وان کان یخرجہ عن کمال الایقان)(شرح الشفاء: جلد چہارم:ص524-دارالکتاب العربی بیروت)
توضیح:جہالت کے سبب کسی صفت کا انکار کرنے والا کافر نہیں،لیکن اس کا رتبہ اس کے برابر نہیں جو صفات الٰہیہ سے واقف ہو۔عالم وجاہل کا رتبہ برابر نہیں۔
قال العلامۃ البدایونی:(ان ساب اللّٰہ تعالی بنسبۃ الکذب والعجز ونحو ذلک الیہ کافر-وکذا من نفی صفۃ من صفاتہ الذاتیۃ-من الحیاۃ والعلم والقدرۃ والسمع والبصر والکلام-مستبصرًا فی ذلک-کقولہ: لیس بحیی،ولا عالم-وکذا قولہ:لیس بعالم بالجزئیات،او لا قادر،او لا مرید،او لا متکلم،او لا سمیع،او لا بصیر،فہو کافر بالاتفاق۔
ومن جہل صفۃ من ہذہ الصفات ونفاہا غیر مستبصر فیہا- فاختلف العلماء فی تکفیرہ-والمعتمد عدمہ-فان ہذا الجہل لا یخرجہ عن اسم الایمان-وان کان یخرجہ عن کمال الاتقان-ولم یعتقد ذلک اعتقادا یقطع بصوابہ ویراہ دینا وشرعا)
(المعتقد المنتقد:ص50-المجمع الاسلامی مبار ک پور)
توضیح:مذکورہ بالا عبارتوں میں ان لوگوں کا بیان ہے جن سے جہالت کی وجہ سے رب تعالیٰ کی کسی صفت کی نفی ہوجائے،جیسے بھارت کے کفار بھی اللہ تعالیٰ کو”اوپر والا“ کہتے ہیں۔اسی طرح بعض جاہل مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کو ”اوپروالا“کہتے ہیں،لیکن جب ان کو بتایا جائے کہ ایسا کہنا غلط ہے تووہ پھر مان لیتے ہیں کہ ہمارا کہنا غلط تھا۔ایسا نہیں کہ انہوں نے یہ عقیدہ بنالیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے اوراللہ تعالیٰ مکان والا ہے،بلکہ وہ اپنی لاعلمی اورجہالت کے سبب ایسا کہتے ہیں۔یہ کفرالتزامی نہیں ہے،بلکہ کفرلزومی ہے۔جب انکار پایا گیا تویہ انکار کفر ہے۔لاعلمی اور جہالت کے سبب کہا،اس لیے اسے کفر لزومی کہا گیا۔بہت سے فقہا کے یہاں کفر لزومی کا حکم عائد ہوگا،اور بہت سے فقہا اور متکلمین کے یہاں جہالت ولاعلمی کے سبب حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔
منقولہ بالا عبارت میں (مستبصرا فی ذلک) کا مفہوم یہ ہے کہ علم کی حالت میں انکار کرے۔(غیر مستبصر فیہا)کا مفہوم یہ ہے کہ جہالت ولاعلمی کے سبب انکار کرے۔
حکم سوم:تکفیر فقہی وتضلیل(تاویل کے سبب انکار)
معتزلہ،مجسمہ،مشبہہ، قدریہ وغیرہم کو اصحاب تاویل کہا جاتاہے۔ اصحاب تاویل کے احکام کی تفصیل ماقبل کی قسطوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کردی گئی ہے۔در حقیقت اصحاب تاویل ضروریات دین کے منکر نہیں ہیں،بلکہ تاویل کے ساتھ ضروریات اہل سنت کا انکار کرتے ہیں۔ تاویل کے ساتھ ضروریات اہل سنت کا انکار فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین کے یہاں کفر فقہی ہے اور متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی ہے۔
قال القاضی:(فَاَمَّا مَن اَثبَتَ الوَصفَ وَنَفَی الصِّفَۃَ-فَقَالَ:اَقُولُ:عَالِمٌ وَلٰکِن لَاعِلمَ لَہٗ-ومتکلم و لکن لا کَلَامَ لَہٗ-وہکذا فی سائر الصفات علٰی مذہب المعتزلۃ-فَمَن قَالَ بِالمَاٰلِ لِمَا یُؤدِّیہِ اِلَیہِ قَولُہٗ وَیَسُوقُہٗ اِلَیہِ مَذہَبُہٗ،کَفَّرَہٗ-لِاَنَّہٗ اِذَا نَفَی العِلمَ اِنتَفٰی وَصفُ عَالِمٍ-اِذ لَا یُوصَفُ بعالم اِلَّا مَن لَہٗ عِلمٌ-فَکَاَنَّہُم صَرَّحُوا عِندَہٗ بِمَا اَدّٰی الیہ قَولُہُم-وَہٰکَذَا عِندَ ہٰذَا سَاءِرُ فِرَقِ اَہلِ التَّاوِیلِ مِنَ المُشَبِّہَۃِ والقدریۃ وغیرہم۔
وَمَن لَم یَرَ اَخذَہُم بِمَاٰلِ قَولِہِم-وَلَا اَلزَمَہُم مُوجَبَ مَذہَبِہِم،لَم یَرَ اِکفَارَہُم-قَالَ:لِاَنَّہُم اِذَا وُقِّفُوا عَلٰی ہٰذَا-قَالُوا:لَا نَقُولُ-لَیسَ بِعَالِمٍ- ونحن ننتفی من القول بِالمَاٰلِ الَّذِی اَلزَمتُمُوہُ لَنَا-وَنَعتَقِدُ نَحنُ وَاَنتُم-اَنَّہٗ کُفرٌ-بَل نَقُولُ:اِنَّ قَولَنَا لَایَؤولُ اِلَیہِ عَلٰی مَا اَصَّلنَاہُ -فَعَلٰی ہٰذَینِ المَاخَذَینِ اِختَلَفَ النَّاسُ فِی اِکفَارِاَہلِ التَّاوِیلِ-وَاِذَا فَہِمتَہٗ، اِتَّضَحَ لَکَ المُوجِبُ لِاِختِلَافِ النَّاسِ فِی ذلک-وَالصَّوَابُ تَرکُ اِکفَارِہِم-وَالاِعرَاضُ عَنِ الحَتمِ عَلَیہِم بِالخُسرَان)(الشفاء:جلددوم:ص294)
قال العلامۃ البدایونی:(ومن اَثبَتَ الوصفَ ونَفی الصِّفَۃَ عَلٰی طریق التاویلِ الفاسد والخطاء المفضیء الَی الہَوٰی وَالبِدعَۃِ-کَنَفِیِّ المُعتَزِلَۃ صفاتِہ القدیمۃِ الذاتیۃِ علٰی تَوَہُّمِ الحذر من تعدد القدماء-وقولہم عالم لا علمَ لہ-فہٰذا مما اختلف السلف والخلف فی تکفیر قائلہ ومعتقدِہ-فمن رأی اَخذَہُم بِالمَاٰل لِمَا یُوَئدِّیہ الیہ قَولُہُم وَیَسُوقُ اِلَیہِ مَذہَبُہُم کَفَّرَہُم-لاَِنَّہ اِذَا نَفَی العِلمَ انتفی العَالِمُ-اِذ لَا یُوصَفُ بِعَالِمٍ اِلَّا مَن لَہ العلمُ-فَکَاَنَّہُم صَرَّحُوا عِندَہ بِمَا اَدّٰی اِلَیہِ قَولُہُم-مِن لُزومِ نَفِیِّ الوَصفِ المُشتَقِّ لِنَفِیِّ المشتق منہ۔
وَمَن لَم یَرَ اَخذَہُم بِمَآلِ قَولِہِم وَمَالَزمَہُم بِمُوجَبِ مَذہَبِہِم لَم یَرَ اِکفَارَہُم قَالَ:لِاَنَّہُم اذَا اُطُّلِعُوا عَلٰی ہٰذَا،قَالُوا:لا نَقُولُ:لَیسَ بِعَالِمٍ سَلبًا مُعَطَّلًالَہ تَعَالٰی عَنِ العِلمِ-بَل لَیسَ بِعَالِمٍ بِعِلمٍٍ زَاءِدٍ عَلٰی ذاتہ-فَاِنَّہ عَالِمٌ بِعِلمٍ ہو ذَاتُہ-وَقَولُنَا لَایَوُئولُ اِلَیہِ وَنَعتَقِدُہ کُفرًا،مِثلُکُم-فَعَلٰی ہٰذَینِ الاَصلَینِ اِختَلَفَ النَّاسُ فی تکفیر اہل التَّاویل-وَالصَّوَابُ تَرکُ اِکفَارِہِم واِجراءُ اَحکَامِ الاِسلَامِ عَلَیہِم لٰکِن یُغَلَّظُ عَلَیہِم بِوَجِیعِ الاَدَبِ وَشَدِیدِ الزَّجرِ حَتّٰی یَرجِعُوا عَن بدعتہم)(المعتقد المنتقد:ص50-المجمع الاسلامی مبار ک پور)
قال الہیتمی ناقلًا عن امام الحرمین:(وبعض التفاصیل المذکورۃ المندرجۃ تحت الشہادتین اختلف فیہا-ہل التصدیق بہا داخل فی مسمی الایمان؟فیکفرمنکرہا-اَو لَا،فَلَا-فمن ذلک اختلاف اہل السنۃ فی تکفیر المخالف فی بعض العقائد بعد اتفاقہم علٰی کفرالمخالف فی بعض الاصول المعلوم ضرورۃً-کالقول بقدم العالم ونفی حشرالاجساد ونفی علمہ تعالٰی بالجزئیات ونفی فعلہ بالاختیار-بخلاف ما لیس کذلک کنفی مبادی الصفات مع اثباتہا کقول المعتزلی-عالم بلا علم- وکنفی عموم الارادۃ للخیروالشر-وکالقول بخلق القراٰن-فقال جماعۃ: ہوکفر-والصحیح عند جمہورالمتکلمین والفقہاء والاشعری خلافہ- انتہٰی) (الفتاوی الحدیثیہ: ص141-دارالفکربیروت)
توضیح:کفر فقہی کے احکام واقسام کی یہ دسویں قسط ہے۔ کفر فقہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ضروریات دین کا غیر مفسر انکار بھی کفر فقہی ہے۔ مفسر سے مراد یہ ہے کہ انکار ایسا ہو جس میں تاویل بعید کی بھی گنجائش نہ ہو۔ اسی کو کفر متعین، کفر قطعی بالمعنی الاخص،کفربدیہی، کفر اجماعی، کفر اتفاقی اور کفر کلامی بھی کہا جاتا ہے۔غیر مفسر انکار کی متعدد صورتیں ہیں۔ انکار نص یاظاہر کے طور پر ہو۔یا انکار ظنی ہوکہ انکار راجح ہو، اور عدم انکار مرجوح ہو۔یا انکار وہمی ہو،یعنی انکار مرجوح ہو،اور عدم انکا ر راجح ہو۔
ضروریات اہل سنت کا انکار تاویل کے ساتھ ہوتویہ کفر فقہی ہے۔خواہ انکار مفسر ہو یا غیر مفسر،دونوں صورتوں میں کفرفقہی کاحکم عائد ہوگا۔
ضروریات اہل سنت کا انکار بلا تاویل ہو تو یہ استخفاف بالدین ہے۔ استخفاف بالدین کفر ہے۔اگر انکار مفسر ہے تو استخفاف بالدین بھی مفسر ہوگا اور کفر کلامی کا حکم عائد ہوگا،کیوں کہ مفسر انکار میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں۔ظاہر اور نص کے طورپر انکار ہوتو تاویل بعید کی گنجائش ہے۔
جس طرح ضروریات دین کا انکار نص یاظاہر کے طورپر ہوتو متکلمین تاویل بعید کے سبب حکم کفرنہیں عائد کرتے، اسی طرح استخفاف بالدین میں بھی تاویل بعید کی گنجائش ہوتو متکلمین حکم کفرعائد نہیں کریں گے۔
حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”لا جرم تاویل صحیح اگر چہ کتنی ہی بعید ہو، متکلمین قبول کریں گے۔یہ ہے وہ کہ محققین محتاطین نے فرمایا کہ ایک بات میں ننانوے پہلو کفر کے ہوں اورایک اسلام کا تو پہلوئے اسلام کو ترجیح دیں گے“۔
(الموت الاحمرص49-جامعۃ الرضا بریلی شریف)
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:28:اگست 2021
٭٭٭٭٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں