اختلافی مسائل میں اختلاف علما کی رعایت

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما

اختلافی مسائل میں اختلاف علما کی رعایت 

باب فقہیات کے ظنی واجتہادی مسائل میں ہر مجتہد کو اپنے ظن غالب پر عمل کا حکم ہے، لہٰذا ظنی امور میں فقہائے کرام کا اختلاف ہونا بدیہی امرہے،اوریہ شرعاً معیوب نہیں،جب کہ اسی فقیہ نے اجتہاد یا تحقیق کی ہو جس کو اس مسئلہ میں اجتہاد وتحقیق کی شرعاًاجازت ہے۔ شرعی احکام کی تحقیق ہر ایک کے سپرد نہیں۔عہد حاضر میں طبقہ ہفتم کے فقہائے کرام ہیں۔ ان میں بعض بفضل الٰہی صاحب نظر فقیہ ہوں گے، اور اکثر غیر صاحب نظر۔ان کوبوقت ضرورت صاحب نظرفقیہ کی جانب رجوع کا حکم ہوگا۔

اختلافی مسائل میں تمام مذاہب مجتہدین کی رعایت مستحب ہے۔ اگر دیگر مجتہدین کے مذاہب پر عمل سے اپنے مذہب کا کوئی مکروہ لازم آئے،تب رعایت نہ کی جائے گی۔

کبھی ایک ہی فقہی مذہب کے فقہائے کرام کے مابین کسی نوپید مسئلے میں اختلاف ہو جاتا ہے۔اگر ایسے موقع پرکسی ایک فقیہ کے قول پر عمل کی شرعی اجازت ہوتو بھی دوسرے فقیہ کے قول کی حتی الامکان رعایت کی جائے گی۔

عصر حاضر میں ٹی وی اورویڈیوکا مسئلہ بہت معرکۃ الآرا رہا ہے۔ فقہائے احناف کا ایک طبقہ عدم جواز کا قائل ہے، اور ایک طبقہ جواز کا قائل ہے۔ بعض تنظیم وتحریک اوربعض افراد واشخاص قائلین جواز کے قول پرعمل کرتے ہوئے دینی کاموں کے لیے ٹی وی،ویڈیو کا استعمال کرتے ہیں۔چوں کہ یہ اختلافی مسئلہ ہے، اس لیے انہیں عدم جواز کے قائلین کے قول کی رعایت کرنی چاہئے اور دینی کا موں کے علاوہ دیگر امورمثلاً شادی بیاہ،برتھ ڈے وغیرہ میں ٹی وی،ویڈیو کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔اس طرز عمل سے باہمی اتحاد قائم ہوگا۔

مذاہب مجتہدین کی رعایت سے متعلق فتاویٰ رضویہ کے چند اقتباس درج ذیل ہیں۔

مذاہب مجتہدین کی رعایت مستحب:

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”حتی الامکان چاروں مذہب،بلکہ جمیع مذاہب ائمہ مجتہدین کی رعایت ہمارے علما، بلکہ سب علما مستحب لکھتے ہیں،مگر اس کے ساتھ ہی علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ یہ اسی وقت تک ہے کہ اپنے مذہب کے کسی مکروہ کا ارتکاب نہ ہو، ورنہ ایسی رعایت کی اجازت نہیں۔”فی رد المحتار:لیس لہ ان یرتکب مکروہ مذہبہ لیراعی مذہب غیرہ کما مر تقریرہ اول الکتاب“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد سوم:ص 682-رضا اکیڈمی ممبئ)
(فتاویٰ رضویہ:جلد ہشتم:ص297-جامعہ نظامیہ لاہور)

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”عبادات بشدت محل احتیاط ہیں اور خلاف علماسے خروج بالاجماع مستحب، جب تک اپنے مذہب کے کسی مکروہ کا ارتکاب نہ لازم آئے۔کما نص علیہ فی رد المحتاروغیرہ“۔  
(فتاویٰ رضویہ:جلد ہشتم:ص311-جامعہ نظامیہ لاہور)

جب دیگر فقہی مذاہب کی رعایت کا حکم ہے تو اپنے مذہب کے فقہائے کرام کے اختلاف کی بھی حتی الامکان رعایت کی جائے گی،خاص کر جب شرعی مصلحت اس کی متقاضی ہو۔


داڑھی کے لٹکتے بالوں کودھونا مستحب:

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”پوری داڑھی کا دھونا فرض ہے، مذہبِ صحیح مُفتی بہ پر، جس کی طرف امام نے رجوع کرلیا ہے، اور اس کے علاوہ جو روایت ہے،اس سے رجوع ہوچکا ہے، پھر اس میں اختلاف نہیں کہ داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کا دھونا یا مسح کرنا فرض نہیں،بلکہ (اس کا مسح) مسنون ہے۔(مستر سل”لٹکتے بالوں“کی تفسیر علامہ ابن حجر شافعی نے شرح منہاج میں یہ لکھی ہے:بالوں کا وہ حصہ جو نیچے کو پھیلایا جائے تو چہرے کے دائرے سے باہر ہوجائے،پھر میں نے دیکھا کہ مصنف نے زاد الفقیرکی شرح میں یہ لکھا ہے: مجتبی میں ہے کہ بقالی نے کہا:داڑھی کے وہ بال جو ٹھوڑی سے نیچے ہیں،وہ امام شافعی کے برخلاف ہمارے نزدیک چہرے میں شمار نہیں۔ اھ)

ہلکی داڑھی جس کی جلد نظر آتی ہے، اس کے نیچے کی جلد دھونا فرض ہے، نہر۔ اور برہان میں ہے:مذہب مختار میں اس جلد کو دھونا فرض ہے جو بالوں سے چُھپی ہوئی نہیں ہے جیسے بھووں، مونچھوں اور بچیّ کے بالوں سے نہ چھپنے والی جلد۔
 اس سے وہ صو رت مستثنیٰ ہے جب مونچھیں اتنی لمبی ہوں کہ لبوں کی سُرخی کو چھپالیں، کیوں کہ سراجیہ میں ہے کہ لبوں کی سُرخی کو چھپالینے والی مونچھوں کا خلال کرنا یعنی ہٹا کر لب کی جلد دھونا فرض ہے)اھ۔ درمختار کی عبارت تلخیص اور ہلالین کے درمیان رد المحتار سے اضافوں کے ساتھ ختم ہوئی۔

قلت:واستحبابی غسل المسترسل نظرًا الٰی خلاف الامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لما نصوا علیہ من ان الخروج عن الخلاف مستحب بالاجماع ما لم یرتکب مکروہ مذھبہ کمافی ردالمحتار وغیرہ۔

قلت:داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کو دھونا، میں نے امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اختلاف کا لحاظ کرتے ہوئے مستحب کہا،اس لیے کہ علمانے تصریح فرمائی ہے کہ صورتِ اختلاف سے بچنا بالا جماع مستحب ہے،بشرطے کہ اس میں اپنے مذہب کے کسی مکروہ کا ارتکاب نہ ہو،جیسا کہ ردالمحتار وغیرہ میں ہے“۔ 
(فتاویٰ رضویہ:جلد اول:ص 601-جامعہ نظامیہ لاہور)

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کو دھونا مستحب قرار دیا، کیوں شافعی مذہب میں ٹھوڑی کے نیچے کے بال چہرہ میں شامل ہیں۔


محتاط حنفی اورمحتاط شافعی کا طرز عمل:

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”اب یہ غورکیجئے کہ علمائے دین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اہل حق وہدیٰ کے مذاہب مختلفہ مثلاً باہم حنفیہ وشافعیہ میں ایک کی دوسرے سے اقتداپرکیاکلام کیاہے۔یہ مسئلہ ہمیشہ سے معرکۃ الآرارہااور اس میں تکثر شقوق واختلاف اقوال بشدت ہواہمیں یہاں صرف اس صورت سے غرض ہے کہ دوسرے مذہب والاجونماز وطہارت میں ہمارے مذہب کی مراعات نہ کرے اور خروج عن الخلاف کی پروانہ رکھے،اس کے پیچھے نمازکاکیاحکم ہے۔ پہلے اس احتیاط ومراعات کے معنی سمجھ لیجئے۔

 بعض باتیں مذاہب راشدہ میں مختلف فیہ ہیں، مثلاً فصدوحجامت سے شافعیہ کے نزدیک وضونہیں جاتا،ہمارے نزدیک جاتارہتاہے۔ مس ذکرومساس زن سے ہمارے نزدیک نہیں جاتا، ان کے نزدیک ٹوٹ جاتاہے، دوقلہ پانی میں اگرنجاست پڑجائے،ان کے مذہب میں ناپاک نہ ہوگا،ہمارے نزدیک (ناپاک) ہوجائے گا۔ان کے نزدیک ایک بال کامسح وضو میں کافی ہے،ہمارے یہاں ربع سرکاضرور۔ ہمارے مذہب میں نیت وترتیب وضومیں فرض نہیں،ان کے نزدیک فرض، وعلیٰ ہذا القیاس۔
 اس قسم کے مسائل میں باجماع ائمہ آدمی کو وہ بات چاہئے جس کے باعث اختلاف علمامیں واقع نہ ہو، جب تک یہ احتیاط اپنے کسی مکروہ مذہب کی طرف نہ لے جائے تومحتاط شافعی فصدوحجامت سے وضوکرلیتے ہیں اور مسح میں بعض پرقناعت نہیں کرتے اور محتاط حنفی مَسِ ذکرومساس زن سے وضوکرلیتے ہیں او رترتیب ونیت نہیں چھوڑتے کہ اگرچہ ہمارے امام نے اس صورت میں وضو واجب نہ کیا،منع بھی تونہ فرمایا، پھرنہ کرنے میں ہماری طہارت ایک مذہب پرہوگی، دوسرے پرنہیں اور کرلینے میں بالاتفاق طاہرہوجائیں گے اور اپنے مذہب میں وضو علی الوضو کاثواب پائیں گے۔

جوایسی احتیاط کاخیال نہیں کرتے اور دوسرے مذہب کے خلاف ووفاق سے کام نہیں رکھتے، جمہورمشائخ کے نزدیک ان کی اقتداجائز نہیں کہ صحیح مذہب پررائے مقتدی کا اعتبار ہے۔جب اس کی رائے پرخلل طہارت یااور وجہ سے فسادنماز کا مظنہ ہو،یہ کیوں کر ایسی نماز پراپنی نماز بناکرسکتاہے،خانیہ وخلاصہ و سراجیہ و کفایہ و نظم و بحرالفتاویٰ و شرح نقایہ و مجمع الانہر وحاشیہ مراقی الفلاح وغیرہاکتب میں اس کی تصریح فرمائی اور اسے علامہ سندی، پھر علامہ حلبی، پھرعلامہ شامی نے بہت مشائخ اور علامہ قاری نے عامہ مشائخ کرام سے نقل کیا“۔
(رسالہ:النہی الاکید:فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص 695-جامعہ نظامیہ لاہور)

امام کے لیے لازم ہے کہ حتی الامکان دیگر فقہی مذاہب کی رعایت کرے۔


 تنہا نمازی تمام مذاہب فقہیہ کی رعایت کرے:

مسئلہ: ۴۳۳۱: از افریقہ جوہانس برگ 
مرسلہ: محمد ابراہیم صاحب شافعی ۳۱: شعبان۷۲۳۱؁ھ
امام حنفی ہے اور مقتدی شوافع بھی ہیں۔اگر خطبہ اُولیٰ جمعہ میں امام”اوصیکم بتقوی اللّٰہ“ نہ پڑھے،اور درود شریف نہ پڑھے توشوافع کی نماز ہوگی یا نہیں؟

الجواب:مذہب شافعی پر شافعی کی نماز نہ ہوگی کہ وصیت و درود ان کے نزدیک ارکانِ خطبہ سے ہیں اور خطبہ بالاتفاق شرط صحت نماز جمعہ۔جب رکن فوت ہوئے خطبہ نہ ہوا، جب خطبہ نہ ہوا،نماز نہ ہو ئی۔

کتاب الانوار میں ہے:لصحۃ الجمعۃ وراء الشروط العامۃ شروط الٰی ان قال:السابع:خطبتان قبل الصلٰوۃ-وارکانھما خمسۃ:حمد اللّٰہ تعالٰی،الثانی الصلٰوۃ علٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم،الثالث الوصیۃ بالطاعۃ والتقوی-اھ ملتقطا

صحت جمعہ کے لیے شروط عامہ کے علاوہ ساتویں شرط یہ ہے کہ نماز سے پہلے دو خطبے ہوں، اور اس کے ارکان پانچ ہیں۔ایک اللہ تعالیٰ کی حمد،دوسرانبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں درود و سلام، تیسرا اطاعت وتقوٰیٰ کی نصیحت -اھ ملتقطا (ت)

اسی میں ہے:لصحۃ الاقتداء شروط،الاول ان یکون الامام مظھر مسلما،الثانی ان تصح صلٰوتہ باعتقاد الماموم-فلو اقتدی الشافعی بالحنفی وقد مس فرجہ او ترک البسملۃ-او الحنفی بالشافعی الذی افتصدا اواحتجم ولم یتوضأ بطلت صلٰوتہ-اھ مختصرا۔

صحت جمعہ اقتداکے لیے شروط ہیں۔اول یہ کہ امام مسلمان طاہر ہو، دوسرا یہ کہ اس کی نماز مقتدی کے اعتقاد کے مطابق درست ہو۔ اگر شافعی نے کسی حنفی کی اقتدا کی تو امام نے شرمگاہ کو چھولیا، یا اس نے بسم اللہ ترک کردی، یاحنفی نے ایسے شافعی کی اقتدا کی جس نے رگ کٹوائی، یاپچھنے لگوائے اور وضو نہ کیا توا قتدا کرنے والے کی نماز باطل ہوجائے گی۔ اھ اختصاراً 

فتاویٰ امام ابن حجر مکی شافعی میں ہے:ان علم انھم یترکون بعض الارکان او الشروط لم تصح منھم جمعۃ فلا یجوز لاحد ان یصلی معھم(ملخصا)

اگریہ جان لیا گیا ہو کہ انھوں نے بعض ارکان یا شرائط کو ترک کردیا ہے توان کا جمعہ صحیح نہ ہوگا،لہٰذا ان کے ساتھ جمعہ کی ادائیگی درست نہ ہوگی -اھ (ملخصاً)

 ترک درود تو سخت تر ہے۔درود خطبہ میں اگر نامِ اقدس نہ لیا، ضمیر پر اکتفا کی، مثلاً صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تو امام مذکور نے بطلان خطبہ ونماز ثابت کیا۔ اسی طرح ان کے شیخ الاسلام زکریا انصاری قدس سرہ نے شرح بہجہ وشرح روض وشرح منہج میں فرمایا:کما ہو مذکور کلہ فی فتاواہ الکبری (جیسا کہ یہ تمام ان کے”فتاوٰی الکبریٰ“میں مذکور ہے۔ت)

 آدمی کہ تنہا نماز پڑھے،اسے بالاجماع مستحب ہے کہ جملہ ائمہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مذاہب کی حتی الامکان رعایت رکھے،اور حتی الامکان کے یہ معنی کہ جہاں تک اس کی رعایت میں اپنے مذہب کا مکروہ لازم نہ آئے:کما نص علیہ فی غیر ماموضع فی ردالمحتار وفی المسلک المتقسط للملا علی القاری وغیرھما (جیسے کہ اس پر ردالمحتار اور المسلک المتقسط للملاعلی قاری وغیرہ میں متعدد مقامات پرتصریح ہے۔ت)

 نہ کہ وہ امور جو اپنے مذہب میں مسنون اور دوسرے مذہب ائمہ حق میں فرض ہوں کہ ا ب تواس کی ترک سخت جہالت، نہ کہ امام کہ دوسرے مذہب کے اہل سنت بھی اس کے مقتدی ہوں،اسے تو حتی الوسع اس مذہب کی رعایت کمال مہم ومؤکدہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد ہشتم:ص396-394-جامعہ نظامیہ لاہور)

آدمی تنہا نماز پڑھے تو جملہ مجتہدین کے مذاہب کی رعایت کرے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک فقہی مذہب کا مقلد دیگر فقہی مذاہب کے مسائل کا بھی علم حاصل کرے۔

منقولہ بالا فتاویٰ میں تفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیا کہ ایک فقہی مذہب کے مقلد کو دیگر فقہی مذاہب کے احکام کی رعایت مستحب ہے۔ تمام فقہی مذاہب کے علمائے کرام اختلافی مسائل میں دیگر فقہی مذاہب کی رعایت کو مستحب بتاتے ہیں۔

برصغیر کے برادران اہل سنت وجماعت اس بات کا خاص خیال رکھیں،تاکہ اتحاد واتفاق کا ماحول بن سکے۔ جلسوں کے پوسٹروں میں تصویر کی اشاعت سے پرہیز کریں۔ 


تالیف قلوب کے واسطے ترک افضل کا حکم:

غیردینی جائزکاموں کے لیے ٹی وی،ویڈیوکا استعمال افضل نہیں، بلکہ خلاف افضل ہے، جب کہ شرع شریف کی اجازت یہ ہے کہ تالیف قلوب کے واسطے افضل کو ترک کر دیا جائے۔ جب غیردینی کاموں میں ٹی وی،ویڈیوکے استعمال سے مزید اختلاف وانتشار ہوتا ہے تو شرعی مصلحت یہی ہے کہ اپنے ذاتی کاموں یا دنیاوی کاموں میں اس کا استعمال نہ ہو۔
امام اہل سنت مجدددین وملت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:
”امام علامہ جمال الدین زیلعی نصب الرایہ میں نقل فرماتے ہیں:یسوغ للانسان ان یترک الافضل لاجل تالیف القلوب واجتماع الکلمۃخوفامن التنفیرکما ترک النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بناء البیت علی قواعد ابراھیم لکون قریش کانواحدیثی عھد بالجاھلیۃ وخشی تنفیرھم بذلک،ورای تقدیم مصلحۃ الاجتماع علی ذلک،ولما انکر الربیع علٰی ابن مسعود اکمالہ الصلٰوۃ خلف عثمان،قال الخلاف شر-وقد نص احمد وغیرہ علی ذلک فی البسملۃ وفی وصل الوتروغیر ذلک ممافیہ العدول عن الافضل الی الجائز المفضول مراعاۃ لائتلاف المامومین اولتعریفھم السنۃ وامثال ذلک و ھذا اصل کبیر فی سدالذرائع۔

لوگوں کی تالیف قلبی اور ان کو مجتمع رکھنے کے لیے افضل کوترک کرناانسان کے لیے جائز ہے،تاکہ لوگوں کو نفرت نہ ہوجائے جیسا کہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے بیت اللہ شریف کی عمارت کو اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پرقائم رکھا،تاکہ قریشی نومسلم ہونے کی وجہ سے اس کی نئی بنیادوں پرتعمیر کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھیں تو آپ نے اجتماع کو قائم رکھنے کی مصلحت کومقدم سمجھا،اور جیساکہ حضرت ربیع نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نمازمیں اختلاف کی بناپر روکاتو انہوں نے فرمایا کہ خلاف کرنے میں شرہے، اسی لیے امام احمد وغیرہ نے بسم اللہ اور وتر کے وصل وغیرہ کے بارے میں اس کی تصریح کی ہے۔یہ وہ معاملات ہیں جن میں افضل سے عدول کرکے جائز مفضول کواختیارکیاگیاہے،تاکہ مقتدی حضرات کی تالیف قلبی اور ان کی سنت شناسی وغیرہ کاپاس کیاجاسکے۔یہ بات فتنہ کے سدّباب کے لیے بڑاضابطہ ہے۔(ت)
(فتاویٰ رضویہ:جلد ہفتم:ص680-جامعہ نظامیہ لاہور)

جب تالیف قلوب کے لیے افضل کا ترک جائز ہے تو مفضول کوترک کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا،لہٰذا مفضول صورت ترک کریں اور مستحب صورت کواختیار کریں،یعنی اختلافی مسائل میں دیگر علمائے کرام کے اقوال کی حتی الامکان رعایت کریں،تاکہ برصغیر میں اہل سنت وجماعت میں اتحاد واتفاق کا ماحول بن سکے:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:21:دسمبر2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے