Header Ads

کیـا مـاں بچّـے کا دو سـال سـے پہلـے دُودھ چھـڑا سکتی ہیں؟

🕯        «    احــکامِ شــریعت     »        🕯
-----------------------------------------------------------
📚کیـا مـاں بچّـے کا دو سـال سـے پہلـے دُودھ چھـڑا سکتی ہیں؟📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

              السوال:     
السلام علیکم ورحمتہ الله وبرکاتہ۔
اگر بچہ دودھ کے علاوہ کچھ نا کھاتا ہو تو کیا دو سال سے پہلے ماں پچے کو دودھ دینا بند کر سکتی ہے ؟؟ رہنمائی فرمائیں  
ســائلـہ: فاطمہ قادریہ رضویہ  " جموں کشمیر
ــــــــــــــــــــــ♦️🔰♦️ـــــــــــــــــــــــ

وعلیکم السلام ورحمتہ الله وبرکاتہ
الجواب اللھم ہدایۃ الحق والصواب
صورت مسئولہ میں اگر بچـہ ماں کے دودھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کھاتا پیتا ہو تو پھر اس بچے کو دو سال تک ماں کا دودھ پلایا جائے یہ بچے کا حق ہـے بحکم قرآن....  اور اگر بچہ کھانا وغیرہ یا دیگر دودھ وغیرہ پیتا ہو اور  دودھ چھوڑانے سے بچے کے صحت پر کوئی اثر نہ آئے پھر دو سال سے کم مدت میں بھی دودھ چھڑائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ البتـہ بلاوجـہ ایسا کرنا جائز نہیں، مکمل دو سال دودھ پلایا جائے۔ قرآن پاک میں ہـے؛ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ۞ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں۔ ( کنزالایمان پ٢ آیت٢٣٣ ) یاد رہـے کہ ڈھائی سال کے اندر دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوگی، حضرت امام اعظم ابوحنیفـہ علیہ الرحمـہ کے نزدیک رضاعت کی مدت تیس ماہ ہے،ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیتِ مبارکہ ہـے: وحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۞ اور اس کے حمل اور اسکے دودھ چھرانے کی(یعنی زمانہ حمل و رضاعت) مدت تیس مہینے ہـے۔ ( سورةالاحقاف،پارہ ٢٦، آیت١٥ ) 
واضح رہـے کہ☜ بچہ اور بچی دونوں کی دودھ پلانے کی مدت میں کوئی فرق نہیں،شرعاً دونوں کی مدت رضاعت (یعنی دودھ پلانے کی مدت) دوسال ہے، دوسال کی عمر ہونے پر بچے یا بچی کا دودھ چھڑا دیاجائے،اگر کوئی بچـہ یا بچی زیادہ کمزور ہو تو اُسے ضرورتاً ڈھائی سال تک بھی دُودھ پلایا جاسکتا ہـے۔ حضور صدرالشریعـہ عليہ الرحمہ لکھتـے ہیں؛ بچہ کو دو برس تک دودھ پلایا جائے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی, دو ۲ برس کے اندر بچـہ کا باپ اس کی ماں کو دودھ چھڑانے پر مجبور نہیں  کرسکتا اور اس کے بعد کرسکتا ہے۔ 
📓( بہار شریعت حصہ ٧ ص٣٧ )
کما فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) باب الرضاع  (هو) لغةً بفتح وكسر: مص لثدي. وشرعاً: (مص من ثدي آدمية) ولو بكراً أو ميتةً أو آيسةً، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما، وهو الأصح) فتح، وبه يفتى كما في تصحيح القدوري عن العون،  لكن في الجوهرة أنه في الحولين ونصف، ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى. واستدلوا لقول الإمام بقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} (سورةالأحقاف:١٥) أي مدة كل منهما ثلاثون غير أن النقص في الأول قام بقول عائشة: لايبقى الولد أكثر من سنتين ومثله لايعرف إلا سماعاً، والآية مؤولة لتوزيعهم الأجل على الأقل والأكثر فلم تكن دلالتها قطعيةً، على أن الواجب على المقلد العمل بقول المجتهد وإن لم يظهر دليله كما أفاده في رسم المفتى، لكن في آخر الحاوي: فإن خالفا قيل: يخير المفتي، والأصح أن العبرة لقوة الدليل.(قوله: لكن إلخ) استدراك على قوله: وبه يفتى. وحاصله أنهما قولان، أفتى بكل منهما ط ... (قوله: والأصح أن العبرة لقوة الدليل) قال في البحر: ولايخفى قوة دليلهما، فإن قوله تعالى: {والوالدات يرضعن} (سورةالبقرة:٢٣٣) الآية يدل على أنه  لا رضاع بعد التمام. وأما قوله تعالى:{فإن أرادا فصالاً عن تراض منهما} (سورةالبقرة:٢٣٣) فإن ما هو قبل الحولين بدليل تقييده بالتراضي والتشاور، وبعدهما لايحتاج إليهما. وأما استدلال صاحب الهداية للإمام وقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} (سورةالأحقاف:١٥) بناء على أن المدة لكل منهما كما مر، فقد رجع إلى الحق في باب ثبوت النسب من أن الثلاثين لهما للحمل ستة أشهر والعامان للفصال"📓 ( الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)جلد ٢٠٩/٣ )
        🌹واللّٰہ تعالیٰ اعلم🌹
ــــــــــــــــــــــ♦️🔰♦️ـــــــــــــــــــــــ

✍️کتبـــــــــــــــــــہ:
حضـرت مـولانا قـاری محمّـد عمـر فـاؔروق ربـّانـی صـاحـب قبلـہ مدظلہ العالی النـورانـی۔
📲+91 90541 61812

✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: عبده المذنب محمد مجيب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔
✅الجواب صحیح والمجیب مصیب ومثاب: محمد ضیاءالدین برکاتی, مدرسہ غوثیہ گلشن رضا( سمستی پور )۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
ـــــــــــــــــــــ♦️🔰♦️ــــــــــــــــــــــ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے