کتاب العمل کے ترغیبی عناصر

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما

کتاب العمل کے ترغیبی عناصر

”عرفان مذہب ومسلک“ کے مشمولات بدمذہبوں سے میل جول کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس میں محض بوجہ حاجت وضرورت بدمذہبوں سے اشتراک عمل کی بات نہیں۔گرچہ ہم نے کتاب کے محض بعض نقصان وضررکی طرف اشارہ کیا ہے،لیکن مزید باتیں قابل اعتراض ہیں۔ میں اس کا مدعی نہیں کہ کتاب العمل کے بزرگ مؤلف نے بالقصدایسا کیا ہے،بلکہ بے التفاتی کے سبب ایسا ہوگیا ہے۔ کتاب میں متعدد مسائل کی ایک جہت مرقوم ہے او ر دوسری جہت سے کتاب آنکھ بند کیے نظر آتی ہے، حالاں کہ کسی امر کے فوائدونقصان دونوں کا ذکر ہونا چاہئے۔اگر کسی امر کے محض فوائد بیان کیے جائیں تو اس سے اس امر کی ترغیب ہو گی۔لو گ اس کی جانب مائل ہوں گے۔اگر اس کے نقصان وضرر کا بھی بیان ہوتولوگ سوچ سمجھ کر اس جانب قدم بڑھائیں گے۔مضمون حاضر میں کتاب العمل کے بعض ترغیبی عناصر کی نشان دہی کی گئی ہے۔یہ محض تبصرہ ہے۔اس کواختلاف پر محمول کرنا مناسب نہیں۔

لامحالہ مؤلفین کی نظر اپنی تالیفات کے محاسن وجمالیات کی طرف جاتی ہے، اور طبعی طورپر لوگ تبصرہ نگاروں کو اپنا مخالف سمجھنے لگتے ہیں، یہاں بھی ایسا ممکن ہے۔ جب ہم کسی کو اپنا مخالف سمجھ لیں گے تو پھر ہم طبعی طورپراس کی کسی عرض وگزارش پر توجہ نہیں دے سکتے۔ 

یہ سب سوچ کر ہم نے 27:دسمبر2021کوکتاب العمل پر محض اجمالی تبصرہ کیا۔ اس سے رونما ہونے والے بعض مفاسد کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا، اورشرعی احکام کامجموعہ بنام ”عرفانی نظریات کے حساس مقامات“سپرد قوم کردیا۔ اس کے بعد بعض سائلین کے سوال کے سبب یہ وضاحتی مضمون رقم کرنا پڑا۔ممکن ہے کہ آئندہ بھی کوئی وضاحتی تحریرآئے۔

(1)کتاب العمل کا ایک ذیلی عنوان ہے:”اتحاد امت اور مخلوط نشست واشتراک عمل شریعت مطہرہ کی روشنی میں“۔شرعی حاجت ومصلحت کے سبب بدمذہبوں سے اشتراک عمل کی شرعی اجازت ہے۔ایسے موقع پر بھی محض عملی اشتراک جائز ہوگا،دیگر ممنوعات حسب سابق ناجائز ہی رہیں گے۔جس ممنوع عمل پر”الضرورات تبیح المحظورات“کا اصول منطبق ہوگا، صرف اسی کا جواز ثابت ہوگا، اور جواز بھی بقد رضرورت ہی ثابت ہوگا۔

امام ابن نجیم مصری حنفی نے رقم فرمایا:(الضرورات تبیح المحظورات) 
(الاشباہ والنظائر:جلد اول:ص85) 

(ما ابیح للضرورۃ یقدربقدرہا) (الاشباہ والنظائر:جلد اول: ص86)

علمائے اہل سنت وجماعت نے لکھنو اور ممبئ کی مخلوط مجلس میں شرکت فرماکر اس کا عملی نمونہ بھی پیش فرمادیا کہ بدمذہبوں سے سلام ومصافحہ بھی نہ فرمایا اور بد مذہبوں سے اپنے شرعی اختلاف کا بھی برملا اعلان فرمایا،اور شرکت کی حاجت ومصلحت کا بھی ذکر فرمایا۔

پڑوسی ملک میں قادیانیوں کے خلاف متحدہ مجلس عمل کی تشکیل ہوئی۔ پاکستان میں صلح کلیت اور منہاجیت کے بدنما پھل اسی درخت نامراد کی پیداوار ہیں۔بدمذہبوں سے اختلاط کے سبب کچھ ایسی فضا قائم ہوئی کہ پاکستان میں اہل سنت وجماعت کا مفتی اعظم بھی دیوبندیوں کے پیچھے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ مفتی اعظم کو تو اعلانیہ کہنا چاہئے تھا کہ ہمارا مذہب الگ ہے، تمہارا مذہب الگ،اور اشتر اک عمل کا دائرہ محدود ہے۔

مذکورہ ذیلی عنوان میں ”اتحاد امت“کے لفظ سے اگر اہل حق کا اتحاد مراد ہے تو کتاب العمل اہل حق پر منہ بھر کر تنقید کرتی نظر آتی ہے،لہٰذاقرائن حالیہ ومقالیہ کے سبب اہل حق کا اتحاد مراد ہونابعید ہے۔اگر اصحاب بدعت واہل ارتداد سے اتحاد مراد ہے تو یہ خلاف شرع ہے۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(ایاکم وایاہم لا یضلونکم ولا یفتنونکم)(بدمذہبوں سے بچو،کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں اور تمہیں فتنے میں مبتلا نہ کردیں)اشتراک عمل الگ ہے اور اتحاد الگ۔دونوں کے احکام جداگانہ ہیں۔صحبت بد کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ بروں کی صحبت دیر یا سویر اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہے۔

تا توانی بگریز ازیار بد   
  یار بد بدتر بود ازماربد
مار بد تنہا تورا برجاں زند  
 یار بد برجان وبر ایمان زند 

کتاب العمل کے مذکورہ باب میں بدمذہبوں سے اشتراک عمل کی بحث ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتحاد امت سے تمام کلمہ گو فرقوں کا اتحاد مراد ہے۔کتاب العمل نے بھی اپنے الفاظ وعبارات میں اتحاد اہل سنت کالفظ استعمال نہ کیا،بلکہ جا بجا مسلمانوں کے اتحاد کی بات کرتی ہے۔ عرف عوام میں لفظ مسلمان کا اطلاق ہرکلمہ گو پر ہوتا ہے،گرچہ وہ مرتدہی کیوں نہ ہو۔ ایسے نازک مراحل میں منتخب الفاظ کا استعمال ہونا چاہئے،تاکہ عوام مسلمین کو غلط فہمی نہ ہو۔جابجا ”اتحاد امت اسلامی“ کا لفظ واردہوا ہے۔اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام کلمہ گوجماعتوں کااتحاد مراد ہے۔محض عملی اشتراک مراد نہیں۔ ایسے الفاظ قارئین کوغلط فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ایک ماہر ادیب اور بزرگ عالم دین سے ہمارا یہ مطالبہ غلط نہیں۔   

(2)کتاب العمل میں بدمذہبوں سے اشتراک عمل کی بحث میں امام اہل سنت قدس سرہ العزیز واکابر اہل سنت علیہم الرحمۃوالرضوان کے متعددفتاویٰ منقول ہیں،جن میں اس بات کا بیان ہے کہ اگر کسی کا عقیدہ صحیح ہو،لیکن وہ بدمذہبوں سے میل جول رکھتا ہوتو اس سبب سے وہ بد مذہب نہیں ہو جاتا۔یہ مسئلہ بالکل صحیح ہے کہ کسی کا عقیدہ صحیح ہوتو بدمذہبوں سے میل جو ل کے سبب وہ بدمذہب نہیں ہوجاتا،لیکن محض اس موضوع کے فتاویٰ کو جمع کردینے سے غیر محتاط اور حیلہ باز قلوب واذہان بد مذہبوں سے میل جول کی طرف راغب ہوں گے۔

(3)حضرت علامہ عبد الباری فرنگی محلی قدس سرہ العزیز کی دعوت پر امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے حضور حجۃ الاسلام ودیگر علمائے اہل سنت وجماعت کوبوجہ حاجت ومصلحت 1917 میں لکھنو کی مخلوط مجلس میں شرکت کے واسطے بھیجا تھا۔ کتاب العمل میں ا س کا ذکر ہے، لیکن حضور حجۃ الاسلام قدس سرہ العزیز نے بعض شرعی اعتراضات کے سبب ابتدائی مرحلہ میں حضرت علامہ عبد الباری علیہ الرحمۃوالرضوان سے سلام ومصافحہ نہ فرمایاتھا، اس کا ذکر کتاب العمل میں نہیں۔جب علامہ عبد الباری قدس سرہ العزیز سے سلام ومصافحہ نہ فرمایا تو بد مذہبوں سے بھی سلام ومصافحہ نہ کرنا بالکل ظاہرہے۔ محض اہل سنت وجماعت کی نمائندگی کے واسطے مخلوط مجلس میں حاضر ہوئے اور مقصود اصلی پراکتفا کیا۔ممنوعات سے احتراز کیا گیا۔کتاب العمل ایک جہت کو بیان کرتی ہے، دوسری جہت کو چھوڑ دیتی ہے۔ 

(4)مسلم پرسنل لا کنونشن،ممبئ:دسمبر1972میں علمائے اہل سنت کی شرکت کا تذکرہ کتاب العمل کرتی ہے، لیکن علمائے اہل سنت کے طرز عمل کو بیان کرنے سے شرماتی ہے۔صرف ایک جہت کو بیان کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ شرعی حاجت بتاکر بدمذہبوں سے بغل گیر ہوں گے اور اشتراک عمل کے ساتھ باہمی دوستی ومحبت میں بھی مبتلا ہوں گے۔

حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃوالرضوان نے مسلم پرسنل لا کے اسی اجلاس میں اپنے خطاب میں اعلانیہ فرمادیا تھا کہ وہابیہ،دیابنہ وغیرہ سے ہمارے مذہبی اختلافات حسب سابق باقی ہیں،اور علمائے اہل سنت نے بدمذہبوں سے سلام ومصافحہ بھی نہ کیاتھا، نیز جب علمائے اہل سنت وجماعت کو معلوم ہوگیا کہ ہمیں صرف استعمال کیاجارہاہے،تب علمائے اہل سنت اس سے جدا ہوگئے۔بعد میں حضرت علامہ ارشد القادری قدس سرہ العزیز مسلم پرسنل لا بورڈ سے الگ ہو کر ”مسلم پرسنل لا کانفرنس“کے نام سے جداگانہ تحریک قائم کی تھی اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے افکار ونظریات کا رد وابطال بھی فرمایا تھا۔مسلم پرسنل لا بورڈ نے صرف اہل ملک کو دکھانے کے واسطے علمائے اہل سنت شریک کیا تھا کہ لوگ سمجھیں کہ مسلم پرسنل لا بورڈ تمام کلمہ گوجماعتوں کی مشترکہ تنظیم ہے،ورنہ بورڈ پردیوبندیوں کا قبضہ تھا، اور فیصلے وہ لوگ اپنی مرضی سے کرتے تھے۔

 کتاب مذکور ان امورکے بیان سے اپنا دامن بچاتی ہے۔ ایسی صورت میں لامحالہ بدمذہبوں سے اختلاط کی ترغیب ہوگی۔لوگوں کو صرف اشتراک عمل کا علم ہوگا۔ اس کے انجام ونتائج سے لوگ غافل اوربے خبر رہیں گے۔ضررونقصان سے چشم پوشی کا سبب کیا ہے؟

(5)کتاب العمل کی اسی بحث میں حضور صدر الافاضل قدس سرہ العزیز کی سیاسی خدمات کا بھی ذکر ہے۔ آپ نے علمائے اہل سنت وجماعت کی تنظیم قائم فرمائی تھی۔ اس کا نام بھی ”آل انڈیا سنی کانفر نس“تھا۔اس میں بدمذہبوں سے اشتراک عمل نہیں تھا۔ کتاب العمل یہ وضاحت کیوں نہیں کرتی کہ یہ خالص سنی مسلمانوں کی تحریک تھی، جس نے بہت سی خدمات انجام دی تھی۔اسی طرز پرعصر حاضر میں مسلمانان اہل سنت تنظیم قائم کریں۔ 

(6)پڑوسی ملک میں قادیانی فرقہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے واسطے 1953 میں علمائے اہل سنت وجماعت اور وہابیہ ودیابنہ کی متحدہ مجلس عمل تشکیل دی گئی تھی اور جب 07:ستمبر1974کوقادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردے دیا گیا تو پچاس ہزار سے زائد قادیانی اپنی ضلالت سے تائب ہوگئے۔

کتاب العمل قادیانیوں کی توبہ کا ذکر کرتی ہے، لیکن یہ وضاحت پیش نہیں کرتی کہ وہ لو گ تائب ہوکر سنی ہوگئے یا دیوبندی،وہابی،شیعہ وغیرہ۔

 اس متحدہ مجلس عمل کے سبب پڑوسی ملک کے مسلمان یہ سمجھنے لگے کہ صرف قادیانی فرقہ کافر ہے اور دیوبندیوں میں کچھ کمی ضرور ہے، لیکن وہ لوگ قادیانیوں کی طرح نہیں، حالاں کہ دیوبندی مذہب کے بنیادی عقائد میں کفریات کلامیہ ہیں۔ دیوبندیوں کا جماعتی حکم وہی ہوگا،جو مرتدین کا ہے۔ جو خودارتدادی عقیدہ نہ رکھے، اورارتدادی عقیدہ والو ں کے عقائد باطلہ سے واقف ہوکر ان کو کافر سمجھے،صرف ایسے لوگ کافر کلامی نہیں، لیکن ایسے دیوبندی بھی شعاردیوبندیت اختیار کرنے کے سبب گمراہ مانے جائیں گے، اور اس قسم کے اکثر دیوبندیوں پر کفر فقہی کا حکم عائد ہوگا۔ہماری کتاب ”فرقہ وہابیہ:اقسام واحکام“میں تفصیلی احکام مرقوم ہیں۔اس موضوع پر بھی لوگ عجیب وغریب نظریات پیش کرتے ہیں۔

متحدہ مجلس عمل کے قیام کے سبب پڑوسی ملک کے بہت سے سنی مسلمان مذبذ ب ہو گئے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ علمائے اہل سنت وجماعت وہابیوں،دیوبندیوں کے ساتھ مل کر قادیانیوں کے خلاف محاذآرائی کررہے ہیں تو لامحالہ دیا بنہ کا حکم قادیانیوں کی طرح سخت نہیں، حالاں کہ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے کفر کی سب سے بدتر قسم دیوبندیت کو قرار دیا ہے۔یہ لوگ حنفی اور چشتی وقادری ونقشبندی وسہروردی بھی بنے پھرتے ہیں، جس کے سبب عوام مسلمین بہت آسانی کے ساتھ ان کے فریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
مسلمانان اہل سنت کو دیوبندیوں سے دور رکھنے کی سخت ضرورت ہے، جب کہ کتاب العمل بلاتفریق تمام بد مذہبوں سے میل جول کے شرعی حیلے بیان کرتی ہے۔ لوگ غیر مقلدین سے دوررہتے ہیں، کیوں کہ وہ حنفی نہیں، ان لوگوں کا طریق عبادت الگ ہے۔

پڑوسی ملک میں متحدہ مجلس عمل کے سبب لوگوں میں آزاد خیالی پیدا ہوئی، اور لو گ دیوبندیوں سے شادی بیاہ کرنے لگے۔اسی شادی بیاہ اور رشتہ داریوں کے سبب وہاں مذبذبین کا ایک طبقہ جنم لے چکا ہے۔ منہاجی افکارونظریات بھی اسی متحدہ مجلس عمل کے بطن سے نمودار ہوئے ہیں۔وہ غلط نظریات بھارت کوبھی اپنی لپیٹ میں لیتے جارہے ہیں۔

کتاب العمل مفاسد کے بیان سے پہلو تہی کرتی ہے اور یک طرفہ میل جول کی وکالت کرتی ہے۔ مجھے دوسروں سے شکایت نہیں، بلکہ اپنے آپ سے شکایت ہے کہ میں نے کتاب العمل کے مضر اثرات پر غور کیوں نہیں کیا۔ان شاء اللہ تعالیٰ ”مالا یدرک کلہ لا یترک کلہ“کے اصول کے مطابق تلافی مافا ت کی کوشش ہوگی۔ مؤلف کتاب سے بھی توجہ کی گزارش ہے۔ 

غور وفکر سے ظاہر ہوتا ہے کہ پڑوسی ملک کی متحدہ مجلس عمل کا قیام دیوبندیوں کی گہری سازش تھی۔ وہاں سنی مسلمانوں کا رعب ودبدبہ تھا،کیوں کہ علمائے اہل سنت وجماعت نے قیام پاکستان کی حمایت کی تھی۔ایسی صورت میں وہاں دیوبندیوں کو ہرمحاذپرسخت ہزیمت اٹھانی پڑتی،اور دیوبندیت کا سخت رد وابطال بھی ہوتا۔قیام پاکستان کے پانچ سال بعد ہی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے متحدہ مجلس عمل کا قیام ہوا، اور ”مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت“کی تشکیل ہوئی،پھر سب کی توجہ قادیانیوں کی طرف چلی گئی۔
دیابنہ کو پڑوسی ملک میں عافیت کے ساتھ جینے اور اپنے مذہب باطل کو پھیلانے کا عمدہ موقع میسر آیا۔ظاہر یہی ہوتا ہے کہ اس مجلس کا قیام دیوبندیوں کی سازش تھی۔

متحدہ مجلس عمل کی تنظیم کاری کے سبب تحفظ ناموس رسالت کا نعرہ ماند پڑ گیا اور تحفظ ختم نبوت کے نعرے گونجنے لگے، حالاں کہ دونوں نعرے مضبوطی کے ساتھ لگنے چاہئے تھے۔ نتیجہ یہ ہواکہ صرف قادیانیت کے رد وابطال پر زوردیا گیا، جب کہ ہر باطل نظریہ کا رد جاری رہنا چاہئے تھا۔ گستاخان دربار اعظم یعنی دیابنہ اوروہابیہ کے ردو ابطال میں کمی واقع ہوئی۔

دیابنہ،ویابیہ کو بڑی کامیابی ہاتھ آئی۔دیوبندیوں نے سنیوں کے بہت سے علاقے ہضم کرلیے۔ اہل سنت وجماعت کی توجہ بروقت اس نقصان کی طرف نہ ہوسکی۔اب توبہت نقصان ہوچکا۔

 اسی عہد میں سنی علما کی بعض تنظیموں نے سیاست میں سرگرم حصہ لیا۔سیاسی پارٹیوں کوہر قسم کے شہریوں کاووٹ درکار ہوتا ہے۔ایسی صورت میں سنی علما کی سیاسی تنظیمیں بھی بدمذہبوں کے حق میں گول مول باتیں کرنے لگیں اور عوامی ماحول حددرجہ متأثرہوا۔ اس تناظر میں یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سنی عوام کی سیاسی تحریکیں ہوں اور علمائے اہل سنت ان کی نگرانی کرتے رہیں۔ بفضل الٰہی بھارت کا ماحول بہت حدتک کنٹرول میں ہے۔

 بعض بھارتی علما ئے اہل سنت سیاست کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں اور عملی حصہ لے رہے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ شرعی حدود وقیود کا خوب لحاظ رکھیں۔

سخت مذہبی احکام کے سبب ہی میں بھارت میں مسلم سیاست کو پسند نہیں کرتا،کیوں کہ مسلمانوں کی قلت تعداد کے سبب سیاسی قوت واستحکام بھی مشکل ہے اوردینی تصلب کی جگہ عملی صلح کلیت،بلکہ اعتقادی صلح کلیت بھی گلے کا پھندا بن سکتی ہے۔میں بھارت میں بہوجن سماجی سیاست کو پسند کرتاہوں۔اس میں دینی تصلب ہاتھ سے جانے کا خطرہ بہت کم ہے،جس کی وضاحت میں اپنے سیاسی مضامین میں کرچکا ہوں۔ ”دیوان لوح وقلم“(اول ودوم) میں مضامین ہیں۔   

 (7)کتاب العمل میں اشتراک عمل کی بحث میں مرقوم ہے کہ مبلغ اسلام حضرت علامہ عبد العلیم صدیقی میر ٹھی علیہ الرحمۃوالرضوان نے 1949میں سنگاپور میں الحاد ودہریت اور کمیونزم کے رد وابطال کے واسطے مسلمان، ہندوسکھ، عیسائی،یہودی رہنماؤں کا ایک متحدہ محاذبنایا تھا، اور اس کا نام ”تنظیم بین المذاہب“رکھا تھا۔ اس واقعہ کا تذکرہ کرکے کتاب العمل مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔اصحاب بد عت واہل ارتداد کے احکام بہت سخت ہیں، اور کفاراصلی کے احکام الگ ہیں۔مرتدین سے ہرقسم کا معاملہ ممنوع ہے،جب کہ کفاراصلی سے معاملات مجردہ کی اجازت ہے۔ ہم نے کفاراصلی کے متعدداحکام کو ”معبودان کفار اورشرعی احکام“کی بحث پنجم میں جمع کردیا ہے۔

اگر مؤلف کوئی عام فرد ہوتے تو اس سوال سے چشم پوشی کی جا سکتی تھی، لیکن کتاب العمل کے مؤلف ایک بزرگ عالم دین ہیں۔ان سے ضرور سوال ہوگا کہ اس طرز عمل کے ذریعہ بدمذہبوں سے اشتراک عمل پرکیسے استدلال کیا جاسکتا ہے۔


(8)کتاب العمل نے حضورمفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز کا ایک واقعہ بیان کیاکہ پیلی بھیت میں ایک رافضی برائے ملازمت آیا،کچھ ماہ بعد ایک غیر مسلم اس کی لڑکی کو لے بھاگا۔رافضی کی گزارش کے باوجودسنی مسلمانوں نے اس کی مدد نہ کی۔حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز پیلی بھیت تشریف لے گئے۔لوگوں کے سوال پر آ پ نے فرمایا:

”بے شک رافضی اپنی کفریات کی بنا پر خارج ازاسلام ہے،لیکن غیر مسلم کی نظر میں تو مسلمان ہے۔ غیر مسلم اس کی لڑکی کولے گیا تو مشرکین کی نظر میں مسلم لڑکی ہے۔ سب مسلمانوں کی اس میں بے حرمتی، بے عزتی ہورہی ہے۔جب تک وہ لڑکی غیر مسلم کے قبضے میں ہے، آپ لوگ اس لڑکی کو غیر مسلم کے قبضے سے نکالنے میں ہر ممکن کوشش کیجئے،مدد کیجئے۔ ہاں، جب وہ لڑکی مشرک کے قبضے سے نکل آئے،آپ علاحدگی اختیار کیجئے کہ رافضی، خارجی سے سلام کلام،میل جول، شادی بیاہ سب حرام ہے“۔   

مذکورہ بالا حادثہ کے سبب مسلمانوں کی بے حرمتی ہورہی تھی،اس لیے حرمت مسلمین کے تحفظ کے واسطے اس معاملہ میں سنی مسلمانوں کو اپنی کوشش صرف کرنے کا حکم دیا گیا۔ خاص طورپرکسی رافضی کی عزت وآبرو کی حرمت کا تحفظ مقصود نہیں۔اہل بدعت واہل ارتداد قابل تعظیم نہیں، قابل توہین ہی ہیں،نیز ہدایت دی گئی کہ کام ہو جانے کے بعد رافضی سے بالکل جدا ہوجائیں۔قانون اسلامی (الضرورۃ تقدر بقدر الضرورۃ)کا مکمل لحاظ کیا گیا، جب کہ کتاب العمل پر سب سے اہم اعتراض یہی ہے کہ یہ حدود وقیود کی وضاحت سے چشم پوشی کرتی ہے اور محض ”اتحاد امت اسلامی“کی دعوت دیتی ہے، نیز اسلوب بیان ایسا خطر ناک ہے کہ عوام یہی سمجھیں گے کہ وقت حاجت اوروقت غیر حاجت،ہر موسم میں تمام کلمہ گو جماعتوں کو شیر وشکر ہوکر رہنا چاہئے۔کتاب العمل کے غلط اثرات بھی ظاہر ہوئے۔مدارس اسلامیہ کے بہت سے نوفارغین متأثر ہوگئے۔ان شاء اللہ تعالیٰ تدارک کی کوشش جاری رہے گی۔ سواد اعظم بفضل الٰہی کبھی بھی غلط نظریات کی طرف نہیں جائے گا۔

(9)کتاب العمل حضور مجاہد ملت قدس سرہ العزیز کی ایک حکمت عملی بیان کرتی ہے کہ جب ایمرجنسی (1977-1975)کے عہدمیں بھارت کی مرکزی حکومت نے جماعت اسلامی پرپابندی لگائی تو حضور مجاہدملت علیہ الرحمۃ والرضوان نے مسز اندرا گاندھی کے نام ایک احتجاجی مکتوب بھیجنے کا ارادہ فرمایا،اوروجہ یہ بیان فرمائی کہ یہ احتجاج جماعت اسلامی کے لیے نہیں، بلکہ اپنی تحریک خاکساران حق اور آل انڈیا تبلیغ سیرت کے تحفظ کے لیے ہے۔ اگر آج حکومت کو نہ روکا گیا تو اس کے بعد ”خاکساران حق“ اور پھر ”آل انڈیاتبلیغ سیرت“کی باری آئے گی، لہٰذا جماعت اسلامی کے لیے احتجاج ضروری ہے،ورنہ حکومت ہند دیگر جماعتوں پر بھی پھندا کستی چلی جائے گی۔

مذکورہ بالا واقعہ میں اشتراک عمل کی کوئی بات نہیں،بلکہ حضورمجاہد ملت علیہ الرحمۃ والرضوان اپنی تحریک کے زیر اہتمام احتجاج کی بات کی تھی،نیز یہ احتجاج خاص کر جماعت اسلامی کے لیے نہیں،بلکہ سنی تحریکوں کے تحفظ کے واسطے ہوتا،گرچہ یہ احتجاج بظاہر جماعت اسلامی پر حکومتی پابندی کے خلاف ہوتا۔مقصود اصلی پر نظر کی جائے گی۔

عہد حاضر میں اعتقادی صلح کلیت اہل سنت وجماعت کے بہت سے افراد کے دلوں پر دستک دے رہی ہے، جس کا عام مشاہدہ ہورہا ہے،لہٰذا موجودہ حالات میں قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔شرعی مصلحت یہی ہے کہ لوگوں کو جملہ بدمذہبوں خاص کر دیوبندیوں سے دور رہنے کی تلقین کی جائے۔ صالح اسلوب میں دیوبندیوں کے کفریہ عقائد اور ان کی ضلالات وکفریات کا بیان ہو۔ محض فضائل اعمال کے بیان پر اکتفا نہ کیا جائے۔کتاب العمل کے بھلے برے اثرات کا جائزہ لیا جائے اور طرز تحریر میں تبدیلی کی جائے۔ 

(10)کتاب العمل یہ بتاتی ہے کہ حکومت ہند اسلامی قوانین پر دست درازی کر رہی تھی۔پولیس اور شرپسند عناصر مسلمانوں کوتنگ کررہے تھے، لہٰذا حضور مجاہد ملت قدس سرہ العزیز نے دیوبندی جمعیۃ علمائے ہندکے سابق ناظم عمومی حفظ الرحمن سیوہاروی کو اشتراک عمل کے واسطے 20:فروری 1961کو ایک مکتوب لکھا تھا۔ دیوبندیوں نے جواب نہ دیا۔
گرچہ دیوبندیوں نے اس وقت خط کاکوئی جواب نہ دیا،لیکن مسلم پرسنل لا کنونشن:1972میں علمائے اہل سنت وجماعت کودعوت دی گئی، اور1973میں جب مسلم پرسنل لا بورڈکا باضابطہ قیام ہوا تو اس میں بھی چندسنی علما کو رکھا گیا، لیکن یہ سب کچھ برائے نام تھا اور محض لوگوں کو یہ بتانے کے واسطے تھا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ بھارت کی تمام کلمہ گو جماعتوں کی مشترکہ تنظیم ہے۔ بورڈ پرآغاز امر سے آج تک دیوبندیوں کا قبضہ ہے اور تمام فیصلے وہ لوگ اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہیں۔جب علمائے اہل سنت وجماعت کو احساس ہوگیا کہ ہمیں صرف استعمال کیا جارہا ہے تو اس سے الگ ہوگئے اور مسلم پرسنل لا کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔

حضور مجاہد ملت قدس سرہ العزیز اسلامی قوانین اور مسلمانان ہندکے تحفظ کے واسطے اشتراک عمل کی حاجت محسوس کرتے تھے۔ وہ اپنے سینے میں اسلام ومسلمین کے تحفظ کے واسطے ایک تڑپتا دل رکھتے تھے،لہٰذا انہوں نے اشتراک عمل کے واسطے مکتوب روانہ فرمایا، لیکن قبل از وقت کسی کو کسی کی فریب کاری کا علم نہیں ہوتا۔جب کسی کے ساتھ ہمارے معاملات شروع ہوں گے، تب اس کا سلوک ہمیں معلوم ہوگا۔اگر حضور مجاہد ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کویہ معلوم ہوتا کہ اشتراک عمل کا مطلب ہے کہ اہل سنت وجماعت اشترا ک عمل کے سبب دیوبندیوں کے تابع ہوجائیں گے، اورہمیں صرف ان کی ہاں میں ہاں ملانی ہوگی تو آپ ہرگز اشترا ک عمل کی تجویز پیش نہیں کرتے۔ہمیں کتاب العمل پر سوال ہے کہ سب کچھ دیکھ سن کر بھی یہ کیوں اندھی بہری بنی بیٹھی ہے اور اشتراک عمل کے گیت گارہی ہے۔  

الحاصل کتاب العمل اشتراک عمل کی خوبیاں بیان کرتی ہے، لیکن مفاسد کوبیان نہیں کرتی، اور اگر بعض امور کو بیان بھی کرتی ہے تو مختلف حصوں میں اسلوب بیان ایسا ہے کہ عوام مسلمین مفاسد کو مرجوح وناقابل اعتنا سمجھ کر اتحاد کی طرف قدم بڑھا لیں گے۔ کتاب العمل کا اسلوب نگارش مجھے بے حد خطر ناک نظر آتا ہے اور یہ عوام مسلمین،نوفارغین اور قلبی مریضوں کے واسطے قدم پھسلنے کا مقام ہے۔فائدہ کم ہے اورنقصان زیادہ:فالحذر کل الحذر

وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوٰۃوالسلام علیٰ حبیبہ الکریم::وآلہ العظیم 

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:30:دسمبر2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے