کتاب العمل کا خطرناک اسلوب بیان
”عرفان مذہب ومسلک“کے متعدد حصوں کو پڑھا۔اس میں بوجہ حاجت بدمذہبوں سے میل جول کے جواز پردلائل وشواہد مرقوم ہیں۔اسلوب نگار ش سے بدمذہبوں سے میل جول کی ترغیب بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ طرز تحریر عوام مسلمین اور نوفارغین کو آزاد روش کی طرف لے جاسکتی ہے۔بعض مقامات پر علمائے اہل سنت وجماعت پرسوال بھی اٹھائے گئے ہیں۔
اس کتاب کو مؤلف نے اعتدال پسندکتاب العمل کا درجہ دیا ہے۔بھارت میں اہل سنت وجماعت کا ایک بڑا طبقہ اس کتاب سے اظہار بیزاری کرتا ہے۔ متعدد اصحاب علم نے تحریری جوابات بھی رقم فرمائے۔الحاصل اس کتاب پر اہل سنت وجماعت کا اتفاق نہیں۔
طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ کتاب زیادہ قابل اعتراض معلوم نہیں ہوتی۔غائرانہ نظر ڈالیں تو یہ کتاب آزاد روش کی داعی ومبلغ معلوم ہوتی ہے۔ یہ ایک خطرناک کتاب ہے۔
مذکور ہ کتاب العمل میں اکابر اہل سنت وجماعت پرتنقید آرائی بھی کی گئی ہے۔ مؤلف ایک ماہر ادیب، محرر شہیر اوربزرگ عالم دین ہیں۔ کتاب العمل میں اہل حق پرتنقید آرائی کا کوئی باب نہیں ہوتا۔ بعض عبارتیں انتقامی جذبات کی عکاسی کرتی ہیں۔
مجموعی طورپر یہ کتاب قابل عمل اور لائق تحسین نہیں۔ میں ہرگزاس کی تائید نہیں کرتا۔
برادران اہل سنت وجماعت امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کی کتاب ”فتاوی الحرمین برجف ندوۃ المین“پر عمل کر یں۔اس میں بدمذہبوں سے متعلق آیات مقدسہ،احادیث نبویہ واحکام شرعیہ مرقوم ہیں۔
عام حالات کے احکام جداگانہ ہیں اور وقت حاجت کے احکام جدا گانہ۔حاجت کے تحقق وثبوت کے وقت حاجت کے احکام نافذہوتے ہیں۔عرفان مذہب ومسلک میں ترغیبی اسلوب ہے۔اسے پڑھ کرلوگ تاویل فاسدکے ذریعہ غیر حاجت کو حاجت ثابت کر کے میل جول شروع کرسکتے ہیں۔ کتاب مذکوربد مذہبوں کے احکام میں شدت کی بجائے خفت کا عنصر نمایاں کرتی ہے۔کتاب کا ظاہروباطن یکساں نہیں۔عبارات کچھ بتاتی ہیں اور اشارات کچھ اور۔یہ کتاب العمل نہیں،بلکہ نازک قلوب اورغافل ذہنوں کو بے لگام کرنے والی خوشنما دستاویز ہے۔ یہ ایک غیر متوازن اور بصیرت سے دورافتادہ تحریر ہے۔
آج بھی بھارت میں اہل سنت وجماعت کی اکثریت ہے،پس اہل سنت وجماعت کو باہم متحد ومتفق کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں غیروں سے ہاتھ ملانے کی ضرورت نہیں۔
مذکورہ کتاب العمل میں فتاویٰ رضویہ سے اختلاف کے شرعی اسباب مرقوم ہیں، لیکن اس بحث میں انداز تحریر سے ترغیب اختلاف ظاہر ہے۔ شرعی اصولوں کے مطابق فقہی احکام میں حاجت وضرورت کے وقت تبدیلی ہوتی ہے،لیکن کسی امام معتمد کے فتاویٰ پر کلام سے قبل اس سے رونما ہونے والے غلط اثرات پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ بعض فقہی مجالس میں ٹرین پر نماز سے متعلق جو کچھ جدید حکم صادر ہوا، آج تک ہمیں افسوس ہے کہ اے کاش ایسا نہیں ہوتا۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز برصغیر میں اہل سنت وجماعت کے امام معتمد ہیں۔ جب کوئی ان کے فقہی فیصلوں پر تحقیق کے ذریعہ جدید حکم بیان کرے گا تو گمراہ قلوب واذہان ان کے اعتقادی فیصلوں پربھی نظرثانی کی کوشش کریں گے۔
ایسا ہی کچھ یہاں بھی ہوا۔ جامعہ اشرفیہ (مبارک پور)کے مذبذب فارغین نے حسام الحرمین پر نظرثانی کا مطالبہ کر دیا۔
لوگ ایسا سمجھنے لگے کہ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے اعتقادی فیصلوں میں بھی حالات زمانہ کے اعتبارسے تبدیلی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح بعض لوگ یہ بھی سمجھنے لگے کہ جس طرح امام اہل سنت علیہ الرحمۃوالرضوان کی فقہی عبارتوں کے مختلف مطالب ہوسکتے ہیں، اسی طرح اعتقادی عبارتوں کے بھی مختلف مطالب ہوسکتے ہیں۔یہ سوچ کر لوگ اپنے مقصد کے موافق مطالب تلاش کرتے ہیں کہ ایک عالم دین نے یہ مفہوم بتایا تو دوسرے کے پاس چلو کہ وہ کیا مفہوم بتاتے ہیں، پھر جو مفہوم اس کی مرضی کے موافق ہو، اسے اختیار کر لیتے ہیں۔
ان شاء اللہ تعالیٰ باب اعتقادیات کی میں حفاظت کروں گا اور اپنے حبیب و خلیل علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دین ومذہب کے تحفظ کے واسطے ہمیشہ بیدارو مستعد رہوں گا۔
سواد اعظم بفضل الٰہی راہ حق پر قائم ومستحکم رہے گا۔حق وہی راہ ہے جس پر سواد اعظم ہو۔اگر ہمارے کلمات میں بھی لغزش وخطا ہوتو ان شاء اللہ تعالیٰ اہل عالم مجھے بطیب خاطر دربار الٰہی میں سرخمیدہ پائیں گے۔ہماری تحریریں رضائے خداوندی ورضائے مصطفوی کے لیے ہوتی ہیں۔ جس تحریر سے مقصود حاصل نہ ہو، اس میں تبدیلی کرکے نفع بخش بنانا لازم ہے۔
عرفا ن مذہب ومسلک کے بزرگ مؤلف نے یہ بھی دعویٰ فرمایاہے کہ یہ کتاب لاجواب ہے۔یہ دعویٰ ناقابل قبول ہے۔اسلاف کرام نے بدمذہبوں سے میل جول کی ترغیب نہیں دی ہے۔محض مصلحت شرعیہ وحاجت شرعیہ کے سبب چند خاص اور منتخب علمائے کرام کو اسلام وسنیت کے نمائندہ کے طورپر بعض مخلوط مجلسوں میں بھیجا گیا۔عام طورپر جملہ علمائے اہل سنت وجماعت کو بدمذہبوں سے میل جول کی اجازت نہیں دی گئی۔
امام اہل سنت کے خلف اکبرحجۃ الاسلام حضرت علامہ حامد رضا خاں قادری قدس سرہ العزیز نے مذکورہ کتاب العمل کے عالم وجودمیں آنے سے قریباً ایک صدی قبل ہی”عرفانی نظریات“ کاتفصیلی رد فرمادیا تھا، جن کی وکالت مذکورہ کتاب العمل کرتی ہے۔
حضرت علامہ عبد الباری فرنگی محلی قدس سرہ العزیز کی دعوت پرامام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے حضورحجۃ الاسلام اور چند اکابر علمائے کرام کواہل سنت وجماعت کے نمائندہ کے طورپر لکھنو کی مخلوط مجلس میں شرکت کے واسطے بھیجا تھا، جس کا تذکرہ مذکورہ کتاب میں بھی ہے۔یہ شرکت بوجہ حاجت وقتی طورپر تھی۔حضور حجۃ الاسلام قدس سرہ العزیز علمائے اہل سنت وجماعت کی ایک متحرک وفعال تنظیم بنانے کے متمنی تھے،لیکن یہ کام نہ ہوسکا۔
صدرالافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ العزیز نے ”آل انڈیا سنی کانفرنس“قائم فرمائی اور اس کے پرچم تلے شاندار سیاسی خدمات انجام دیں۔
انہوں نے اپنے ساتھ بدمذہبوں کوشامل نہ فرمایا۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان کی قائم کردہ عظیم تحریک ”جماعت رضائے مصطفٰے“اور انصار الاسلام نے بھی عظیم خدمات انجام دیں۔ ان تحریکوں نے اپنے ساتھ غیروں کوشامل نہ کیا۔ آج بھی مسلمانان اہل سنت وجما عت کی تنظیم وتحریک قائم کی جاسکتی ہے۔غیروں سے ہاتھ ملانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
آل انڈیا سنی کانفرنس:مراد آباد1925
آل انڈیا سنی کانفرنس:مرادآباد،منعقدہ:20 تا 23:شعبان المعظم 1334مطابق 16تا19:مارچ1925کے خطبہ صدارت میں حضور حجۃ الاسلام قدس سرہ العزیز نے علمائے اہل سنت وجماعت کی تنظیم کاری اور بدمذہب تحریکوں میں عدم شمولیت سے متعلق مفصل کلام فرمایا۔اس میں ”عرفانی نظریات“ کی بنیادوں نیست ونابود کردیا گیا۔
حضور حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃوالرضوان کے خطبہ صدارت کاخاص حصہ درج ذیل ہے۔
مختلف مذاہب اور مدعی اسلام فرقوں کے ساتھ اتحاد
اب یہ مسئلہ اور غور طلب ہے کہ جو فرقے باطل اور اہل اہوا ہیں، بعض ان میں سے گمراہ ہیں،بعض مرتد جوکفر کی سرحد میں داخل ہوچکے ہیں۔ان فرقوں کے ساتھ اتحاد کیا جائے،یا نہ کیا جائے۔لوگ کہتے ہیں کہ ضرورت کا وقت ہے۔کفار کا مقابلہ ہے۔ آپس کی مخالفتوں پر نظر نہ کرنا چاہئے۔دراصل یہ بہت بڑی غلطی ہے،اور حامیان اتفاق ہمیشہ اس کے مرتکب رہے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں کبھی اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوسکی۔
شیعہ باہم متفق ہوجاتے ہیں اوران کی آل انڈیا کانفرنسیں کام کرتی ہیں اور وہ اپنا شیرازہ درست کرلیتے ہیں اور اس وقت سنی یا کسی اورفرقہ کی طرف نظر بھی نہیں کرتے۔
غیر مقلد متحد ہوتے ہیں۔ان کی آل انڈیا اہل حدیث کانفرنسیں قائم ہوتی ہیں۔وہ آپس میں نظم وارتباط کے رشتے مضبوط کرتے ہیں اور دوسرے کسی گروہ کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔
دیوبندی،وہابی اپنی جماعتیں بنا کر اپنا کام کرتے ہیں۔ قادیانی باہم متحد ہوکر ایک مرکز پر مجتمع رہتے ہیں۔یہ سب اپنے کام میں چست اور اپنے نظام کو استوار کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ کسی کا سہارا نہیں تکتے۔
ہمارے سنی جو بفضلہ تعالیٰ تعداد میں تمام فرقوں کے مجموعہ سے قریب قریب آٹھ گنے زیادہ ہیں، نہ ان میں نظم ہے،نہ ارتباط،نہ کبھی ان کی کوئی آل انڈیا کانفرنس قائم ہوئی، نہ اپنی شیرازہ بندی کا خیال آیا۔ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ہمت ہی نہیں۔
اگر کبھی اپنی درستی کا خیال آیا تو اس سے پہلے اغیار پر نظر گئی اور یہ سمجھا کہ وہ شامل نہ ہوئے تو ہم کچھ نہ کرسکیں گے، با وجودے کہ اگر صرف یہی باہم متحد ہوجائیں اور چھ کروڑ کی جماعت میں نظم قائم ہوتو انہیں ان کی کچھ حاجت ہی نہیں،بلکہ اس وقت ان کی شوکت دوسرے فرقوں کو ان کی طرف مائل ہونے پر مجبور کرے گی، اور یہ اختلافات کی مصیبت سے بچ کر اپنے اتحاد وانتظام میں کامیاب ہوسکیں گے، لیکن افسوس تمام چھوٹے چھوٹے قلیل التعداد فرقوں نے اپنے اپنے حدود محفوظ کرلیے اور اپنی شیرازہ بندی واجتماع سے دنیا میں اپنی ہستی اور زندگی کا ثبوت دے دیا۔غیر ممالک میں ان کی آوازیں پہنچنے لگیں۔
مگر ہمارے سنی حضرات کے دل میں جب کبھی اتفاق کی امنگیں پیدا ہوئیں تو انہیں اپنوں سے پہلے مخالف یاد آئے۔ جورات دن اسلام کی بیخ کنی کے لیے بے چین ہیں اور سنیوں کی جماعت پر طرح طرح کے حملے کر کے اپنی تعداد بڑھانے کے لیے مضطر اور مجبور ہیں۔ ہمارے برادران کی اس روش نے اتحاد واتفاق کی تحریک کوبھی کامیاب نہ ہونے دیا، کیوں کہ اگر وہ فرقے اپنے دلوں میں اتنی گنجائش رکھتے کہ سنیوں سے مل سکیں تو علاحدہ ڈیڑھ اینٹ کی تعمیر کرکے نیا فرقہ ہی کیوں بناتے اور مسلمانوں کے خلاف ایک جماعت کیوں بناتے۔وہ تو حقیقتاً مل ہی نہیں سکتے، اور صورۃًمل بھی جائیں توملنا کسی مطلب سے ہوتاہے جس کے حصول کے لیے ہر دم تیش زنی جاری رہتی ہے، اور اس کا انجام جدال وفساد ہی نکلتا ہے۔
یہ تو تازہ تجربہ ہے کہ خلافت کمیٹی کے ساتھ ایک جماعت ”جمعیۃ العلما“کے نام سے شامل ہوئی جس میں تقریباً سب کے سب یا بہت زیادہ وہابی اورغیر مقلد ہیں،نادرہی کوئی دوسرا شخص ہوتو ہو۔ اس جماعت نے خلافت کمیٹی کی تائید کوتوعنوان بنایا۔عوام کے سامنے نمائش کے لیے تو یہ مقصد پیش کیا،مگر کام اہل سنت کے رد اور ان کی بیخ کنی کا انجام دیا۔اپنے مذہب کی تر ویج اس پردہ میں خوب کی۔
میرے پاس جناب مولوی مختار احمد صاحب صدر جمعیۃ العلما صوبہ ممبئ کا ایک خط آیا ہے جوانہوں نے مدارس کا دورہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے۔اس میں لکھتے ہیں کہ وہابی اس صوبہ میں اس قومی روپیہ سے جوترکوں کے دردناک حالات بیان کرکے وصول کیا گیا تھا، اب تک دولاکھ تقویۃ الایمان چھپا کر مفت تقسیم کرچکے ہیں۔اب بتائیے کہ ان جماعتوں کا ملانا زردادن درد سر خریدن ہوا یا نہیں، اپنے ہی روپے سے اپنے ہی مذہب کا نقصان ہوا۔
الغرض دوسرے فرقے ہم سے کسی طرح نہیں مل سکتے۔ملیں تو دھوکا ہے جس سے ہمیں اور ہمارے مذہب کو سخت مضرت ونقصان پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کتنا بڑا نقصان ہے کہ ان کی بدولت کروڑوں سنی چھوٹ جاتے ہیں جوان کے شامل ہونے کی وجہ سے علاحدہ رہتے ہیں، مگر اب تک یہی رہا کہ سنیوں کی کثیرتعداد کوچھوڑ ا گیا اوران مختلف فرقوں کو ملانے کی کوشش کی گئی جس میں مختلف قسم کے درندے ہیں کہ ان کے جمع کرنے سے بجز فتنہ اور فساد کے کچھ حاصل نہیں۔ اتفاق کی کوششوں میں ناکامی کا اصل راز یہی ہے اور اسی وجہ سے حامیان اتحاد سات کروڑ مسلمانوں کے اجتماع سے اب تک محروم رہے۔
شریعت طاہرہ نے ان گمراہ فرقوں کے ساتھ اتحاد کی اجازت نہیں دی،بلکہ ان سے جدا رہنے اور اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:(قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم:من وقرصاحب بدعۃ فقد اعان علٰی ہدم الاسلام)
جو مبتدع کی توقیر کرے، وہ اسلام کے ڈھانے پر مدد کرتا ہے۔
دوسری حدیث شریف میں ہے:
(لا تجالسوہم ولا تشاربوہم ولا تواکلوہم)
ان کے ساتھ مجالست وہم نشینی نہ کرو، نہ ان کے ساتھ مواکلت ومشاربت (کھانا پینا)کرو۔
اور ایک حدیث پاک میں ہے:
(من جاہدہم بیدہ فہو مومن ومن جاہد بلسانہ فہو مومن ومن جاہد بقلبہ فہو مومن ولیس وراء ذلک من الایمان حبۃ خردل)
جس نے ان سے اپنے ہاتھ سے جہاد کیا،وہ مومن ہے اور جس نے ان سے اپنی زبان سے جہاد کیا،وہ مومن ہے اور جس نے ان پر اپنے دل سے جہاد کیا،وہ مومن ہے اور اس کے ما سوا رائی کے دانہ برابرایمان نہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: (فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین)
یاد آنے پر ظالم قوم کے ساتھ مت بیٹھو۔
تفسیر احمد ی میں ہے:(ان القوم الظلمین یعم المبتدع والفاسق والفاجر والقعود مع کلہم ممتنع)
کہ قوم ظالم بدعتی، فاسق،فاجر سب کو عام ہے او ر سب کے ساتھ ہم نشینی ممنوع۔
علاوہ بریں صدہا نصوص سے بصراحت ثابت ہے کہ فرق ضالہ اور مبتدعہ کے ساتھ اتفاق وارتباط ممنوع اور ناجائز ہے۔
حضورانور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پردہ فرمانے کا وقت ایسا نازک وقت تھا کہ پھر ایسا نازک وقت قیامت تک کبھی نہ آئے گا۔خود حضورا قدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مفارقت اتنا بڑا صدمہ تھا جس نے صحابہ میں تاب وتواں باقی نہ چھوڑی تھی۔شب وروز رونا اوربے قرار رہنا ان کا معمول تھا۔ابتلائے غم کی یہ کیفیت کہ رفقا سامنے آئیں،سلام کریں اور انہیں مطلق خبر نہ ہو۔ادھر دشمنان اسلام نے سمجھ لیا کہ اب وقت ہے،اوروہ تیغ وسنان سنبھال کر تیار ہوگئے۔ دنیا کے تمام کفار اسلام کے ساتھ عداوت کی موجیں مارنے والا دل سینوں میں رکھتے تھے۔ غیظ وغضب میں آپے سے باہر ہوگئے۔اس وقت ایک جماعت نے زکات دینے سے انکار کردیا۔ اسلام نوعمر ہے۔ اس کے مربی پیشوا نے ابھی پردہ فرمایا ہے۔ رفقا غم سے بے تاب ہیں۔دشمن شمشیر بکف ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا نازک وقت ہوگا۔
اس وقت صدیق اکبر اس پالیسی پرعمل نہیں کرتے کہ سب کوملا لیں، یا غلط کاریوں پر صبر کرکے خاموش ہو جائیں اور دشمنوں کی قوت کے اندیشہ سے کسی سے کوئی باز پرس اور داروگیر نہ کریں،بلکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پہلا جانشیں اس حالت سے ذرا مرعوب نہیں ہوتا اور نہایت ہمت واستقلال اور جرات وشجاعت کے ساتھ اس قوم کے خلاف جہاد وقتال کا اعلان فرمادیتا ہے جس نے زکات دینے سے انکار کیا تھا۔ اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس قوم پر غلبہ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ کفار پر بھی اقتدار حاصل ہوتا ہے،اور خلیفہ رسول کا یہ استقلال کفار کی ہمتیں توڑ دیتا ہے۔
آخر کار صحابہ کرام کو تسلیم کرنا پڑتا ہے، اورواقعات ثابت کرتے ہیں کہ خلیفہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حق پر ہیں تو آج مسلمان شریعت طاہرہ اور پیشوایان دین کا اتباع چھوڑ کر ان کے خلاف راہ چل کر کس طرح منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔
جس چیز کو شریعت نے ناجائز کر دیا،اس سے کوئی فائدہ کیوں کر مقصود ہوسکتا ہے، اور کوئی موافق مدعا نتیجہ کیسے حاصل ہوسکتا ہے، لہٰذا اتفاق کی کوشش کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس اصل اعظم کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ہمیں اہل سنت کے ساتھ اتفاق کرنا اورانہیں ایک رشتہ میں مربوط کرکے ان کی منتشر قو ت کو یکجا کرلینا ہے۔ یہی ہمیں مفید ہے اور خدا میسر کرے، اورہم اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں تو آج سات کروڑ مسلمانوں کی کثیر تعداد ایک متحد قوت نظر آئے اور دوسرے چھوٹے چھوٹے فرقے اس کی شوکت وقوت دیکھ کر خود اس میں ملنے کی کوشش کریں اور ہماری اکثریت انہیں مفسدانہ خیالات سے باز آنے پر مجبور کر دے،اور حقیقی اتحاداور اس کے نفیس برکات دنیا کی قوموں کونظر آجائیں، اس لیے سب سے پہلے یہ اصل اعظم مدنظر ہونا چاہئے“۔(خطبہ صدارت:ص51-47-مکتبہ واجدیہ دہلی)
منقولہ بالا اقتباس میں حضور حجۃ الاسلام قدس سرہ العزیز نے اہل سنت وجماعت کے اتحاد واتفاق کا منصوبہ پیش فرمایا اور بدمذہبوں سے اتحاد واتفاق کونقصان دہ بتایا ہے۔
بعض مواقع پر اہل سنت وجماعت کی نمائندگی کی ضرورت درپیش ہوئی تو بوجہ حاجت علمائے اہل سنت مخلوط جماعتوں میں بھی شریک ہوئے،لیکن بدمذہبوں سے سلام ومصافحہ نہ کیے ۔امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے عہد میں لکھنوکی مخلوط مجلس ہو،یاممبئ میں مسلم پرسنل لا بورڈکی مجلس ہو۔ کہیں بدمذہبوں سے میل جول اورسلام ومصافحہ نہ کیا گیا۔عہد حاضرمیں بہت کم ایسے علما ہوں گے جوبدمذہبوں کی مخلوط مجلس میں جائیں اور بدمذہبوں سے سلام ومصافحہ سے گریز کریں۔حضرت علامہ عبد الباری فرنگی محلی قدس سرہ العزیز پر بعض شرعی اعتراضات تھے،لہٰذا حجۃ الاسلام قدس سرہ العزیز نے علامہ عبد الباری فرنگی محلی سے ابتدائی مرحلہ میں سلام ومصافحہ نہ فرمایا۔لکھنوکی مجلس کے حالات اوردیگر احکام مندرجہ ذیل ہیں۔
لکھنو کی مخلوط مجلس میں شرکت:
حضور حجۃ الاسلام قدس سرہ العزیز کے مرید جنا ب عثمان رضوی حامدی (جودھپور) نے 25:رمضان المبارک 1358مطابق 08:نومبر1939کو ایک سوال بھیجاتھا۔
حضورحجۃ الاسلام قدس سرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں رقم فرمایا:
”میں نے مولانا عبد الباری لکھنوی کے ساتھ انہیں (اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوا ن) کی روش برتی،جب کہ وہ لکھنو کے ریلوے اسٹیشن پر میرے استقبال کے لیے آئے تھے، اور ان کے ہمراہ لکھنو کے بڑے بڑے جاگیر دار اور رؤسا وامراسینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ میری گاڑی کے آنے پر میرے سیکنڈ کلاس کے ڈبے کے پاس بسرعت آئے، اور جب میں اترا،انہوں نے سلام کیا۔میں نے جواب نہ دیا۔ انہوں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، میں نے ہاتھ مصافحہ کونہ دیا-
میں ویٹنگ روم کی طرف بڑھا،وہ میرے پیچھے پیچھے آئے، اور دیر تک میری شرکت کے لیے اصرار کرتے رہے۔میں نے صاف کہہ دیا کہ جب تک میرے اورآپ کے درمیان مذہبی صفائی نہ ہوجائے، میں آپ سے نہیں مل سکتا، نہ آپ کے جلسے میں شرکت کروں،نہ آپ سے میل جول رکھوں، اوربحمدہ تعالیٰ میری اس روش سے انہیں متأثر ہونا پڑا، اور انہوں نے صدر الافاضل مولانا مولوی نعیم الدین صاحب کے بالمشافہہ توبہ نامہ تحریر فرمایا۔اس کے بعد میں ان سے ملا۔عزیزی مولوی حشمت علی صاحب اس کے شاہد ہیں۔
عزیزم! پھر مجھ پر یہ افترا کہ میں بدمذہبوں کے ساتھ میل جول،اتحاد وارتباط روا رکھتا ہوں،کہاں تک قابل یقین ہوسکتا ہے۔ میں ہرگز ہرگز مسلم لیگ میں شریک نہیں ہواتھا:واللہ علی مااقول وکیل۔
بلاشبہہ بحالت موجودہ لیگ قابل اصلاح ہے۔ اس میں بہت سی شرعی خامیاں ہیں۔ میں ہرگز آج تک کسی سے اس کی شرکت کونہ کہا:وکفی باللہ شہیدا۔
ہاں،بعض اوقات جب مجھ سے اس کے متعلق سوال ہوا تومیں نے اس کے شرعی نقائص پرروشنی ڈالی۔ہاں،اتنا ضرور کہ جوسنی رضوی اس میں کسی غرض شرعی یامحض ناواقفی سے اس میں شریک ہوگئے ہیں، ان کی نسبت میں کوئی سخت حکم نہیں لگاتا، اوریہ شرعی نقطہ نظر سے کہتا ہوں۔اس کے لیے میرے ذہن میں دلائل ہیں۔ اس سے مجھے لیگ کی حمایت مقصود نہیں،بلکہ اپنے سنی رضوی بھائیوں کوتکفیروتضلیل وتفسیق سے بچانا مقصود ہے۔
میرے سامنے حضور پرنور اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روش ہے۔ مدرسہ (منظر اسلام)بحیثیت تبلیغ دین اور جماعت(رضائے مصطفٰے)بحیثیت تبلیغ عقائد اہل سنت بفضلہ تعالیٰ اسی روش پر اور اسوہ حسنہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہیں۔
حضورپرنور اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے مولوی عبدالباری صاحب کی دعوت پر اس جلسے میں بھیجاتھاجس کے دعوت نامے میں مولانا عبدالباری صاحب وغیرہ علمائے فرنگی محل کے ساتھ مجتہدین روافض کے بھی نام تھے،اوریہ وہ وقت ہے جب ”مانٹی گو“ وزیرہند، ہندوستان آیا تھا اورسیلف گورنمنٹ کا ہندوستان میں ایک غوغا مچاہواتھا۔
مولانا عبدالباری صاحب نے تحریرفرمایاتھاکہ اس وقت اگرہماری آواز کوئی وزن نہ رکھے گی تو دیوبندی تمام مسلمانوں کے نمائندے بن کراہل سنت کومضرت پہنچانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔میرے ہمراہ حضرت مولانا ظہور حسین صاحب رامپوری صدر: دار العلو م اور جناب مولانا رحم الٰہی صاحب اور صدر الشریعہ مولانا امجدعلی صاحب خلفائے اعلیٰ حضرت بھی تھے،اورہمیں اس جلسے میں جانا پڑا،جس میں روافض،وہابیہ وغیرہ بھی شریک تھے توکیا تحفظ حقوق کے لیے اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہمیں اجازت شرکت دینا عیاذًابالمولیٰ تعالیٰ گمراہی وفسق کہا جاسکتا ہے،اورکیا ہم سب شریک ہونے والے کسی گمراہی وفسق کے مرتکب ہو ئے: حاشا”الامور بمقاصد ہا وانما الاعمال بالنیات ولکل امرء ما نوٰی۔(یعنی امور اپنے مقاصد کے ساتھ معتبر ہوتے ہیں اوراعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،اورہرشخص کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔فاروقی)
عزیزم:ان افترائات کا سبب صرف اورصرف یہی ہے کہ میں نے اس مسئلہ کے متعلق محض بطورافہام وتفہیم تبادلہ خیالات کرناچاہاتھا۔ میں اہل سنت میں تفریق اوررضویوں پرفتویٰ تضلیل وتفسیق ہرگز پسند نہیں کروں گا۔میرے نزدیک جواعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سچے حلقہ بگوش ہیں، وہ اگر کسی غرض شرعی سے شریک ہوگئے ہیں تو ان پر میری فقہی نظر میں کوئی شرعی الزام نہیں۔ہاں، جن کے عقائد فاسد ہوں، جیسے عقائد رکھتے ہوں، ویسے ہی حکم تکفیر یاتضلیل یا تفسیق کے مستحق ہوں گے۔
میں نے تو اس بلائے عظیم کو دیکھتے ہوئے چاہا تھا کہ اہل سنت کی تشکیل ہوجائے، اور علمائے کرام ایک تنظیم کے تحت اپنی وہ آواز حق بلند کریں جو حضور پرنور اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز تھی، یعنی کفارومشرکین سے موالات حرام ہونا اوریہ آواز حضور پرنور ہی کی آواز نہیں، اللہ ورسول جل جلالہ وصلی المولیٰ علیہ وسلم کی صدائے برحق ہے۔
ہماری آواز پراہل سنت لبیک کہیں گے،اورہماری منظم جماعت کی آواز ملک وقوم میں اپنے سر کے کانوں ہی تک نہیں، دلوں کی گہرائیوں میں اثر کرے گی۔مسلمان لیگ وغیرہ کی رو میں نہ بہیں گے، بلکہ ہمارے ساتھ ہم آواز ہوں گے۔ اس طرح ہم لیگ کے شریک نہ سمجھے جائیں گے،بلکہ لیگ ہماری آواز اٹھانے والی ہوگی۔اس ”منظم جماعت علما“ کی ہدایات لیگ اورتمام ادارات اسلامیہ کومذہباً ماننا پڑیں گی۔مسلمان ان مفاسد شرعیہ سے محفوظ ہوجائیں گے جن کا خطرہ اب محسوس کیا جاتا ہے۔
عرس سراپاقدس امام اہل سنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں جواکابر علمائے اہل سنت تشریف لائے تھے،میں نے ان سب کوجمع کرکے اس تنظیم کی تحریک کی تھی، مگر شومئ قسمت سے بعض حضرات کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ مجلس مشاورت سے انہوں نے اس تفریق کو نظر استحسان سے دیکھا۔پیارے عثمان!کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں نے جویہ راہ عمل نکالی تھی، اس میں کوئی شرعی نقص تھا،یا کوئی کفر وگمراہی کا راستہ تھا، جس کی یوں تخریب روا رکھی گئی؟ مجھے اس کی ان صاحبوں سے ضرور شکایت ہوئی، اور ہے۔
جب یہ سب بنابنایا کھیل بگاڑ دیا تو مجبوراً میں اور دوسرے صاحبان بھی اٹھ کر چلے آئے۔زمانہ شناسی اگر ہوتی تو اس وقت دیوبندیوں پر بری بنی تھی۔جگہ جگہ انہیں ذلت ورسوائی کا سامناتھا۔ مسلمان ان سے متنفر ہو رہے تھے۔اگر یہ ”تنظیم علمائے اہل سنت“ ہو جاتی تو ہماری آواز نہ صرف کانگریس کے لیے زلزلہ افگن ہوتی، بلکہ احرار، جمعیۃ العلما دہلی، اور تمام کانگریسی دیوبندی مولوی سب سے مسلمان جدا ہوکر اہل سنت کے ساتھ ہوتے، اور اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز حق بلند کرتے۔ان کی سچی غلامی کا دم بھرتے۔
میں ضرور اس کی ضرورت محسوس کرتا تھا، اور اس وقت جو مہلکے کی حالت مسلمانوں کے لیے ہے، وہ کھلی آنکھوں کے سامنے ہے۔مشرکین ہمارے دین اور مساجد کی توہین کر رہے ہیں،قربانی گاؤ اوراذا ن جیسے شعار دین بند کیے جارہے ہیں۔مسلما نوں کی جان ومال وعزت وآبرو سخت خطرے میں ہے۔اسلام کے نام لیوا محض اس جرم پرکہ مسلمان ہیں، ذبح کیے جارہے ہیں۔کیا اب بھی ضرورت شرعی کا تحقق نہیں ہوتا“۔
فتاویٰ حامدیہ:ص 434-429)
منقولہ بالا عبارت میں بھی علمائے اہل سنت وجماعت کی تنظیم کاری کی پرزور ترغیب موجود ہے اور حضور حجۃ الاسلام قدس سرہ العزیز نے علمائے اہل سنت کی تنظیم سازی کی کوشش فرمائی تھی،اس کا بھی ذکر ہے، بلکہ آپ نے تحریر فرمایا کہ مسلمانوں پر مظالم ہورہے ہیں،لہٰذا علمائے اہل سنت وجماعت کی تنظیم کی شرعی ضرورت متحقق ہے۔
مسلم لیگ ایک مخلوط جماعت تھی۔ آپ نے فرمایا کہ سنی علما کی تنظیم ہو،اور مسلم لیگ اس کی ہدایات کے مطابق کام کرے۔ اس عہدمیں حضرت صد رالافاضل قدس سرہ العزیز کی آل انڈیا سنی کانفرنس سنی مسلمانوں کی ایک عظیم تحریک تھی، جس کے ذریعہ مسلمانوں کی صالح قیادت انجام دی گئی۔ مسلم لیگ اس کے فیصلوں کوتسلیم کرتی، اور اس کے مطابق عمل کرتی تھی۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:27: دسمبر 2021
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں