Header Ads

اسماعیل دہلوی کی تکفیر فقہی پر فیصلہ کن بحث

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ
 والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

اسماعیل دہلوی کی تکفیر فقہی پر فیصلہ کن بحث

حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمۃوالرضوان نے”تحقیق الفتویٰ“میں چار مفصل مباحث رقم فرمائے ہیں اور آخر میں فتویٰ کا خلاصہ رقم فرمایا ہے۔ خلاصہ فتویٰ میں ”من شک“کے اصول کا استعمال فرمایا ہے۔ اسی اصول کے سبب بعض لوگوں کو شبہہ ہوا۔ وہ کہنے لگے کہ حضرت علامہ خیر آبادی نے دہلوی کی تکفیر کلامی فرمائی ہے،حالاں کہ حضرت علامہ خیر آبادی قدس سرہ العزیز نے”تحقیق الفتویٰ“کے مقام رابع میں صراحت فرمائی ہے کہ یہ تکفیر فقہی ہے۔اس کے باوجود لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔علامہ خیرآبادی نے رقم فرمایا: 

(1)”المقام الرابع:در حکم اقتراف استخفاف بہ شان آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وحضرات سائر انبیاعلیہم السلام وحال مرتکب ایں جریمہ شنیعہ عند الفقہا وعلماء الشریعہ“۔ 
(تحقیق الفتویٰ: ص399-فارسی نسخہ)

ترجمہ:مقام رابع حضواقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور دیگر حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کی تخفیف شان کے ارتکاب کا حکم اور فقہائے کرام اور علمائے شریعت کے نزدیک اس جرم شنیع کے مرتکب کے حال میں۔

توضیح:مقام رابع میں دہلوی کے حکم شرعی کا بیان ہے۔ حضرت علامہ قدس سرہ صراحت فرمارہے ہیں کہ فقہائے کرام کے اصول کے مطابق بحث رقم کی جارہی ہے۔

(2)”بعد ازاں حال مستخف واستخفاف شرعاً ازروئے روایات فقہ گزارش با ید،تا دراذہان اوقع ومسترشد را انفع باشد“۔(تحقیق الفتویٰ: ص399-فارسی نسخہ)

ترجمہ:اس کے بعد تنقیص کرنے والے اور تنقیص کا حال شرعی طورپر فقہی روایات کی روشنی میں پیش کیا جائے،تاکہ ذہن میں زیادہ راسخ ہو،اور طالب ہدایت کے لیے زیادہ مفید ہو۔

توضیح:یہ عبارت بھی مقام رابع کے شروع حصہ کی ہے۔ حضرت علامہ قدس سرہ العزیزصراحت فرمارہے ہیں کہ فقہی روایات کے مطابق حکم شرعی بیان کیا جارہا ہے۔

شرعی احکام کابیان مقام رابع میں ہے اور اخیر میں فتویٰ کا خلاصہ ہے، اوریہ صراحت ہے کہ یہ فتویٰ کا خلاصہ ہے۔خلاصہ فتویٰ کے شروع میں آپ نے رقم فرمایا:

(3)”چوں ہرمقام پیرایہ انجام واختتام یافت،حالاخلاصہ فتویٰ وجواب استفتاباید شنید“۔(تحقیق الفتویٰ: ص433-فارسی نسخہ)

ترجمہ:جب چاروں مقامات مکمل ہوگئے تواب خلاصہ فتویٰ اور استفتا کا جواب سنئے۔

حضرت علامہ خیر آبادی قدس سرہ العزیز نے چاروں مقامات میں شرعی احکام کو تفصیل کے ساتھ بیان فر مایا ہے،انہی تفصیلات کی روشنی میں خلاصہ فتویٰ رقم فرمایا ہے۔ 
مقام رابع میں اسماعیل دہلوی کی تکفیر کی تفصیلی بحث ہے۔ تفصیلی بحث میں حضرت علامہ خیرآبادی قدس سرہ العزیزنے صراحت فرمائی ہے کہ تنقیص انبیائے کرام اور اس کے مجرم کا حکم فقہا ئے کرام کے اصول کے مطابق اورفقہی روایات کے مطابق بیان کیا جارہاہے، پس فتویٰ کے خلاصہ میں بھی فقہائے کرام کے مذہب کے مطابق حکم شرعی کا بیان ہوگا،نہ کہ متکلمین کے مذہب کے مطابق،ورنہ اجمالی بحث،تفصیلی بحث کے خلاف ہوجائے گی۔ 

”من شک“ کے اصول کے استعمال کے سبب شبہہ میں مبتلا ہونا بے فائدہ ہے۔ ”من شک“ کے اصول کا استعمال تکفیر فقہی وتکفیر کلامی دونوں میں ہوتا ہے۔”مناظراتی مباحث اور عقائد ونظریات“میں ہم نے ایک درجن سے زائد حوالے نقل کیے کہ حضرات ائمہ مجتہدین وائمہ محدثین صدی سوم میں ”من شک“ کا استعمال تکفیر فقہی میں فر ما چکے ہیں۔


متأخرین فقہائے احناف اور تکفیرفقہی:
 
امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے تحریر فرمایا کہ متأخرین فقہائے احناف کفرفقہی کا فتویٰ دیتے تھے۔وہ باب تکفیر میں متکلمین کے مذہب کو اختیار نہیں کرتے۔

امام اہل سنت علیہ الرحمۃوالرضوان نے تحریر فرمایا:”مجتہد جس شئ کی طلب جزمی حتمی اذعان کرے،اگر وہ اذعان بدرجہ یقین معتبر فی اصول الدین ہو،اور اس تقدیر پر مسئلہ نہ ہوگا،مگر مجمع علیہ ائمہ دین تووہ فرض اعتقادی ہے،جس کا منکر عند الفقہا مطلقا کافر اور متکلمین کے نزدیک (منکر اس وقت کا فر ہے)جب کہ مسئلہ ضروریات دین سے ہو،اوریہی عند المحققین احوط واسد اور ہمارے اساتذۂ کرام کا معول ومعتمد ہے“۔
(فتاویٰ رضویہ جلداول:ص242-240:جامعہ نظامیہ لاہور)

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے منقولہ بالا عبارت کے حاشیہ میں تحریر فرمایا:

(اقول:ای عند عامۃ مصنفیہم من اصحاب الفتاوی وغیرہم من المتأخرین،اما ائمتنا الاقدمون فعلی ما علیہ المتکلمون کما حققہ خاتم المحققین سیدنا الوالد قدس سرہ الماجد فی بعض فتاواہ)(حاشیہ فتاویٰ رضویہ:جلداول:ص242:جامعہ نظامیہ لاہور)

ترجمہ: میں کہتا ہوں،یعنی فقہائے متأخرین میں سے اکثر اصحاب فتاویٰ مصنفین وغیرہم کے نزدیک (وہ مطلقاًکافر ہے) اورہمارے ائمہ متقدمین کا مسلک وہی ہے جس پر متکلمین ہیں،جیسا کہ خاتم المحققین ہمارے والد ماجد قدس سرہ نے اپنے بعض فتاویٰ میں اس کی تحقیق فرمائی۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:(اقول:تحقیق المقام اَنَّ اَکثَرَ الحَنفیۃ یُکَفِّرُونَ بانکارکل مقطوع بہ،کما ہومُصَرَّحٌ فی رد المحتار وغیرہ)-وہم ومن وافقہم،ہم القائلون بانکارکل مجمع علیہ-بَعدَ مَا کَانَ الاِجمَاعُ قَطعِیًّا نَقلًا وَدَلَالَۃً-وَلَاحَاجَۃَ اِلٰی وجود النص۔

وَالمُحَقِّقُونَ لَا یُکَفِّرُونَ اِلَّا بانکارمَا عُلِمَ مِنَ الدِّینِ ضَرُورَۃً بحیث یشترک فی معرفتہ الخاص والعام المخالطون للخواص-فان کان المجمع عَلَیہِ ہکذا-کَفَرَ مُنکِرُہ-وَاِلَّا،لَا-وَلَا حَاجَۃَ عند ہم اَیضًا اِلٰی وجود نَصٍّ-فَاِنَّ کَثِیرًا مِن ضَرُورِیَاتِ الدِّین مِمَّا لَا نَصَّ عَلَیہِ کَمَا یَظہَرُ بِمُرَاجَعَۃِ ”الاعلام”وغیرہ)(المعتمد المستند: ص195-المجمع الاسلامی مبارک پور) 

اکثر فقہائے احناف ہرقطعی امر دینی کے انکار پر تکفیر فرماتے ہیں۔ قطعیات میں بہت سے امور ضروریات دین ہیں اوربہت سے امور ضروریات اہل سنت۔ ضروریات اہل سنت کے انکار پر فقہی تکفیر ہوتی ہے۔ضروریات دین کے مفسر انکار پر تکفیر کلامی ہوتی ہے۔

متاخرین فقہا ئے احناف کے طریق کارسے بھی ظاہر ہے کہ دہلوی کی تکفیر،تکفیر فقہی ہے،نیز دہلوی کی عبارتوں میں کفر لزومی ہے،کفرالتزامی نہیں، پس تکفیر کلامی کی کوئی گنجائش نہیں۔ دہلوی کی تکفیر فقہی کی تفصیلی بحث ”البرکات النبویہ“رسالہ دہم میں ہے۔

وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوٰۃ والسلام علیٰ حبیبہ الکریم::وآلہ العظیم

طارق انورمصباحی 

جاری کردہ:20:نومبر 2021
٭٭٭٭٭ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے