Header Ads

حضرت شیخ عثمان اخی سراج الدین ائنہ ہند رحمۃاللہ علیہ

حضرت شیخ عثمان اخی سراج الدین ائنہ ہند رحمۃاللہ علیہ

از قلم جسیم رضا ثقافی 

محترم قارئین جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اولیاء اللہ بڑے ہی شان والے ہوتے ہیں یہ اولیاء ہی ہیں جو ہمارے ملک عزیز میں اسلام کی شمع روشن کئے اور مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت میں ایک اہم رول ادا کئے ویسٹ بنگال کے مالدہ ڈسٹرکٹ کے سعدللہ پور میں ایک عظیم الشان ہستی آرام فرما ہیں جنکا نام حضرت شیخ عثمان اخی سراج الدین ائنہ ہند رحمۃاللہ علیہ ہے انکے دربار میں حاضری کا شرف حاصل ہوا حضرت اخی سراج الدین عثمان علیہ الرحمہ: متوفی :۷۵۸ھ] سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا کے خلیفہ ، سلسلہ سراجیہ کے بانی اور مرشد ِمخدوم سمنانی شاہ علاء الحق پنڈوی کے مرشد ومربی ہیں ، بہ زبان مرشد ’’آئینہ ہندوستان ‘‘ سے ملقب ہیں ، علم و فضل ، سلوک و تصوف ، زہد و ورع ، اخلاص و بندہ پروری اور فداکاری جیسی خوبیوں اور کمالات سے متصف تھے ، معلی القاب تھے ، زبان و قلم کے دھنی اور بیان کے ماہر تھے ، بحر حقیقت کے غواص اور شرعی علوم و عملیات کے جامع تھے، ان کی بارگاہ ایک بافیض درس گاہ سمجھی جاتی تھی اور آج ان کا مزار پُر انوار کرم کا منبع مانا جاتا ہے ۔ وہ مرشد طریقت تھے ، مربی تھے ، انسانیت نواز ، کردار ساز اور صاحب اعزاز تھے ،ان کا ظاہر و باطن یکساں اور مجلا و مصفیٰ تھا، جوہر علم اور گوہر معرفت لٹانے کا جذبہ صادق رکھتے تھے ، جن کے فیض یافتگان میں شاہ علاء الحق پنڈوی جیسے مرد حق آگاہ کا نام آتا ہے جنھوں نے بڑی تمناؤ ں سے اپنے مرید و خلیفہ حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو سنوارا اور راہِ معرفت پر چلا کر فیض وکرامت کا سدرۃ المنتہیٰ بناڈالا۔

سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کے جلیل القدر خلفاء میں تھے، اگرچہ سلطان المشائخ کے تمام خلفاء عالی مرتبہ تھے؛ لیکن ان میں ایک حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی اور دوسرے حضرت اخی سراج الحق والدین کو بڑی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی، بلکہ در حقیقت سلسلۂ چشتیہ انہی دونوں بزرگوں سے جاری ہوا، خود سلطان المشائخ حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ کے بار ے میں فرمایا کہ ”وہ ہندوستان کا آئینہ ہے“ اور آپ کے متعلق صاحب روضۃ الاقطاب لکھتے ہیں کہ:۔
” الحق وی آئینۂ ہند بود کہ تمام ہند رونق ارشاد وہدایت بیفزود 
وطریق معرفت وولایت روی نمود، اگرچہ جمیع خلفاء سلطان 
المشائخ صاحب مقامات بودند ام از آنہا شیخ نصیرا لدین محمود کہ 
چراغ دہلی و شیخ سراج الدین کہ آئینۂ ہند است چاشنی دیگر داشتید 
وازیں دو بزرگ بسے مردماں صاحب تکمیل وارشاد پدید آمدند“ 
ترجمہ: حق یہ ہے کہ وہ آئینۂ ہند ہیں، جن سے پورے ہندوستان کی رونق وہدایت میں اضافہ ہوا، اور معرفت وولایت کے آثار ظاہر ہوئے، اگر چہ سلطان المشائخ کے سبھی خلفاء عالی مرتبت تھے، لیکن شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلی اور شیخ سراج الدین آئینۂ ہند کی بات ہی کچھ اور ہے، اور ان دونوں بزرگوں کے فیض سے بہت سے لوگ صاحب تکمیل وارشاد ہوئے۔ 
نوجوانی کے عالم میں حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء رحمتہ الله علیہ سے مرید ہوئے، اور چند سال آپ کی خدمت میں رہنے کے بعد اپنی والدۂ محترمہ کی خدمت میں لکھنوتی جس کا موجودہ نام گور ہے تشریف لےگئے، چند دن قیام کے بعد شیخ کی خدمت میں پھر حاضر ہوئے، جب خلافت کا وقت آیا تو حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا کی خلافت کے لیے پہلی شرط علم ہے، اور شیخ میں بھی اتنا علم نہیں تھا، مولانا فخرالدین زرّادی نے عرض کیا کہ میں انھیں چھ ماہ میں عالم بنادوں گا، چنانچہ مولانا فخرالدین زرّادی نے آپ کو پڑھانا شروع کیا، آپ کے لیے صرف ونحو پر ایک کتاب لکھی، جس ک نام” تصریف عثمان“رکھا، اس کے بعد مولانا رکن الدین سے قافیہ، قدوری، مجمع البحرین پڑھا، تحصیل علم کے بعد حضرت سلطان المشائخ نے انھیں خلافت واجازت سے سرفراز فرمایا، اور دیارِ مشرق کا صاحب ولایت بنایا، جب تک آپ سلطان المشائخ کی خدمت میں رہے تحصیل علم کا یہ سلسلہ جاری رکھا، اور حضرت سلطان المشائخ کے وصال کے بعد بھی مزید تین سال دیگر درسی کتابوں کی تحصیل میں مشغول رہے، پھر شیخ کے موقوفہ کتب خانہ سے چند کتابیں اور کچھ کپڑے اور خلافت نامہ جو سلطان المشائخ نے آپ کو عطا کیا تھا، لے کر اپنے وطن لکھنوتی تشریف لائے اور اس دیار کو اپنے نورِ جمال ولایت سے روشن کردیا، آپ نے اپنے شیخ سے جو خرقہ اور تبرکات حاصل کیا تھا اسے زمین میں دفن کردیا، اور اس پر قبر بنادی، اور انتقال سے پہلے وصیت فرمائی کہ مجھے اسی قبر میں دفن کیا جائے، چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد ایسا ہی کیا گیا، شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ الله علیہ نے اخبار الاخیار میں شیخ حسام الدین مانکپوری کے حوالے سے لکھاہے کہ ”شیخ سراج الدین عثمان کے پاس ایک سہروردی درویش مہمان ہوئے، عشاء کی نماز کے بعد درویش پوری رات نماز وعبادت میں مشغول رہے اور شیخ سراج نماز عشاء پڑھ کر اپنے بستر پر سوگئے اور صبح بستر سے اٹھے، اور عشاء ہی کے وضو سے فجر کی نماز اداکی، درویش نے کہا حیرت ہے تمام رات آپ سوتے رہےاور بغیر وضو کے فجر کی نماز پڑھ لی، آپ نے بڑے تواضع سے فرمایا کہ آپ بزرگ ہیں تمام رات مصروف کار رہےاور میں صاحب مال ہوں چور اس کی تاک میں ہے اس لیے پوری رات اس کی نگہبانی کرتا رہا۔
آپ کے خلفاء میں سلطان المرشدین حضرت علاؤالدین پنڈوی نے غیر معمولی شہرت اور مقبولیت پائی اور یہی وہ ذات گرامی ہے جن کی شرفِ بیعت اور فیض تربیت سے حضرت سیّد اشرف سمنانی جہانگیر قطبِ عالم غوث العالم اور محبوبِ یزدانی کے بلند مدارج تک پہونچے
بہر حال اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگان دین سے وابستہ رکھے ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت میں بھی ان کا فیض ہم مومنین پر جاری و ساری رکھے آمین


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے