کتاب العمل کے بلند بانگ دعوے قسط اول

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما 

کتاب العمل کے بلند بانگ دعوے 

قسط اول 

کتاب”عرفان مذہب ومسلک“اپنے غیر محتاط اسلوب نگارش کے سبب متعدد جہات میں آزاد خیالی کوفروغ دیتی ہے،اور اس سے متعدد مفاسد کو قوت فراہم ہوتی ہے۔

کتاب العمل کو دیکھ کر لوگ یہ سمجھنے لگے کہ تمام مصباحی برادران کے افکار ونظر یات ایسے ہی ہیں اور فارغین اشرفیہ سے متعلق عجیب وغریب خیالات منظر عام پرآنے لگے۔

کئی سالوں سے یہ نظریہ بے شمار قلوب واذہان میں گشت لگارہا ہے کہ مصباحی برادرا ن آزاد خیال اور غیرمتصلب ہوتے ہیں،حالاں کہ کتاب العمل کو جملہ فارغین اشرفیہ اپنا مینی فیسٹو (Manifesto)اور دستور العمل نہیں مانتے۔ کتاب العمل کا تعلق اس کے بزرگ مؤلف سے ہے۔جملہ مصباحی برادران اس بزرگ مصباحی کے فالوورس نہیں۔اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ ان کی مرضی۔

 ہم بھی جامعہ اشرفیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ ہم نے اپنا عدم اتفاق ظاہر کردیا، نیز حالیہ مضامین میں کتاب العمل کے باطنی حسن وجمال سے بھی احباب اہل سنت کو مطلع کررہا ہوں، تاکہ دلوں میں جنم والی آزاد خیالی کے تصورات کوکچلا جا سکے۔

برصغیر کے برادران اہل سنت وجماعت یہ بھی یادرکھیں کہ جامعہ اشرفیہ اس تحریک کا نام ہے جسے حضور حافظ ملت قدس سرہ العزیز نے فروغ بخشا۔اس کی متعدد جہات ہیں، تعلیمی، تعمیری اورفکری ودیگر جہات۔فکری طورپر جامعہ اشرفیہ (مبارک پور) امام اہل سنت اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز سے منسلک ہے۔ اگر آج مصباحی برادران یا متعلقین اشرفیہ میں سے کوئی فرد کوئی ایسا نظریہ پیش کرے، جو مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف ہوتووہ اس کا ذاتی نظریہ ہے۔جملہ فارغین اشرفیہ کی طرف اسے منسوب کرنا غلط ہوگا۔ 

جامعہ اشرفیہ کے فارغین میں متعدد نظریات کے حاملین ہیں۔بعض لوگ اعتقادی مفاسد میں بھی مبتلا ہیں۔ اکا دکالوگ اشخاص اربعہ کی تکفیر کے بھی منکر ہیں،اس بداعتقادی کے سبب ان کی سندیں بھی منسوخ قرار پائیں اور اب وہ ”مصباحی“لقب کے مستحق نہیں۔ 

(1)کتاب العمل نے اینے ذیلی عنوان ”عرفان مذہب ومسلک کے بصیرت افروز حقائق“میں یہ دعویٰ کیاہے کہ میں دودھ سے دھلی ہوئی اورلا جواب ہوں، اور اپنی ناز برداری اور خدمت گزاری کرنے والوں سے اظہارناراضگی کرتی ہے،اوران سے اپنے جاری کردہ سرکیولر بعنوان ”توبہ ورجوع ہی واحد شرعی حل“میں توبہ کا مطالبہ بھی کرتی ہے، حالاں کہ اہل فہم سے اس کی چابک دستی پوشیدہ نہیں۔ اسی سبب سے اہل علم کی ناراضگی ہے۔

ہاں، یہ ضرور ہے کہ کتاب العمل ایک ماہر ومسلم الثبوت ادیب شہیرکے زر نگار قلم سے عالم وجود میں آئی ہے تو وہ ادبی لطافتوں سے آراستہ وپیراستہ اور ظاہر ی حسن وجمال سے معمور ومنورہے۔اسی سبب سے اس کے پرستاروں کی بھی ایک تعداد ہے۔بیمار دلوں کا رجحان بھی اس جانب کچھ زیادہ ہی ہے اور فطری طورپرایسا ہی ہوتا ہے۔ اصحاب حسن وجمال اتراتے ضرورہیں،اسی کی جلوہ نمائی یہاں بھی ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے   

دلوں کے درمیاں جھوٹی مروت آہی جاتی ہے   

 بے داغ اور جل پری ہونے کا دعویٰ محض ایک دعویٰ ہے۔ کتاب العمل نے جابجا معاصرعلمائے اہل سنت وجماعت کی شان میں طنزغیرملیح کیا ہے۔ اس سے علمائے حق پر تنقید آرائی کے جذبات کو قوت فراہم ہوتی ہے اور تبرائی کلچر کوفروغ حاصل ہوتاہے۔ 

ایک زمانے میں ماہنامہ”جام نور“(دہلی)نے اسلاف شناسی کے نام پر اسلاف بیزاری کی تحریک شروع کی تھی۔ اس عہد میں قلم کاران اکابر علما ئے اہل سنت وجماعت اور اسلاف کرام پر نقد وجرح کو ایک پسندیدہ فن کا درجہ دیتے تھے، اوراسے اپنا قابل فخر مشغلہ گردانتے تھے۔اس کے بعد ہم نے ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی)کے ذریعہ ایسی ماحول سازی کی کہ محررین وقلم کاران دیگر جہات کی جانب متوجہ ہوگئے، پھر آج تک ا س جانب نہ جا سکے جدھر ”جام نور“لے جانا چاہتا تھا۔

خدانخواستہ کوئی بھٹک کر جام نورکے پلیٹ فارم کی طرف چلابھی جائے تووہ اہل علم کے سماج میں معتوب قرار پاتا ہے، جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔

عام طور پر اسلامی ماہناموں میں مذہبی مضامین شائع ہوتے تھے۔ ہم نے ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی) میں غیر مذہبی موضوعات کو بھی جگہ دی۔ سیاسیات، سماجیات، معاشیات، تواریخ اور دیگرعصری موضوعات پر مضامین شائع ہوئے۔ قلم کاران ومحررین کو ایک روشنی ملی اور وہ متعدد غیر مذہبی اور ضروری موضوعات کی طرف متوجہ ہوئے۔ اسلاف بیزاری اور علمائے حق پر تنقید آرائی کا فیشن نیست ونابود ہوگیا۔ اسلامی ماہناموں کو بھی بصیرت افروز رخاکہ میسر آیا۔ہم نے جو خاکہ گری کی تھی،اس کو قبولیت واستحسان کی نظر سے دیکھا جانے لگا اور مذہبی ماہناموں بھی غیر مذہبی نفع بخش مضامین شائع ہونے کا رواج ہوا۔
 
(2)بد مذہبوں سے اشتراک عمل امر مرغوب نہیں، بلکہ امر ممنوع ہے،جو بوجہ ضرور ت وحاجت جواز کی سند پاتا ہے۔ حاجت وضرورت نہ ہو،اور شرعی مصلحت اشتراک عمل کا متقاضی نہ ہوتو وہ ممنوع ہی رہے گا۔”اذافات الشرط فات المشروط“کا حکم نافذ ہوگا۔ہر امرمشروط کا حکم ایسا ہی ہوتاہے۔ کتاب العمل کے اسلوب تحریر میں ترغیبی کیفیات پائی جاتی ہیں،جس کے سبب لوگوں کی توجہ حدود وقیوداورشرائط کی طرف نہیں جاتی۔

 اسلوب بیان میں (اشداء علی الکفار ورحماء بینہم) کا جلوہ خوب روشن نظر نہیں آتا۔ہمارا سوال اسلوب نگار ش پر ہے۔قارئین میں ہرقسم کے لوگ ہوتے ہیں،لہٰذا حسا س مسائل میں احتیاطی تقاضوں کی خوب رعایت ہونی چاہئے۔یہی وقت کا تقاضا بھی ہے، کیوں کہ منہاجی نظر یات بھی اپنے بال وپر پھیلا رہے ہیں۔ ہماری تحریر وتقریر یا کسی طرز عمل سے غلط افکار وخیالات کی بالواسطہ بھی تائید نہیں ہونی چاہئے۔

(3)کتاب العمل نے اپنے ذیلی عنوان ”فرعی اختلاف کی نوعیت وحیثیت“کے تحت بعض فرعی اختلاف کو بیان کیا ہے، لیکن اختلاف کے حدوووقیود کا ذکر نہیں،نیز اپنے ذیلی مضمون بعنوان ”عرفان مذہب ومسلک کے رشحات وشذرات ولمعات“میں بیان کرتی ہے کہ فرعی اعتقادی اختلاف اورفرعی فقہی اختلاف کے سبب کوئی سواد اعظم اہل سنت وجماعت سے خارج نہیں ہوتا۔متعددشواہدونظائر بھی پیش کرتی ہے۔ یہاں بھی احتیاطی تقاضوں سے آنکھیں موند لیتی ہے۔عہد حاضر میں مفتیان شیر خوار بھی اکابر فقہائے کرام سے فرعی فقہی اختلاف کے لیے پرتولنے لگے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کتاب العمل حدود وقیود کے بیان سے کیوں لجاتی شرماتی ہے۔ایسی صورت میں لوگ بے لگام ہوجائیں گے اور اختلافی کلچر فروغ پائے گا۔قطعی واجماعی مسائل چھوڑ کر ہر کس وناکس ظنی مسائل میں اختلاف کی جانب راغب ہوں گے اور فرعی اختلاف کا فیشن وبائی شکل اختیار کرلے گا۔

ہمیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ کس کوفرعی مسائل میں اختلاف کا حق ہے؟یہ بھی بتانا ہوگا کہ کن فرعی مسائل میں اختلاف کیا جاسکتا ہے؟فرعی واجتہادی وظنی مسائل میں ائمہ مجتہدین کی تقلید ہوتی ہے۔ہم حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد ہیں تو کیا فرعی وظنی مسائل میں ان سے اختلاف کر سکتے ہیں۔اگر ان سے نہیں کر سکتے تو پھر کن سے ہم اختلاف کر سکتے ہیں۔یہ وضاحت کی جائے۔اختلاف کے بھی اصول وضوابط ہیں۔ لگام کو کسنے کی ضرورت ہے، نہ کہ لگام ڈھیلی کر دی جائے اور فرعی اختلاف کا بحران شروع ہوجائے۔



 فرعی فقہی مسائل میں کس کو اختلاف کا حق ہے؟

صرف عالم امل اور ماہرفقیہ کو فرعی فقہی مسائل میں اختلاف کا حق ہے۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”یہ شخص اگر خود عالم کامل نہیں تو مستند علمائے دین کے فتویٰ کونہ ماننے کے سبب ضال وگمراہ ہے۔قرآن عظیم نے غیر عالم کے لیے یہ حکم دیا کہ عالم سے پوچھو،نہ یہ کہ جس پر تمہارا دل گواہی دے، عمل کرو۔ قال اللہ تعالیٰ: فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔جاہل کیا اور جاہل کا دل کیا۔نعم من کان عالما فقیہا مبصرا ماہرا فہو مامور بقولہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:استفت قلبک وان افتاک المفتون“۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد نہم:جزدوم:ص 140-رضا اکیڈمی ممبئ)

منقولہ بالا حکم باب فقہیات کے ظنی واجتہادی مسائل سے متعلق ہے۔فقہی مسائل میں بھی عوام کو قیل وقال کی اجازت نہیں،بلکہ مستندومعتمدعلمائے حق کے بیان کردہ حکم شرعی کو ماننا ہے۔اسی طرح جوعالم کامل نہ ہو، اس کو بھی اختلاف کا حق حاصل نہیں۔عہد حاضر میں ہرکس وناکس گلا پھاڑ کر کہتے نظر آتے ہیں کہ فرعی مسائل میں اختلاف جائز ہے، طفلان فقہیات بھی اختلاف کے واسطے اپنے پرپھڑپھڑاتے ہیں۔واضح رہے کہ صرف عالم کامل کو اختلاف کاحق حاصل ہے۔ مجددملت،فقیہ امت اورامام اہل سنت نے ایسا ہی فرمایا۔یہ مری تحقیق نہیں، نقل ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ قسط دوم میں دیگر امور پر بحث ہوگی۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:31:دسمبر2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے