حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی اور اسماعیل دہلوی
سوال اول: کیا حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی قدس سرہ العزیز نے اسماعیل دہلوی پر کفر کلامی کا فتویٰ دیا تھا؟
جواب: حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ والرضوان نے اسماعیل دہلوی پر کفر فقہی کا فتویٰ تھا۔انہوں نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ آپ نے”تحقیق الفتویٰ“کے اخیر میں فتویٰ کا خلاصہ رقم فرمایا ہے۔ اور چارمقام یعنی چار ابواب میں اس کی تفصیل رقم فرمائی ہے۔ مقام چہارم میں اسماعیل دہلوی پر وارد ہونے والے حکم شرعی یعنی حکم کفر کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ اس کے شروع ہی میں آ پ نے ذکر فرمادیا ہے کہ اسماعیل دہلوی کا جو حکم بیان کیا جار ہا ہے،وہ فقہائے اسلام کے اصول کے مطابق بیان کیا جارہا ہے۔
حضرت علامہ خیرآبادی قدس سرہ القوی نے مقام رابع میں اسماعیل دہلوی کے شرعی حکم کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ مقام رابع کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا ہے:
”المقام الرابع:درحکم اقتراف استخفاف بہ شان آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وحضرات سائر انبیاء علیہم السلام وحال مرتکب ایں جریمہ شنیعہ عند الفقہاء وعلماء الشریعہ“۔
(تحقیق الفتویٰ:فارسی نسخہ:ص 399-مکتبہ قادریہ لاہور)
توضیح:حضرت علامہ خیرآبادی صریح لفظوں میں فرما رہے ہیں کہ فقہا اور علمائے شریعت کے اقوال کے مطابق حکم کا بیان ہورہا ہے،لیکن دیابنہ کویہ وہم ہوگیا ہے کہ متکلمین کے طورپر حکم کا بیان ہوا ہے اور یہ کفر کلامی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ متکلمین بھی علمائے شریعت ہیں، لیکن جب صراحت موجودہے کہ فقہا کے اصول واقوال کے مطابق حکم شرعی کا بیان ہے تو اس سے واضح ہوگیا کہ یہ کفر فقہی ہے،کفر کلامی نہیں۔کفر کلامی کا حکم نافذکرتے تو رقم فرماتے کہ متکلمین اورعلمائے شریعت کے مطابق حکم شرعی کا بیان ہے۔
فقہا کا ذکر اس لیے فرمایا کہ دہلوی کی عبارتوں میں کفرفقہی پایا جار ہا تھا،اور فقہا کے اصول کے مطابق دہلوی کی تکفیر کی جارہی تھی،نیز متاخرین فقہائے احناف تکفیر فقہی کرتے تھے۔ (فتاویٰ رضویہ:جلد اول،فتویٰ اول:بحث فرض اعتقادی) وہ باب تکفیر میں متکلمین کا مذہب اختیار نہیں کرتے تھے،نیز اسلامی سلطنت میں قاضی مقلد کو اپنے فقہی مذہب کے مطابق فیصلہ کا حکم ہے۔وہ متکلمین کے مذہب یا دیگر فقہی مذاہب کے اعتبار سے فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔
سوال دوم: بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ والرضوان نے اسماعیل دہلوی پر کفر کلامی کا فتویٰ دیا تھا۔
جواب:کفر کلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی اجازت نہیں۔ اگر اسماعیل دہلوی پر کفر کلامی کا حکم عائد ہوتا تو اعلیٰ حضرت قد س سرہ العزیزاس کو کافر فقہی نہیں کہتے۔
سوال سوم: بعض لوگ کہتے ہیں کہ کفر کلامی کے فتویٰ میں اختلاف کی اجازت ہے؟
جواب: کفر فقہی کو کفر اختلافی کہا جاتاہے۔ اس میں متکلمین کا لفظی اختلاف ہوتا ہے اور کفر فقہی کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں فقہائے کرام کا بھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔
کفرفقہی، کفر اختلافی و کفرغیر اجماعی وکفر محتمل ہے۔کفر کلامی، کفر اتفاقی و کفراجماعی وکفر متعین ہے۔ اس میں فقہا ومتکلمین کسی کا اختلاف نہیں ہوتا، یعنی کفر کلامی کا مرتکب متکلمین اور فقہا دونوں کے اصول وقوانین کے مطابق کافر قرارپاتا ہے۔
اگر کوئی متکلم وفقیہ تمام ضروری حقائق سے واقف وآشنا ہوکر اور تمام لازمی امور کے ثبوت شرعی کے تحقق کے بعد بھی کافر کلامی کو مومن مانتا ہے تو اس پر حکم کفر عائد ہوگا۔
کفر کلامی وکفر فقہی دونوں میں توبہ،تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا حکم دیا جاتاہے۔ اس سے لوگوں کو شبہہ ہوجاتا ہے، اس لیے دونوں میں وجہ فرق مندرجہ ذیل ہے۔
کفر کلامی ہو، یا کفر فقہی۔دونوں ہی گناہ کے کام ہیں، اور شریعت اسلامیہ میں ہرگناہ سے توبہ کا حکم ہے، اسی لیے کفر کلامی وکفرفقہی دونوں میں توبہ کا حکم دیا جاتا ہے۔
کفر کلامی میں مجرم مذہب اسلام سے بالکل خارج ہوجاتا ہے،اس لیے تجدیدایمان کا حکم ہے۔کفر فقہی میں مجرم کے ایمان میں نقص آجاتا ہے،اس لیے تجدید ایمان کا حکم ہے۔
کفرکلامی میں مجرم کانکاح ٹوٹ جاتاہے، اور سارے اعمال سابقہ باطل ہوجاتے ہیں۔ اگر حج فرض ادا کر چکا ہو توتجدید ایمان کے بعد صاحب استطاعت کودوبارہ حج ادا کرنا فرض ہے۔
پہلاحج کالعدم ہوگیا۔اگر بیوی ساتھ رہنا چاہے تو دوبارہ نکاح کرناہے۔اگر بیوی ساتھ رہنا نہ چاہے تو اس پرجبر نہیں۔
کفر فقہی میں نکاح اور ایمان میں نقص آجاتا ہے،اسی لیے تجدید نکاح وتجدید ایمان کا حکم دیا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل عبارتوں میں کفر اتفاقی اورکفر اختلافی کا حکم مرقوم ہے۔
(1)امام حصکفی نے رقم فرمایا:(فی شرح الوھبانیۃ للشرنبلالی:مَا یَکُونُ کُفرًا اِتِّفَاقاً،یبطل العَمَلَ وَالنِّکَاحَ وَاَولَادُہٗ اَولَادُ زِنَا-وما فیہ خلافٌ،یُومَرُ بالاستغفاروالتوبۃ وتجدیدِ النکاح) (الدرالمختار:جلدچہارم:ص432)
تر جمہ:جو اتفاقی کفرہو، اس میں عمل اور نکاح باطل ہوجاتا ہے،اور اولاد اولاد زنا ہوتی ہے۔اور جس امر(کے کفرہونے) میں اختلاف ہے،اس میں استغفار،توبہ اور تجدید نکاح کا حکم دیا جاتا ہے۔
توضیح: کفر اتفاقی یعنی کفر کلامی کے صدور کے بعد مجرم تجدید نکاح نہ کرے تو اب پیدا ہونے والی اولا د، حرام کاری سے پیدا ہونے والی اولاد قرار پائے گی،کیوں کہ نکاح بالکل ختم ہوچکا ہے۔جب کہ کفر فقہی میں نکاح میں عیب اور نقص آجاتا ہے،نکاح فاسد نہیں ہوتا۔
(2)قال فی الفتاوی الہندیۃ:(ما کان فی کونہ کُفرًا اِختِلَافٌ-فان قائلہ یومربتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط)
(فتا وٰی عالمگیری:جلددوم:ص283)
ترجمہ:جس امر کے کفرہونے میں اختلاف ہے،اس کے قائل کو احتیاطی طورپرتجدید نکاح اور توبہ اوراس قول سے رجوع کا حکم دیا جائے گا۔
توضیح: کفرفقہی میں بطور احتیاط نکاح کا حکم دیاجاتا ہے،کیوں کہ کفر فقہی کے سبب نکاح میں نقص آجاتا ہے، گر چہ نکاح فاسد نہیں ہوتا ہے۔
(3)قال الشیخ محمد بن سلیمان اَفندی:(وَمَا کَانَ فی کونہ کفرًا اِختِلَافٌ،یومر قائلہ بتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک احتیاطًا)
(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر: ص688)
ترجمہ:جس امر کے کفرہونے میں اختلاف ہے،اس کے قائل کو احتیاطی طورپرتجدید نکاح اور توبہ اوراس قول سے رجوع کا حکم دیا جائے گا۔
توضیح:منقولہ بالا عبارتوں میں ان اموریعنی اقوال وافعال کا حکم بیان کیا گیاہے،جن اقوال وافعال کے کفر ہونے میں علمائے حق کااختلاف ہے۔ ان اشخاص کا حکم بیان نہیں کیا گیا ہے کہ جن کے کافر ہونے میں اختلاف ہو۔جن اشخاص کے کا فر ہونے میں اختلاف ہو، وہاں وجہ اختلاف دیکھنا ہوگا۔اس کے بعدحکم کا تعین ہوگا۔
(1)اگر کوئی کسی مومن کوکسی گناہ کے سبب کافر کہہ دے تو حکم کفر غلط ہے،لیکن ملزم کو توبہ کرنا ہوگا،کیوں کہ ہر گناہ سے توبہ کا حکم ہے۔مفتی کو فتویٰ سے رجوع کا حکم ہوگا۔
(2)اگر کوئی کسی مومن کی طرف منسوب کسی قول یافعل کے سبب کافر کہہ دے، اور ملزم سے وہ قول یا فعل صادر نہ ہوا ہوتو ملزم پر کوئی حکم نہیں۔اگر مفتی کو معلوم تھا کہ یہ قول وفعل ملزم سے صادر نہیں ہوا ہے،اس علم کے باوجود اسے کافر کہا تو حکم کفر پلٹ جائے گا۔
اگر اس نے یہ سمجھ کر حکم کفر دیا تھا کہ ملزم سے ایسا قول وفعل صادر ہوا ہے، لیکن تحقیق میں اس سے لغزش ہوئی۔حقیقت میں ملزم اس جرم سے بری ہے۔جیسے ہی مفتی کو معلوم ہو جائے کہ ملزم اس جرم سے بری ہے،ویسے ہی اسے اپنے فتویٰ سے رجوع کا حکم ہے۔ جب اسے معلوم نہ ہوسکا تومفتی معذور ہے اور ملزم حکم کفرسے بری ہے۔
حضرت شیخ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایسا ہی ہوا۔ ان کی کتابوں میں تحریف ہوئی ہے۔ چوں کہ ان کی کتابوں میں محرف کلمات تھے،تو بعض اہل علم نے یہ سمجھا کہ یہ انہیں کا کلام ہے،اس وجہ سے ان پر حکم کفر لگا دیا۔
اور چوں کہ ان کلمات کی نسبت حضرت شیخ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یقینی نہیں،لہٰذا احتمال فی التکلم کے سبب ان پر نافذکردہ حکم کفر غلط قرار پایا۔یہاں ان پر نافذکردہ حکم کفرغلط ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کفر میں علما کا اختلاف ہے۔
کسی امر کا غلط ہونا الگ ہے اور کسی امر کا اختلافی ہونا الگ ہے۔ معبود حقیقی کی وحدانیت صحیح ہے اور معبود حقیقی کی کثرت غلط ہے،گرچہ بے شمار مشرکین بہت سے معبود مانتے ہیں۔یہاں یہ نہیں کہا جائے گا کہ معبود حقیقی کی وحدانیت مختلف فیہ ہے۔
قرآن عظیم کا مکمل ومحفوظ ہونا صحیح ہے اور قرآن عظیم کا ناقص وغیر محفوظ ہونا غلط ہے، گر چہ عہد حاضر کے روافض قرآن عظیم کوناقص اور غیر محفوظ مانتے ہیں۔ یہاں یہ نہیں کہا جائے گا کہ قرآن عظیم کا محفوظ ومکمل ہونا اختلافی امرہے۔
سوال چہارم:بعض لوگ اسلامی کتابوں سے ثبوت پیش کرتے ہیں،اوران عبارتوں سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ کفر کلامی میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے؟
جواب: جولوگ اسلامی کتابوں کی عبارتیں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان عبارتوں سے ثابت ہوا کہ کفر کلامی میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے،وہ لوگ ان عبارتوں کو پیش کرتے ہیں،جن عبارتوں میں کفرفقہی میں اختلاف کا ذکر ہے۔کفر فقہی میں اختلاف ہونے سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ کفر کلامی میں بھی اختلاف ہو۔اگر کفرکلامی میں بھی اختلاف ممکن ہے تو کفرکلامی کا نام کفر اتفاقی کیوں رکھا گیا؟ اس کوکفر اجماعی کیوں کہا گیا؟
پھر کفر فقہی کو کفر اختلافی کیوں کہا گیا؟
جب کفر فقہی اور کفر کلامی دونوں میں اختلاف ممکن ہے تو دونوں ہی کوکفر اختلافی کہنا چاہئے۔ہم نے ”کفر فقہی:اقسام واحکام“کے عنوان سے حالیہ دنوں میں قسط وارگیارہ مضامین رقم کیے۔ان مضامین میں بہت سی عبارتوں میں کفر فقہی میں اختلاف کا ذکر ہے۔ اب اگر کوئی ایسی عبارتوں سے یہ سمجھ لے کہ کفر فقہی میں اختلاف ہوتا ہے تو کفر کلامی میں بھی اختلاف ہوگا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔
تمام بالغ اور غیر آئسہ عورتوں کو حیض آتا ہے۔ اب کوئی یہ سمجھے کہ عورتیں بھی انسان ہیں، اور مرد بھی انسان ہیں۔جب عورتوں کو حیض آتا ہے تو مردوں کو بھی حیض آتا ہوگا تو یہ بات غلط ہے۔ حیض آنا عورتوں کا خاصہ ہے۔ یہ عورت ومرد کی مشترکہ صفات میں سے نہیں ہے۔حیض آنا نوع انسانی کاخاصہ نہیں کہ ہر انسان کو حیض آئے،خواہ مرد ہویا عورت۔
یہی حال کفر فقہی کا ہے کہ اس میں اختلاف ہوتا ہے۔ بعض کفر فقہی کے کفر ہونے میں فقہا اور متکلمین کا اختلاف ہوتا ہے اور بعض کفر فقہی میں فقہائے کرام کا باہمی اختلاف ہوتا ہے۔اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کفرکلامی میں بھی اختلاف ہوجائے۔
بعض بالغ اورغیرآئسہ عورتوں کو حیض نہیں آتا ہے۔ کسی مرض کے سبب یا من جانب اللہ اعزاز کے طورپر، جیسے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ فرمادیا تھا۔مرض یا اعزاز کے سبب کسی بالغ وغیر آئسہ عورت کو حیض نہ آئے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بالغ وغیر آئسہ عورتوں کو حیض آنا اختلافی امر ہے،بلکہ ایسی عورتیں حکم سے مستثنی ہیں۔
اسی طرح کسی لغزش کے سبب کسی عالم نے کسی پر کفر کلامی کا فتویٰ دیا اور علمائے حق نے اس سے اختلاف کیا تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کفر کلامی بھی کفر اختلافی ہے۔
دراصل فقدان شرط کے سبب وہ کفر کلامی نہیں ہے۔ صحیح کفر کلامی میں کسی کا اختلاف نہیں ہوتا۔اس کا نام ہی کفر اتفاقی ہے۔
جو لوگ کفر کلامی میں اختلاف کے قائل ہیں،وہ کوئی ایک ہی جزئیہ اسلاف کرام کی کتابوں میں دکھلا دیں،جس سے واضح ہوکہ کفر کلامی میں اختلاف ہوسکتا ہے،یا عہد صدیقی سے تاامروز کسی ایسے کافر کلامی کا نام بتائیں کہ اس پر کفر کلامی کا صحیح فتویٰ دیا گیا اور بعد کے علما ئے حق نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
سوال پنجم: اسماعیل دہلوی کے کلام میں کفر کلامی کیوں نہیں؟
جواب:اسماعیل دہلوی کے کلام میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تنقیص واستخفاف قطعی بالمعنی الاعم ہے۔ اس میں عدم تنقیص کااحتمال بعیدہے۔اس کے کلام میں استخفاف وتنقیص قطعی بالمعنی الاخص نہیں۔ضروری دینی کے قطعی بالمعنی الاخص انکار اور قطعی بالمعنی الاخص استخفاف کو کفر کلامی کہا جاتاہے۔
سوال ششم:کفر کلامی وکفر فقہی میں جوہری فرق کیا ہے؟
جواب:کافر فقہی اسلام سے من کل الوجوہ خارج نہیں،بلکہ فقہی اصول وضوابط کے مطابق اسلام سے خارج ہے۔ کافر کلامی اسلام سے من کل الوجوہ خارج ہے۔
کفرفقہی اورکفر کلامی میں جوہری فرق یہ ہے کہ ضروری دینی کا قطعی بالمعنی الاخص انکار ہو،یعنی عدم انکار کا احتمال بعید بھی نہ ہوتو یہ کفر متفق علیہ ہے۔ اس کے کفر ہونے پرتمام فقہا ومتکلمین کا اتفاق ہے۔اسی کو کفر کلامی، کفر اجماعی،کفر متعین وکفراتفاقی کہا جاتا ہے۔
اگر ضروری دینی کا قطعی بالمعنی الاعم انکار ہو،یعنی عدم انکار کا احتمال بعید ہوتو متکلمین اس کوضلالت شدیدہ کہتے ہیں۔ اسی ضلالت شدید ہ کو فقہائے کرام کفر فقہی کا نام دیتے ہیں۔ فقہائے کرام کے اصول وقوانین کے مطابق احتمال بعید قبول نہیں کیاجاتا، کیوں کہ احتمال بعید پر کوئی دلیل نہیں ہوتی، لہٰذ اضروری دینی کے قطعی بالمعنی الاعم انکار واستخفاف میں احتمال بعید کا وجود فقہی اصول وقوانین کے مطابق عدم کی منزل میں ہے،اس لیے فقہائے کرام ایسے ملزم کو کافرفقہی کہتے ہیں۔فقہا ایسے مجرم کو کافرکلامی نہیں کہتے۔
متکلمین احتمال بعید یعنی بلادلیل عقلی احتمال کے سبب حکم کفر جاری نہیں کرتے،لیکن چوں کہ اس احتمال عقلی پر کوئی دلیل نہیں ہوتی،اس لیے ضلالت شدہ کا حکم نافذکرتے ہیں۔
الحاصل فقہا ومتکلمین کے درمیان یہ لفظی اختلاف ہے کہ ایسی ضلالت شدید ہ کا نام کفر ہو، یا ضلالت،لیکن فقہا ومتکلمین میں سے کوئی بھی ایسے مجرم کو دائرۂ اسلام سے بالکل خارج نہیں قرار دیتے،بلکہ اسلام سے ضعیف سا تعلق تسلیم کرتے ہیں۔اس ضلالت شدیدہ کے مرتکب کو فقہائے کرام کافرفقہی کہتے ہیں اور کافر کلامی کو کافرکلامی کہتے ہیں،یعنی دونوں کے لیے استعمال کردہ لفظ میں بھی فرق ہے اور دونوں کے حکم میں بھی فرق ہے۔
کافرفقہی کو فقہائے کرام کافر کلامی نہیں کہتے ہیں،نہ اس کے لیے کافر کلامی کا حکم بیان کرتے ہیں۔
کافرکلامی کانکاح کا باطل ہوجاتا ہے اور تمام اعمال سابقہ باطل ہوجاتے ہیں۔ فقہائے کرام کافر فقہی کے لیے یہ حکم بیان نہیں کرتے، بلکہ فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں یہ حکم صرف کافر کلامی کے لیے ہے۔
کافر فقہی سے نکاح حرام ہے،یعنی نکاح منعقد ہوجائے گا،لیکن نکاح کرنے والا گنہگار ہوگا۔کافر کلامی سے نکاح منعقد نہیں ہوگا اور اس سے قربت زنائے خالص ہے اور اولا د بھی اولاد زنا اور غیر ثابت النسل ہوگی۔اس حکم میں فقہا ومتکلمین کا اتفاق ہے۔
الحاصل کافر فقہی اور کافر کلامی کے شرعی احکام میں فقہا ومتکلمین کا اتفاق ہے۔
صرف اس میں اختلاف ہے کہ کافر فقہی کو کافر کہا جائے،یاگمراہ کہا جائے۔یہ لفظی اختلاف ہے۔ اس کوتعبیری اور اصطلاحی اختلاف کہا جائے گا۔یہ حقیقی اختلاف نہیں۔
اگر ضروری دینی کا انکار ظنی ہو، اور تمام مذاہب فقہیہ کے فقہائے کرام کا اس کے کفر ہونے پر اجماع ہوتواس کو بھی متکلمین ضلالت کہتے ہیں،کیوں کہ اجماع فقہا کی مخالفت بدعت ہے۔ کفر وضلالت کے مختلف درجات ہیں۔شناعت میں بعض کم ہے،بعض زیادہ۔
سوال ہفتم:کیا کفر فقہی میں بھی (من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر)کا استعمال ہوتا ہے؟ اور کیاکافر فقہی کے قتل کا بھی حکم دیا جاتا ہے؟
جواب:خلق قرآن کے قائلین کافر فقہی ہیں۔ حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوراس زمانے کے ائمہ محدثین وفقہائے کرام نے ان لوگوں کے لیے ”من شک فی کفرہ فقد کفر“کا اصول استعمال فرمایا ہے۔ہمارے رسالہ:”عقائد ونظریا ت اورمناظراتی مباحث“میں مذکورہ ائمہ کرام کے بہت سے اقوال منقول ہیں،جن میں (من شک فی کفرہ فقد کفر) کا استعمال خلق قرآن کے قائلین کے لیے کیا گیا ہے۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جواس کے کافر فقہی ہونے میں شک کرے،وہ اسی کی طرح کافر فقہی ہے۔متکلمین کافر فقہی کے کفر فقہی کا انکار نہیں کرتے، بلکہ اس جرم کا نام ضلالت رکھتے ہیں۔ان کی اصطلاح میں صرف کافر کلامی کو کافر کہا جاتا ہے۔ یہ تعبیری واصطلاحی اختلاف ہے۔ اس کولفظی اختلاف کہا جاتاہے۔
امام احمد رضا قادری باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر تھے۔متکلمین کافر فقہی کو گمراہ کہتے ہیں اور جب کافر کہتے ہیں تو فقہا کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہتے ہیں،مثلاً کافر فقہی ہے،بحکم فقہا کافر ہے،فقہا کے یہاں کافر ہے۔آپ نے دہلوی کے بارے میں الکوکبۃ الشہابیہ اور سل السیوف الہندیہ میں ایسا ہی رقم فرمایا ہے۔
امام ممدوح نے مذہب متکلمین کے مطابق اسماعیل دہلوی کو گمراہ قرار دیا،اور فرمایا:
”اگر اس کی ضلالت وگمرہی پر آگاہی ہوکر اسے اہل حق جانتا ہوتو خود اسی کی مثل گمراہ وبددین ہے“۔(فتاویٰ رضویہ جلدسوم:ص189-رضا اکیڈمی ممبئ)
جس درجہ کے منکر کو فقہا کافر فقہی کہتے ہیں،اسی درجہ والے کو متکلمین اپنی اصطلاح میں گمراہ کہتے ہیں۔فقہا بھی اس کو کافر کلامی سے ایک درجہ نیچے قرار دیتے ہیں،اسی لیے کافرفقہی کی بیوی کو بائنہ قرار نہیں دیتے، اور اس کے اعمال سابقہ کو باطل قرار نہیں دیتے۔
بدعتی کے لیے بھی بطورتعزیر قتل کا حکم ہے،تاکہ لو گ اس کی ضلالت وگمرہی سے محفوظ رہیں۔اسی طرح بادشاہ اسلام کو متعدد مجرموں کے قتل کا اختیار ہے۔کافر فقہی کا قتل اگر بطور حدنہ بھی ہوتو بطور تعزیر قتل ہو گا۔یہ قاضی اسلام اور حاکم اسلام کی رائے پر منحصر ہے۔
محققین ومدققین کے لیے اہم نکتہ
(من شک فی کفر ہ وعذابہ فقد کفر)میں لفظ ”وعذابہ“سے مجرم کے دائمی معذب ہونے کا ذکر ہے،کیوں کہ کافر کلامی بھی کافر اصلی کی طرح دائمی معذب ہے۔
کافر فقہی دائمی معذب نہیں،اسی لیے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جب خلق قرآن کے قائلین کے لیے اس اصول کا استعمال ہوا تو اس کے دائمی معذب ہونے کا ذکر نہیں،یعنی (من شک فی کفر ہ وعذابہ فقدکفر)کا استعمال نہیں ہوا، بلکہ (من شک فی کفرہ فقدکفر)کہا گیا۔حضرت علامہ خیرآبادی قد س سرہ العزیز نے بھی دہلوی کی تکفیرمیں اس کے دائمی معذب ہونے کا ذکر نہیں کیا۔اہل علم کے لیے یہ واضح دلیل ہے کہ وہ فتویٰ کفر فقہی کا ہے۔تکفیر کلامی میں مجرم کے دائمی معذب ہونے کا بھی ذکر ہوتا ہے۔
حضرت علامہ خیر آبادی علیہ الرحمۃ والرضوان کے فتویٰ کا وہ حصہ منقولہ ذیل ہے۔
”وجواب سوال سوم ایں است کہ:
قائل ایں کلام لا طائل ازروئے شرع مبین بلاشبہ کافر وبے دین است۔ہر گز مومن ومسلمان نیست، وحکم اُو شرعاً قتل وتکفیر است، وہر کہ در کفر اُو شک آرد، یا تردد دارد، یا ایں استخفاف راسہل انگارد،کافر وبے دین ونا مسلمان ولعین است“۔
(تحقیق الفتویٰ قلمی نسخہ:سیف الجبار: ص88-مطبوعہ کانپور)
دہلوی کے دائمی معذب ہونے کا ذکر نہ کرنا واضح قرینہ ہے کہ یہ تکفیر فقہی ہے۔
فالحمد للہ رب العلمین:والصلوٰۃوالسلام علیٰ شفیع المذنبین::وآلہ واصحابہ اجمعین
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:13:ستمبر2021
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں