حضرت مولانا شاہ احمد حسن فاضل کانپوری رحمۃ اللّٰه علیہ

📚     «  مختصــر ســوانح حیــات  »     📚
-----------------------------------------------------------
🕯حضرت مولانا شاہ احمد حسن فاضل کانپوری رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسمِ گرامی: مولانا شاہ احمد حسن  رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ علیہ الرحمہ  صدیقی النسل تھے۔ دین دار گھرانے سے تعلق تھا۔

موطن: آپ "موضع بڈلانہ" (ضلع حصار انڈیا) میں پیدا ہوئے۔   

تحصیلِ علم: استاذ العلماء حضرت مولانا لطف اللہ علی گڑھی سےکانپور اور علی گڑھ میں  اخذ ِ علوم کیا، اور یہیں سے فراغت حاصل ہوئی۔ اولاً مدرسہ مظاہر علوم سہارن پوری میں مدرس مقرر ہوئے،اس کے بعد کانپور کے مشہور زمانہ مدرسہ "فیضِ عام" میں مسندِ صدارت کو زینت دی، متعدد علوم و فنون کی 15 کتابوں  کا روزانہ پوری قوت و توجہ سے درس دیتے تھے۔ کا شغر، شام ،موصل، حلب، بخارا، افغانستان سرحد  وغیرہ کے بکثرت علماء نے آپ سے درس لیا۔ درس و تدریس میں آپ اپنے زمانہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپ کےاستاذ حضرت مولانامفتی لطف اللہ علی گڑھی نے آپ کی تالیف "تنزیہ الرحمٰن عن شائبۃ الکذب والنقصان" کی تقریظ وتصدیق میں آپ کو "مالک ازمۃ التحقیقات الشرعیہ ،والتدقیقات الفلسفیہ ،التحریر الکامل البحر الفاضل الذی یفتخر بوجودہ الزمن المولوی احمد حسن" کے گراں قدر خطابات سے یاد کیا آپ نہایت قوی الحفظ،اور رساذہن کے مالک تھے۔ ساٹھ متون آپ کو ازبریاد تھے،اسی بنا پر آپ کو "ملا متون" کہا جاتا تھا۔

بیعت و خلافت: آپ شیخ الکبیر حضرت شیخ حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ ان کے پاس رہ کر اور ان کے حکم پر "مثنوی مولائے روم" کی شرح لکھی۔

سیرت و خصائص: بحرالکامل، جامع العلوم نقلیہ وعقلیہ، مصدر الکمالات البھیہ، الادیب الاریب، الفطین اللبیب، افضل المحققین، اشرف المدققین، اکمل المنانظرین، استاذ الاساتذہ، حضرت  مولانا شاہ احمدحسن فاضل کانپوری رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ بہت بڑے عالم اور امام تھے۔ دینداری میں بہت پسندیدہ اور مقبول تھے۔ پرہیزگار اور متواضع  تھے، بہت زیادہ عقل مند، بہترین اخلاق والے، تمام اچھی صفات سے متصف ، اچھی معاشرت والے، لوگوں کو بہت زیادہ نصیحتیں کرنے والے، اور اپنے شاگردوں اور دوستوں سے بہت محبت کرنے والے، کم سخن، لوگوں سے کنارہ کش، دنیاداروں کے پاس آمد و رفت کرنے سے بھاگنے والے، تھوڑے پر قناعت کرلینے والے، تکلف برطرف کرنے والے، بہت زیادہ انصاف کرنے والے، ان سے کچھ چاہنے والے کو خوش آمدید کہنے والے، اپنی مصروفیت پر مداومت کرنے والے، پڑھانے کے لئے پیش قدمی کرنے والے، بہت ہی صابر، کسی تنگدلی اور رنجش کے بغیر اپنے درس کو جاری رکھنے والے۔ فنون منطق، حکمت و اصول اور کلام کی اہم کتابوں کا درس دیتے۔ مختلف علوم میں باریک تر مسائل میں بھی بحث کرسکتے تھے اور اہم کتابوں کے اسباق ہر روز پندرہ گھنٹے پڑھاتے تھے۔ ایسی حالت میں ان کو بواسیر کا مرض لاحق ہوگیا جس سے بدن سے بہت زیادہ خون نکل جاتا۔ پھر بھی  درس دینے میں رخصت نہیں لیتے تھے۔بالآخرآپ کو بہت زیادہ کمزوری ہوگئی، حکماء نے ان کو کلی طور پر پڑھانے سے سختی سے منع کردیا۔ پھر بھی اپنی عادت سےنہیں رکے اور اپنا درس کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ روح جسم سے پرواز کرگئی۔آپ ہی کی صدارت مدرسۂ فیض عام کے زمانے میں اصلاح ِ نصاب کے لیے "مجلس ندوۃ العلماء " قائم ہوئی۔ اگلے سال کےجلسہ میں تاج الفحول  حضرت مولانا شاہ عبد القادر فاضل بد ایونی اور اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ احمد رضافاضل بریلوی نے بھی شرکت  فرمائی، بلکہ  اعلیٰ حضرت نے اپنے مقالہ میں آپ کی بے حد تعریف کی آپ حق پسند تھے ،اظہار حق کے بعد اپنے خیال سے فوراً رجوع کرلیتے تھے ۔1313ھ کے اجلاس ندوۃ العلماء بریلی میں شرکت کے لیے آپ بریلی پہنچے تو امام اہلسنت علیہ الرحمہ  نے آپ کی دعوت کی اور مفاسِد ِندوہ پر مختصر سی گفتگو کی، جس سے آپ پر حق واضح ہوگیا۔ اس کے بعد آپ نے ناظم ندوۃ العلماء محمد علی کان پوری مونگیری کو اُن کی غلط روی اور فریب دہی پر غیظ آمیز خط لکھ کر بھیج دیا،اور اجلاس میں شرکت کیے بغیر کانپور واپس چلے آئے۔

آپ نے تین بار حج وزیارت کا سفر کیا، اور ہر مرتبہ سال دو سال حرمین شریفین میں قیام کیا۔حج 1292ھ میں مولوی  قاسم نانوتوی بھی شریک سفر تھے، جن سے بعد میں اعتقادی اختلاف کی بنا پر آپ نے علیحدگی اختیار کرلی،وہیں شیخ المشائخ محبوب الٰہ شاہ امداد اللہ قدس سرہٗ سے سلسلہ چشتیہ صابریہ میں بیعت کی، اور انہیں کے پاس رہ کر اُن کے حکم کے مطابق مثنوی مولانائے روم کی شرح لکھی، مشہور غیر مقلد عالم میاں نذیر حسین دہلوی کی گرفتاری کے موقع پر آپ وہاں حاضر تھے، یہ 1300ھ کا واقعہ ہے۔ تصانیف میں ایک مبسوط رسالہ "تنزیہ الرحمٰن عن شائبۃ الکذب والنقصان" قرآنِ مجید کی تفسیر "حمد اللہ" کی شرح  سلم پر مفصل حاشیہ، "مثنوی مولائے روم" افاداتِ احمدیہ، شرح ترمذی۔ مشہور ہیں۔

وصال: 3/صفر المظفر 1323ھ میں آپ کا وصال ہوا، وصیت کے مطابق رئیس الاتقیاء حضرت مولانا شاہ محمد عادل کانپوری قدس سرہ نے نماز جنازہ کی امامت کی، بساطی قبرستان کانپور میں آپ کی قبرِ انور ہے۔

ماخذ و مراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت، نزھۃ الخواطر

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے