مطلقہ عورت کی عدت کا شرعی حکم

🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯
-----------------------------------------------------------
📚مطلقہ عورت کی عدت کا شرعی حکم📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 
 کیافرماتےہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیا ہے اور اب اسی سے پھر نکاح کرنا چاہتا ہے تو کیسے ہوگا / اور وہ طلاق شدہ عورت کو کہاں رکھے ۔لڑکی کے گھر والوں نے لینے سے منع کردیا ہے 
برائے کرم رہنمائی فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل: محمد سلمان رضا محمودآباد۔
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب : جب تین طلاق دے دیا تو عورت اس کے نکاح سے نکل گئی اب کسی صورت میں اس کے لئے حلال نہیں ، بے حلالہ دوبارہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی - 
 جیسا کہ سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
" عورت بے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی یعنی اس کی عدت گزرے ، پھر عورت دوسرے شخص سے نکاح کرے اور اس سے ہمبستری بھی ہو ، پھر وہ اسے طلاق دے ، یا مر جائے اور عدت گزر جائے اس کے بعد اس شخص کو عورت سے نکاح جائز ہوگا - 

قال اللہ تعالیٰ :
" فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ -"
(📒 القرآن الکریم ٢/ ٣٢٠)
یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
" اگر تیسری طلاق دے دی تو اس کے لئے مطلقہ دوبارہ حلال نہیں ہوگی ، تاوقتیکہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے -"
وقال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :
یعنی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" لا تحلین لزوجک الاول حتی یذوق الاخر عسیلتک و تذوقی عسیلتہ -"
( 📓صحیح البخاری جلد ٢ صفحہ ٧٩٢ )
یعنی " اے عورت ..! تو حلال نہ ہوگی پہلے شوہر کے لئے جب تک تو دوسرے خاوند کا مزہ اور وہ تیرا مزہ نہ لے لے-" 
(📕 فتاویٰ رضویہ شریف جلد ١٢ صفحہ ٣٧٦ مطبوعہ جدید )
مطلقہ عورت کے لئے حکم ہے کہ وہ عدت شوہر کے گھر گزارے جیسا کہ "قرآن کریم پارہ ٢٨ سورہ طلاق " میں ہے کہ:
" لاتخرجو ھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یا تین بفاحشۃ مبینۃ -"
یعنی " طلاق والی عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو ت نہ وہ خود نکلیں مگر جب وہ کھلی ہوئی بے حیائی کریں -"
اور اگر شوہر فاسق ہو اور کوئی وہاں ایسا نہ ہو کہ اگر اس کی نیت بد ہو تو روک سکے تو ایسی حالت میں البتہ مکان بدلنے کا حکم ہے- "
(📘 فتاویٰ فیض الرسول جلد دوم صفحہ ٢٩٠)
اگروہ ایسی صورت حال میں مکان بدلنے پر شرعاً مجبور ہے تو جو قریب تر مکان کیرایہ کا دستیاب ہو یا قریب میں کسی عزیز کا مکان ہو جس میں بے کیرایہ رہ سکتی ہے تو اس قریب تر مکان میں چلی جائے اور وہاں عدت کے دن پورے کرے - 
(📗 فتاویٰ امجدیہ جلد دوم صفحہ ٢٨٢)
عدت کی مدت تک طالق پر مطلقہ کا نان و نفقہ اور اگر وہ کیرایہ کے مکان میں عدت گزارے تو اس کا کیرایہ طالق کے ذمہ ہے -
(📒 کتاب مذکور صفحہ ٣١١)
اگر نہیں دے گا تو سخت گنہگار ہوگا - وہ حقوق العباد میں سے ہے قیامت کے دن اس سے سوال ہوگا اور بغیر اس کے معاف کئے خدا بھی نہیں معاف فرمائے گا-

طلاق کی عدت کی مدت کے متعلق حکم یہ ہے:
" حیض والی کے لئے تین حیض ہیں جو بعد طلاق شروع ہوکر ختم ہوجائیں اور جسے حیض ابھی نہیں آیا ، یا حیض کی عمر گزر چکی اس کے لئے تین مہینہ اور حمل والی کے لئے وضع حمل ہے-"
(📚 فتاویٰ رضویہ شریف جلد ١٣ صفحہ ٢٩٥ مطبوعہ جدید)
اور بچپن کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو کہ وہ ابھی نو سال سے کم عمر ہے یا بڑھاپے کی وجہ سے کہ وہ عمر رسیدہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ حیض والی نہیں تو اس کی عدت تین ماہ ہوگی -
(📓 کتاب مذکور صفحہ ٣٩٣)
عدت ختم ہونے سے پہلے عورت کا دوسرے مرد کے ساتھ رہنا یا اس سے نکاح کرنا حرام ہے-
( کتاب مذکور صفحہ ٢٩٤)
دوران عدت اگر کوئی لوازمات زندگی محیا کرنے والا نہ ہو تو ایسی صورت اس کے لئے حکم شرعی یہ ہے :
" وہ صبح و شام باہر نکلے اور شب اسی مکان میں بسر کرے-"
( 📕کتاب مذکور صفحہ ٣٢٧)

واللہ تعالیٰ اعلم
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ

✍🏻کتبـــــــــــــــه:
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جعفر علی صدیقی رضوی فیضی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی کرلوسکرواڑی سانگلی مہاراشٹر.

✅صح الجواب: محمد اسرار احمد نوری بریلوی خادم التدریس والافتاء مدرسہ عربیہ اہل سنت فیض العلوم کالا ڈھونگی ضلع نینی تال اتراکھنڈ۔
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت مفتی شہزاد صاحب قبلہ پاکستان۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے