-----------------------------------------------------------
📚کیا پوری جائیداد کی وصیّت کی جا سکتی ہے؟📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
کیا اسلام میں پوری جائیداد کی وصیّت کی جا سکتی ہے
سائل: نورالدین خان اِکونہ بازار شراوستی۔
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام.ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب: ثلث( تہائی) مال سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں ہاں اگر وارث بالغ ہوں نابالغ و مجنون نہ ہوں اور موصی (وصیت کرنے والا) کی موت کے بعد ثلث مال سے زائد کی وصیت کو جائز کردیں تو صحیح ہے موصی کی حیات میں اگر وارثین نے اجازت دی تو اسکا اعتبار نہیں موصی کی موت کے بعد اجازت معتبر ہے۔
اور اگر کوئی وارث نہ ہو تو کل مال کی وصیت نافذ ہوگی بیت المال سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
فتاوی ھندیہ میں ہے
" ولا تجوز بما زاد علی الثلث الا أن یجیز الورثۃ بعد موتہ و ھم کبار ولا معتبر باجازتھم فی حال حیاتہ کذا فی الھدایۃ - ولو أؤصی بجمیع مالہ و لیس لہ وارث نفذت الوصیۃ ولا یحتاج الی اجازۃ بیت المال کذا فی خزانۃ المفتین " اھ
(📘 ج:6/ص:90/ کتاب الوصایا / بیروت)
(📚اور ایسا ہی بہار شریعت ح:19/ ص:938/ وصیت کا بیان / مجلس المدینۃ العلمیۃ دعوت اسلامی / میں ہے
واللہ تعالیٰ اعلم
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
✍🏻کتبـــــــــــــــــــــــــــہ:
حضرت علامہ مفتی محمد اسرار احمد نوری بریلوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی و النورانی خادم التدریس و الافتاء مدرسہ عربیہ اہل سنت فیض العلوم کالا ڈھونگی ضلع نینی تال اتراکھنڈ۔
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت مولانا مفتی اظہار مصباحی صاحب قبلہ۔
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت مولانا مفتی شان محمد مصباحی صاحب قبلہ۔
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯تاج الملت و الدین شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین اولیاء علیہ الرحمہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*ولادت:* 27 جنوری 1861ء (1297ھ) کو بھارت کے صوبہ مہاراشٹر کے شہر ناگپور سے 15 کلو میٹر دور كامٹی گاؤں ، محلہ گورا بازار میں ہوئی۔
بابا تاج الدین پیدائش کے وقت سے ہی غیر معمولی تھے، وہ عام بچوں کی طرح روتے نہیں تھے ۔
آپ رحمۃ اللّٰه علیہ کے آبا ؤ اجداد مدینہ سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ خاندانی پیشہ سپہ گری تھا چنانچہ آپ ؒکے خاندان کے بیشتر بزرگ فوج میں شامل ہوئے۔ آپ کے والد محترم سیدبدرالدین رحمۃ اللّٰه علیہ آپ کی ولادت کے ایک سال بعد رحلت فرماگئے۔
جبکہ والدہ محترمہ حضرت سیدہ بی اماں مریم رحمۃ اللّٰه علیہا صاحبہ بھی آٹھ سال بعد خالق حقیقی سے جا ملیں۔
*پرورش:* آپ کے نانا حضرت شیخ میراں جو ایسٹ اندیا کمپنی کی فوج میں صوبیدار میجر تھے ، ماموں عبدالرحمٰن اور آپ کی نانی نے کی۔
*تعلیم:* حضرت تاجِ الاولیا رحمہ اللّٰه نے ابتدا ئی تعلیم کا مٹی کے ایک مدرسے میں حاصل کی۔ آپ ایک روز مکتب میں موجود تھے کہ کا مٹی میں سلسلہ قادریہ کے مشہور مجذوب بزرگ حضرت عبد اللہ شاہ قادری کا مٹی رحمۃ اللّٰه علیہ مکتب میں تشریف لائے اور بابا صاحب رحمہ اللّٰه کی جانب اشارہ کرتے ہوئے معلم سے فرمایا کہ *‘‘ا س کو کیا پڑھا رہے ہو ۔ یہ تو پڑھا پڑھایا آیا ہے ’’*
اتنا کہہ کر عبداللہ شاہ نے اپنی جھولی سے خرما نکال کر نصف خود کھایا اور بچا ہوا تاج الدین رحمہ اللّٰه کے منہ میں رکھ کر کہا :
*‘‘کم کھاؤ، کم سو اور کم بولو اور قرآن شریف پڑھو’’۔*
کہتے ہیں کہ خرما کھاتے ہی تاج الدین رحمہ اللّٰه میں تبدیلی آگئی، اور ان کی اندر کی دنیا ہی بدل گئی، دنیاوی چیزوں میں ان کی دلچسپی بہت کم ہو گئی۔
*بیعت:* اس بات کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ بابا تاج الدین نے کسی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ پھر بھی دو ہستیاں ایسی ہیں جن سے صرف قربت اور نسبت کا ذکر ملتا ہے۔
ایک سلسلہ قادریہ کے حضرت عبداللہ شاہ قادری، دوسرے سلسلۂ چشتیہ کے بابا داؤد مکی ۔
حضرت عبداللہ شاہ قادری کا مزار کا مٹی اسٹیشن کے پاس ہے۔ نو جوانی کے زمانے میں بابا تاج الدین حضرت عبداللہ شاہ صاحب کی خد مت میں حاضر ہو تے تھے۔ حضرت عبداللہ شاہ کے سجادہ نشین کی روایت کے مطابق جب حضرت عبداللہ شاہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو تاج الدین ان کے پاس آئے۔ اس وقت شربت بنا کر شاہ صاحب کو پیش کیا گیا۔ انہوں نے چند گھونٹ پی کر باقی تاج الدین کو پلا دیا۔ روایت ہے کہ سید تاج الدین نے پندرہ سال کی عمر میں قرآن پڑھ لیا تھا اور اس کے بعد دیگر علوم کی تحصیل کی۔
جب تاج الدین 18 سال کے تھے (سن 1879تا 1880) تب كامٹی میں بہنے والے كنہان دریا میں سیلاب آ گیا۔ سیلاب سے ان کے مکان کو بھی کو کافی نقصان پہنچا۔ سن 1881 میں ان کے ماموں عبدالرحمٰن نے انہیں ناگپور کی ریجمنٹ نمبر 13 میں بھرتی کروادیا۔ فوج میں تین سال ملازمت کے بعد انہیں ساگر (مدھیہ پردیش)جانا پڑا۔
ساگر مدراسی پلٹن کے خیمہ (ملٹری کیمپ ) میں پہنچنے کے بعد دورانِ ملازمت وہیں ایک علاقے پیلی کوٹھی میں سلسلہ چشتیہ کے بزرگ حضرت داؤد مکی رحمۃ اللّٰه علیہ کے مزار پر تشریف لے جاتے۔
حضرت دا ؤد مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ ، خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللّٰه علیہ کے خلیفہ تھے اور خواجہ شمس الدین ترک رحمۃ اللّٰه علیہ کو مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ سے خلافت ملی تھی۔ حضرت داؤد مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے مر شد کے حکم پر سا گر آئے اور یہیں وصال فر ما یا۔
جب تاج الدین رحمہ اللّٰه فوجی ملازمت کے سلسلے میں سا گر گئے تو آپ نے بابا داؤد مکی کے مزار پر تقریباً دو سال ریاضت و مر اقبے میں گزارے ۔ روایت کے مطابق یہیں تاج الدین کو چشتیہ نسبت اویسیہ طریقے پرمنتقل ہوئی۔
اب بابا تاج الدین کا روز کا معمول تھا کہ دن میں کام کے بعد پوری رات داؤد مکی ساگری ؒرحمہ اللّٰه کے مزارا قدس پر گزارتے اور یاد الہٰی میں محو رہتے۔
کامٹی میں جب نانی کو اس بات کی خبر ہوئی کہ نواسہ راتوں کو غائب رہتا ہے تو خیال آیا کہ کہیں کسی بری صحبت میں نہ پڑ گیا ہو۔ یہ سوچ کر نانی صاحبہ ساگر جاپہنچیں تاکہ یہ معلوم کریں کہ نواسہ راتوں کو کہاں رہتا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ تاج الدین خدا کی بندگی میں راتیں گزارتا ہے تو نانی کے دل کا بوجھ اتر گیا اور وہ نواسے کو دعائیں دیتی ہوئی واپس چلی گئیں ۔
لیکن رفتہ رفتہ تاج الدین کا وقت داؤد مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی درگاہ پر زیادہ اور ڈیوٹی پر کم رہنے لگے ۔ ایک روز فوج کے کیپٹن کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ تاج الدین ڈیوٹی کے اوقات میں پیلی کوٹھی کی درگاہ پر دیکھے گئے ہیں۔ اس کیپٹن نے تاج الدین کو تنبیہہ کی اور کہا کہ پورے وقت ڈیوٹی پر حاضر رہا کریں ، میں نوٹ کروں گا….!
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں