______________________________________
*( قسط : 2 )*
*فرمان رسالت ﷺ " لا اشبع الله بطنه " کا معنی و مفہوم اکابرین امت کی روشنی میں!*
امام ابو الفضل قاضى عياض بن موسى اليحصبى المالکی رحمة الله علیہ ( متوفٰی٥٤٤ه ) اپنی کتاب *" الشفاء بتعريف حقوق المصطفى ﷺ "* میں فرماتے ہیں : فإن قيل : فما وجه حديثه أيضا الذي حدثنا الفقيه أبو محمد الخشني بقراءتي عليه ، حدثنا أبو علي الطبري ، حدثنا عبد الغافر الفارسي ، حدثنا أبو أحمد الجلودي ؛ قال حدثنا إبراهيم بن سفيان ، حدثنا مسلم بن الحجاج ، حدثنا قتيبة ، حدثنا ليث ، عن سعيد بن أبي سعيد ، عن سالم مولى النصريين ؛ قال : سمعت أبا هريرة يقول : سمعت رسول الله ﷺ يقول : اللهم إنما محمد بشر ، يغضب كما يغضب البشر ، و إني قد اتخذت عندك عهدا لن تخلفنيه ، فأيما مؤمن آذيته ، أو سببته ، أو جلدته ، فاجعلها له كفارة وقربة ، تقربه بها إليك يوم القيامة . و في رواية : فأيما أحد دعوت عليه دعوة . و في رواية : ليس لها بأهل . و في رواية : فأيما رجل من المسلمين سببته ، أو لعنته ، أو جلدته ، فاجعلها له زكاة ، و صلاة ، و رحمة . و كيف يصح أن يلعن النبي ﷺ من لا يستحق اللعن ، و يسب من لا يستحق السب ، و يجلد من لا يستحق الجلد ، أو يفعل مثل ذلك عند الغضب ، و هو معصوم من هذا كله؟ . فاعلم شرح الله صدرك أن قوله ﷺ أولا : ليس لها بأهل . أي : عندك يا رب في باطن أمره ؛ فإن أمره فإن حكمه عليه السلام على الظاهر ، كما قال ، و للحكمة التي ذكرناها ، فحكم عليه السلام بجلده ، أو أدبه بسبه ، أو لعنه ، بما اقتضاه عنده حال ظاهره ؛ ثم دعا له عليه السلام لشفقته على أمته ، و رحمته لهم ، و رأفته عليهم التي وصفه الله بها ، و حذره أن يتقبل الله فيمن دعا عليه دعوته أن يجعل دعاءه و لعنه و سبه له رحمة ؛ فهو معنى قوله : ليس لها بأهل . لا أنه عليه السلام يحمله الغضب ، و يستفزه الضجر لأن يفعل مثل هذا بمن لا يستحقه من مسلم ، وهذا معنى صحيح ، و لا يفهم من قوله : أغضب كما يغضب البشر . أن الغضب حمله على ما لا يجب فعله ؛ بل يجوز أن يكون المراد بهذا أن الغضب لله حمله على معاقبته بلعنه أو سبه ؛ و أنه مما كان يحتمل و يجوز عفوه عنه ، أو كان مما خير بين المعاقبة فيه أو العفو عنه . و قد يحتمل على أنه خرج منه ذلك ، بمخرج الإشفاق و تعليم أمته الخوف و الحذر من تعدي حدود الله تعالى . وقد يحمل ما ورد من دعائه هذا ، و من دعواته على غير واحد في غير موطن ، على غير العقد و القصد ؛ بل بما جرت به عادة العرب ؛ وليس المراد بها الإجابة . كقوله عليه السلام : تربت يمينك ، و لا أشبع الله بطنك ، و عقرى حلقى . وغيرها من دعواته عليه السلام . و قد ورد في صفته في غير حديث أنه عليه السلام لم يكن فحاشا . وقال أنس : لم يكن سبابا ، و لا فاحشا ، و لا لعانا ؛ وكان يقول لأحدنا عند المعتبة : ماله ترب جبينه؟ . فيكون حمل الحديث على هذا المعنى ؛ ثم أشفق من موافقة أمثالها إجابة ، فعاهد ربه ، كما قال في الحديث ، أن يجعل ذلك للمقول له زكاة ، و رحمة ، و قربة . و قد يكون ذلك إشفاقا على المدعو عليه ، و تأنيسا له ؛ لئلا يلحقه من استشعار الخوف والحذر من لعن النبي ﷺ ، و تقبل دعائه ، ما يحمله على اليأس و القنوط من رحمة الله . و قد يكون ذلك سؤالا منه لربه عزوجل لمن جلده ، أو سبه على حق ، و بوجه صحيح أن يجعل ذلك له كفارة لما أصابه ، و تمحية لما اجترم ، و أن يكون ذلك عقوبته له في الدنيا سبب العفو و الغفران . كما جاء في الحديث الآخر : و من أصاب من ذلك شيئا فعوقب به في الدنيا فهو كفارة له .
اگر کوئی کہے کہ اس حدیث کی بھی توجیح بتا دی جائے جو حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے بالاسناد مروری ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا : کہ اے الله! محمد تو ایک بشر ہے جو اسی طرح غصہ کرتا ہے یقیناً میں نے تجھ سے وعدہ لے لیا ہے اے الله! تو ہرگز مجھ سے خلاف نہ کرنا ۔ لہذا میں جس مسلمان کو بھی تکلیف دوں یا برا کہوں یا کوڑے ماروں تو تو اس کے لیے کفارہ اور قربت بنا دینا جس سے وہ بروز قیامت تیرا قرب حاصل کر سکے ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جس کو بھی بد دعا دوں ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اور وہ اس کا سزاوار نہ ہو ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جس مسلمان کو بھی میں برا کہوں یا اسے راندہ درگاہ کہوں یا اسے کوڑے ماروں تو اے الله! یہ اس کے لیے پاکی ، بخشش اور رحمت کا سبب بنا دے ۔ حالانکہ یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے نبی اکرم ﷺ غیر مستحق پر لعنت کریں یا غیر سزاوار کو برا کہیں یا غیر لائق پر کوڑے ماریں یا اسی قسم کی اور کوئی بات غصہ کی حالت میں کریں کیونکہ آپ ﷺ تو ان تمام باتوں سے معصوم ہیں ۔ تو اب تمہیں معلوم ہونا چاہیے! الله تعالی تمہیں شرح صدر مرحمت فرمائے کہ حضور اکرم ﷺ کا اول یہ ارشاد کہ اے الله! وہ اس کا اہل نہ تھا مطلب یہ کہ اے الله! تیرے نزدیک اس کی باطنی حالت ایسی نہ تھی کیونکہ آپ کا حکم تو ظاہر پر ہے جیسا کہ فرمایا اور ایسا فرمانا اس حکمت سے بھی ہے جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے ( یعنی یہ کہ اس تواضع و انکسار میں بھی آپ کی امت آپ کی پیروی کرے ) لہذا حضور اکرم ﷺ نے اسے کوڑے مار کر یا ادب سکھانے کے لیے برا کہہ کر یا لعنت کر کے جس کی بھی آپ ﷺ کے نزدیک اس کی ظاہری حالت مستحق تھی حکم بتا دیا پھر اپنی امت پر شفقت و مہربانی اور مسلمانوں کیلئے اپنی اس صفتِ رحمت سے جس سے الله تعالی نے آپ کو متصف فرمایا ان کیلئے خاص طور پر دعا مانگی اور آپ اس سے ڈرے کہ الله تعالی آپ کی بددعا قبول نہ فرما لے اور دعا کی کہ اے الله! اس بددعا اور اس فعل کو اس کے لیے رحمت بنا دے ۔ یہی مطلب آپ ﷺ کے اس ارشاد کا ہے کہ وہ اس کے لائق نہ ہو ۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ( معاذ الله ) آپ کو غیض و غضب نے برانگیختہ کر دیا تھا کہ آپ غیر مستحق مسلمان کے ساتھ ایسا فعل کریں ۔ یہی معنی و مطلب صحیح ہے اور آپ کے اس ارشاد کا کہ : میں انسان کی طرح ہی غصہ کرتا ہوں ۔ یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ آپ کو ( معاذ الله ) غیض و غضب غیر واجبی عمل پر برانگیختہ کر دیتا ہے بلکہ جائز ہے کہ یہ مراد ہو کہ غضب نے آپ ﷺ کو لعنت یا برا کہنے سے بطور سزا برانگیختہ کر دیا ہو یا یہ کہ اس سزا میں کوئی احتمال نکلتا ہو اور اس کا معاف کرنا جائز تھا یا یہ کہ اس میں آپ ﷺ کی بددعا بغیر قصد و ارادہ کے ہو بلکہ اہل عرب کی عادت و محاورہ کی بنا پر فرمایا ہو اس سے قبولیت مراد نہ ہو ۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد : تیرا ہاتھ خاک آلودہ ہو ۔ اور الله تیرا پیٹ نہ بھرے اور عقری حلقی ( کونچے کٹی ، سر منڈی ) ، ( عرف عام کی ) دیگر بددعائیں ۔ اور آپ ﷺ کی صفت مبارکہ دوسری حدیثوں میں مزکور ہے کہ آپ ﷺ بدگو ( فحش کلام ) نہ تھے ۔ حضرت انس ضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نہ تو گالی دیتے تھے اور نہ بدگوئی ( فحش کلامی ) کرتے ( جیسا کہ ) اسے کیا ہوا اس کہ پیشانی خاک آلودہ ہو ۔ لہذا حدیث کو اسی مفہوم پر محمول کرنا چاہیے ۔ مگر پھر بھی آپ ﷺ امت پر شفقت کیلئے ایسی دعاؤں کے قبول ہو جانے سے خوفزدہ ہوگئے اس لئے آپ ﷺ نے اپنے رب سے عہد کیا کہ اس قسم کے مقولوں اور محاورات کو بھی مسلمان کے لئے پاکی ، رحمت اور قربت کا ذریعہ بنا دے ۔ اور کبھی آپ ﷺ کا یہ فرمانا اس کے لیے جس پر آپ ﷺ نے ایسی بددعا کی ہے اس پر شفقت و محبت کیلئے ہوتا تاکہ وہ نبی کی لعنت سے ڈر اور خوفزدہ ہو کر اپنے کو اس کا حقیقتاً مستحق نہ سمجھ لے اور وہ مقبول دعاؤں میں سمجھ کر اسے ناامیدی کا شکار نہ بنا دے ۔ اور کبھی آپ ﷺ کا اپنے رب سے اس شخص کے لئے جا کو آپ کوڑے ماریں یا اسے برا کہیں سوال کرنا بجا اور صحیح ہوتا تھا تاکہ یہ بددعا اس کیلئے کفارہ بن جائے یا جو اسے صدمہ پہنچا ہے وہ اس کے جرم کو مٹا دے اور ممکن ہے کہ دنیا میں اس کا سزا پانا آخرت میں اس کی مغفرت اور معافی کا سبب بن جائے گی پس وہی سزا اس کا کفارہ ہو جائے گی ۔
حوالہ درج ذیل ہے :
( الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ﷺ ، للقاضی عیاض المالکی ، القسم الثالث : فيما يجب للنبي ﷺ وما يستحيل في حقه أو يجوز عليه … ، الباب الثاني فيما يخصهم في الأمور الدنيوية وما يطرأ عليهم من العوارض البشرية ، تحت " فصل في شرح حديث أيما مؤمن آذيته أو سببته … ، ص 737 تا 740 ، رقم : 1694 ، مطبوعه جائزة دبي الدولية للقرآن الكريم ، طبع اول ١٤٣٤ه/٢٠١٣ء )
( ٢ )_امام ابو بکر احمد بن حسین البیہقی رحمة الله علیہ ( متوفٰی٤٥٨ه ) اپنی کتاب *" دلائل النبوة "* میں فرماتے ہیں : اخبرنا محمد بن عبد الله الحافظ انبانا ابو الفضل بن ابراھیم حدثنا احمد ابن سلمة ، حدثنا اسحاق بن منصور انبانا النضر بن شمیل حدثنا شعبة حدثنا ابو حمزة ، قال سمعت ابن عباس قال : کنت العب مع الغلمان فجاء رسول الله ﷺ فحطانی حطاة و ارسلنی الی معاوية فی حاجة ، فاتیته و ھو یاکل ، فقلت : اتیت و ھو یاکل فارسلنی فقال : لا اشبع الله بطنه " . رواہ مسلم فی الصحیح عن اسحاق بن منصور و من حدیث امیة بن خالد ، عن شعبة عقیب حدیث انس بن مالك عن النبی ﷺ انی اشترطت علی ربی فقلت انما انا بشر ارضی کما یرضی البشر ، فانما احد دعوت علیه من امتی بدعوة لیس لها باھل ان تجعلها له طهوراً و زکاةً و قربةً تقربه بها یوم القیامة ، و قد روی عن ابی عوانة عن ابی حمزة انه استجیب له فیما دعا ھذا الحدیث علی معاویة ۔ رحمه الله .
ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا ابن عباس رضی الله عنہما کو فرماتے ہوئے سنا : میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا رسول الله ﷺ تشریف لائے آپ ﷺ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ مبارک مارا اور مجھے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے پاس بھیجا کسی حاجت میں ، میں ان کے پاس گیا تو وہ کھانا کھاتے رہے تھے میں نے عرض کیا وہ کھانا کھا رہے ہیں حضور نبی کریم ﷺ نے مجھے دوبارہ بھیجا اور فرمایا : الله اس کے پیٹ کو سیراب نہ کرے ۔ اور امیر بن خالد کی روایت سے مروی ہے شعبہ سے حدیث انس بن مالک کے بعد نبی کریم ﷺ سے کہ میں نے اپنے رب پر شرط رکھی اور میں نے عرض کیا میں ایک انسان ہوں میں خوش ہوتا ہوں جیسے کوئی انسان خوش ہوتا ہے پس جب میں کسی ایک کے خلاف اپنی امت سے دعا کروں جس کا وہ اہل نہ ہو تو اس دعا کو اس کے لئے ظہور اور زکاة اور قرابت بنا دینا قیامت کے دن اس کے ساتھ اس کو اپنا قرب عطا فرمانا ۔ اور تحقیق روایت کی گئی ہے ابو عوانہ سے اس نے ابو حمزہ سے کہ حضور اکرم ﷺ کی یہ دعا قبول کر لی گئی تھی اس دعا کی بابت جو آپ نے اس حدیث میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے خلاف کی تھی ۔ الله تعالی اپنی رحمت کاملہ نازل فرمائے ۔
حوالہ درج ذیل ہے :
( دلائل النبوة للبیهقی ، امام ابو بکر احمد بن حسین البیهقی ، تحت الباب : ما جآء فی دعائه ﷺ علی من اکل بشماله و دعائه علی من کان یختلج بوجهه… الخ ، جلد 6 ص 242 تا 243 ، مطبوعه دار الکتب العلمیه بیروت ، طبع اول ١٤٠٥ه/١٩٨٥ء )
( ٣ )_امام سيد محمد بن علوی بن عباس المالکی الحسنى المکی رحمة الله علیہ ( متوفٰى١٤٢۵ھ ) اپنی کتاب *" محمد ﷺ الإنسان الكامل "* میں لکھتے ہیں : هل يلعن ﷺ أحدا؟ و من ذلك قوله ﷺ : اللهم إنما محمد بشر يغضب كما يغضب البشر ، و إني قد اتخذت عندك عهداً لن تخلفنيه ، فأيما مؤمن آذيته أو سببته أو جلدته فاجعلها له كفارة و قربة تقربه بها إليك يوم القيامة . و في رواية : فأيما أحد دعوت عليه دعوة . و في رواية : ليس لها بأهل . و في رواية : فأيما رجل من المسلمين سببته أو لعنته أو جلدته فاجعله له زكاة و صلاة . فقد يقول قائل : كيف يصح أن يلعن النبي ﷺ من لا يستحق اللعن ، و يسب من لا يستحق السب ، و يجلد من لا يستحق الجلد أو يفعل مثل ذلك عند الغضب و هو معصوم من هذا كله؟ فاعلم شرح الله صدرك أن قوله ﷺ أولا : ليس لها بأهل أي عندك يا رب في باطن أمره فإن حكمه ﷺ على الظاهر ، كما قال . و للحكمة التي ذكرناها حكم ﷺ بجلده أو أدبه بسبه أو لعنه بما اقتضاه عنده حال ظاهره ، ثم دعا له ﷺ لشفقته على أمته و رأفته ، و رحمته للمؤمنين التي وصفه الله بها ، و حذره أن يتقبل الله فيمن دعا عليه دعوته أن يجعل دعاءه و فعله له رحمة ، و هو معنى قوله : ليس لها بأهل . لا أنه ﷺ يحمله الغضب و يستفزه الضجر لأن يفعل مثل هذا بمن لا يستحقه من مسلم . و هذا معنى صحيح ، و لا يفهم من قوله : " أغضب كما يغضب البشر " أن الغضب حمله على ما لا يجب ، بل يجوز أن يكون المراد بهذا أن الغضب لله حمله على معاقبته بلعنه أو سبه و أنه مما كان يحتمل ، و يجوز عفوه عنه أو كان مما خير بين المعاقبة فيه و العفوا عنه . و قد يحمل على أنه خرج مخرج الإشفاق و تعليم أمته الخوف و الحذر من تعدي حدود الله . و قد يحمل ما ورد من دعائه هنا ، و من دعواته على غير واحد في غير موطن ، على غير العزم و القصد ، بل مما جرت به عادة العرب في محاوراتهم يدعون على مخاطبهم بنحو ( قاتله الله ) ( و ويل أمه ) ( و لا أب له ) لمن قصد مدحه و تحسين فعله و هو مشهور في غير لسان العرب أيضاً . و ليس المراد بها الإجابة . و من ذلك قوله ﷺ : ترتب يمينك " رواه الشيخان . و قوله ﷺ : لا أشبع الله بطنك " قاله ﷺ لمعاوية رضي الله عنه فيما رواه مسلم عن ابن عباس ، و لفظه : كنت مع الصبيان فجاء رسول الله ﷺ فتواريت خلف الباب ، فقال : إذهب فادع لي معاوية ، قال : فجئته و قلت هو يأكل ، فأمرني ، فجئته و قلت هو يأكل ، فقال ﷺ : لا أشبع الله بطنه .
( سوال یہ ہے کہ ) کیا رسول اکرم ﷺ کسی پر لعنت کرتے ہیں؟ اس کے متعلق نبی اکرم ﷺ کی ایک دعا ہے : اے الله! میں محمد ( ﷺ ) ہوں ایک انسان ہو غصے میں آتا ہوں جیسے انسان غصہ کرتے ہیں بے شک میں نے تجھ سے عہد لیا ہے جس کا تو مجھ سے خلاف نہ کرے گا کہ جس مومن کو دکھ دوں یا اسے سب و شتم کروں یا اسے کوڑے سے ضرب لگاؤں تو اس اذیت و ضرب کو اس کے حق میں کفارہ و قربت بنا دے وہ روز قیامت اسے تیری بارگاہ میں بطور قربت پیش کرے ۔ایک اور روایت میں ہے : میں جس کے خلاف دعا کروں ۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ : جس اذیت و بد دعا کا وہ مستحق نہ ہو ۔ ایک اور روایت میں ہے : جس مسلمان شخص کو گالی دوں لعنت کروں یا کوڑے سے ضرب لگاؤں تو اسے اس کیلئے زکاة و صلاة بنا دے ۔ کوئی معترض کہہ سکتا ہے کہ یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کسی غیر مستحق پر لعنت کر سکتے ہیں یا غیر مستحقِ شتم کو گالی دے سکتے ہیں اور ناقابل سزا کو سزا دے سکتے ہیں؟ یا حالتِ غضب میں ایسا کر سکتے ہیں؟ جب کہ حضور اکرم ﷺ ان تمام باتوں سے معصوم ہیں ۔
الجواب : الله تعالی فہم مراد کیلئے تمہارا سینہ کھول دے ، جان لو! کہ اولاً اس سبّ و شتم ، لعنت اور سزا کے مستحق نہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اے الله! جو شخص تیرے نزدیک اپنے باطنی امر میں اس کا مستحق نہیں ۔ ( اس کے حق میں میری دعاء ضرر ، لعنت وغیرہ قربت و عبادت بنا دے ) جب کہ حضور اکرم ﷺ کا اس کے ساتھ معاملہ ظاہر کے مطابق تھا ۔ جیسا کہ فرمایا : اور اس حکمت کے تحت حضور اکرم ﷺ نے سزا یا تادیب یا لعنت کا حکم بحکم ظاہر دیا پھر امت محمدیہ کے ساتھ شفقت و رحمت و رافت اور مومنین کے ساتھ خصوصی رحمت کی بناء پر دعا فرمائی اور قبولیت دعاء ضرر و لعنت کے اندیشہ سے عرض کی کہ الله تعالی اس دعا و فعل کو اس شخص کے حق میں رحمت بنا دے ۔ اور غیر مستحق ہونے کا یہی مفہوم ہے یہ مراد نہیں کہ غصہ اور تنگ دلی نے غیر مستحقِ سزا کے ساتھ ایسا کرنے پر برانگیختہ کیا ۔ اور یہ معنی ، مفہوم صحیح ہے اور اس ارشاد کہ : " میں غصے میں آتا ہوں جیسے انسانوں کو غصہ آتا ہے " ۔ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ حالت غضب نے ایسی بات کا داعیہ پیدا کیا جو واجب نہ تھی ۔ بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ یہ غضب الله تعالی کیلئے ہو جو اس شخص کو بطور سزا لعنت اور سبّ و شتم کرنے کا سبب بنا جبکہ اس کی معافی بھی ہو سکتی تھی یا وہ طرز عمل سزا اور عفو سے بہتر تھا ۔ اس کو اس بات پر بھی محمول کر سکتے ہیں یہ امت کو حدود الله میں زیادتی سے خوفزدہ کرنے اور بچنے کی تعلیم کیلئے تھا ۔ اس مقام پر حضور رحمتِ عالم ﷺ کی دعاء ضرر اور دیگر مقامات پر دعاء ضرر کو عزم و قصد کے بغیر ہونے پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ اہلِ عرب کی گفتگو میں عادت جاریہ ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو اس طرح کی بددعا دیتے ہیں ( جیسے ) " قاتله الله " الله اسے مارے ۔ " و ویل امه " اس کی ماں کی بربادی ۔ " ولا اب له " اس کا باپ مرے ۔ اور یہ اس کیلئے ہے جس کی مدح اور فعل کی تحسین کا قصد ہو اور ایسا دیگر زبانوں میں بھی مشہور ہے اس سے مراد دعا کی قبولیت نہیں ہوتی ۔ جیسے حضور اکرم ﷺ کا ارشاد : " تربت یمینك " تیرا ہاتھ خاک آلود ہو ۔ اس کو شیخین نے روایت کیا : اور ( اسی طرح ) رسول الله ﷺ کا فرمان کہ : " لا أشبع الله بطنك " رسول الله ﷺ نے یہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا جس کو امام مسلم علیہ الرحمہ نے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ۔ اور اس کے الفاظ یہ ہیں : حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ میں لڑکوں کیساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول الله ﷺ تشریف لے آئے میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا ، رسول الله ﷺ نے فرمایا : جاؤ اور میرے لیے معاویہ بلا لاؤ ، فرماتے ہیں میں گیا اور آ کر عرض کی کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں ، آپ ﷺ نے دوبارہ مجھے فرمایا : جاؤ اور میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ ، میں گیا اور آ کر عرض کی کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں ، رسول الله ﷺ نے فرمایا : " لا أشبع الله بطنك ۔
حوالہ درج ذیل ہے :
( محمد ﷺ الإنسان الكامل ، لامام محمد بن علوى المالكي ، تحت " هل يلعن ﷺ أحدا ، ص 106 تا 107 ، مطبوعة المكتبة العصرية بيروت ، طبع ١٤٢٨ه/٢٠٠٧ء )
( ٤ )_امام ابو العباس شهاب الدين احمد بن محمد بن علی بن حجر الهيتمی الشافعى رحمة الله عليہ ( متوفٰی٩٧٤ه ) اپنی کتاب *" تطهير الجنان و اللسان عن خطورة و التفوة بثلب معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه "* میں فرماتے ہیں : روى مسلم عن ابن عباس رضي الله عنه أنه كان يلعب مع الصبيان ، فجاء له النبي ﷺ فهرى و توارى منه ، فجاءه و فضربه ضربة بين كتفيه ثم قال : إذهب فادع لي معاوية ، قال : فجئت ، فقلت : ثم قال : إذهب لي معاوية . فقلت : هو يأكل . فقال ﷺ : لا أشبع الله بطنه . و لا نقص على معاوية في هذا الحديث أصلاً ، أما الأول : فلأنه ليس فيه أن ابن عباس قال لمعاوية رسول الله ﷺ يدعوك فتباطأ ، و إنما يحتمل أنّ ابن عباس لمَّا رآه يأكل استحيا أن يدعوه ، فجاء ، و أخبر النبي ﷺ بأنه يأكل ، و كذا في المرة الثانية ، و حينئذ : فسبب الدعاء ، بفرض أنْ يراد به حقيقته ، أنّ طول زمن الأكل يدل على الاستكثار منه ، و هو مذموم ، على أنّ ذلك ليس فيه الدعاء عليه بنقص ديني ، و إنما هو الدعاء عليه بكثرة الأكل لا غير ، و هي إنما تستدعي المشقة والتعب في الدنيا ، دون الآخرة ، و كل من لم يضره نقص أخروي لا يُنافي الكمال ، و أمَّا ثانيا : فبغرض أنّ ابن عباس أخبر معاوية بطلب النبي ﷺ يحتمل أنه ظنّ في الأمر سعة ، و أنّ هذا الأمر ليس فوريا ، على أنّ الأصح عند الأصوليين و الفقهاء أنّ الأمر لا يقتضي الفورية إلاّ أمره ﷺ لأحد بشيء كان دعاه إليه ؛ فإنه تجب إجابته فورا ، و إنْ كان في صلاة الفرض ، و كأن معاوية لا يستحضر هذا الاستثناء ، أو لا يقول به ، و حينئذ فهو معذور ، و أمَّا ثالثا : فيحتمل أنّ هذا الدعاء جرى على لسانه ﷺ من غير قصد ، كما قال لبعض أصحابه : تربت يمينك . و لبعض أمهات المؤمنين : عقرى حلقى ، و نحو ذلك من الألفاظ التي كانت تجري على ألسنتهم بطريق العادة ، من غير أنْ يقصدوا معانيها ، و أما رابعا : فأشار مسلم في صحيحه إلى أنّ معاوية لم يكن مستحقا لهذا الدعاء ؛ وذلك لأنه أدخل هذا الحديث في باب من سبّه النبي ﷺ ، أو دعا عليه ، و ليس هو أهلا لذلك ، كان له زكاة و أجرا و رحمة ، و ما أشار إليه ظاهر ، لما قدمته أنه يحتمل أنّ معاوية لم يخبر بطلب النبي ﷺ له ، أو أنه أُخبِر و لكنه ظنّ أنّ في الأمر سعة ، أو كان معتقدا أنه لا يجب الفور ، كما هو رأي جماعة من أئمة الأصول ، و عند هذه الاحتمالات اللائقة بكمال معاوية ، و فقهه ، و مكانته ، يتعين أن يكون هذا الدعاء عليه ، و هو ليس له بأهل ، فيكون له زكاة و أجرا و رحمة ، كما قال ﷺ : اللهم إني أغضب كما يغضب البشر، فمن سببته أو لعنته ، أو دعوت عليه ، و ليس هو أهلا لذلك ، فاجعل اللهم ذلك له زكاة و أجرا و رحمة ، و أمَّا خامسا فهو نتيجة ما قررته في الرابع ، فهو أنّ هذا الحديث من مناقب معاوية الجليلة ؛ لأنه بان بما قررته أنه دعاء لمعاوية ، لا عليه ، و به صرح الإمام النووي .
امام مسلم علیہ الرحمہ نے حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے کہ وہ ایک دن بچوں کیساتھ کھیل رہے تھے اس حال میں نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے پس وہ بھاگے اور چھپ گئے ۔ نبی اکرم ﷺ نے جا کر ان کو پکڑ لیا اور ( محبت سے ) ان کے دونوں کندھوں کے درمیان آپ ﷺ نے ہاتھ مارا ، اور فرمایا : جاؤ اور معاویہ کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں : میں گیا اور واپس آکر عرض کیا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جاؤ اور معاویہ کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ لہذا میں دوبارہ گیا اور میں نے آ کر عرض کیا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : لا اشبع الله بطنه ۔ جواب : اس میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ پر کوئی اعتراض نہیں بنتا ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں یہ مزکور نہیں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے کہا ہو کہ آپ کو نبی اکرم ﷺ بلا رہے ہیں اور انہوں نے آنے میں دیر کر دی ہو ۔ بلکہ احتمال تو یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے چونکہ ان کو کھانا تناول فرماتے ہوئے دیکھا اس لئے ان کو کہتے ہوئے شرم محسوس ہوئی کہ آپ رضی الله عنہ کو بلاؤں اسی لئے وہ دوبارہ واپس چلے گئے اور پھر انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو جا کر عرض کر دیا کہ وہ کھانا تناول فرما رہے ہیں اور اسی طرح دوسری مرتبہ بھی ہوا ۔ لہذا اس صورت میں اس بددعا کو اگر فرضی حقیقی پر محمول کیا جائے تو اس کا سبب یہ ہوگا کہ اتنی دیر تک کھاتے رہنا زیادہ کھانے پر دلالت کرتا ہے اور یہ عیب کی بات ہے علاوہ ازیں اس کے کہ اس بددعا میں کوئی دینی نقصان تو ہے ہی نہیں کیونکہ یہ بددعا صرف کثرت کھانے کی ہے ۔ اور اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ان کو مشقت و تعب ہوگا نہ کہ آخرت میں اور جو چیز نقص اخروی پر دلالت نہ کرے وہ منافی کمال نہیں ہو سکتی ۔ دوسرا یہ بھی احتمال ہے کہ بالفرض اگر حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے نبی اکرم ﷺ کا طلب فرمانا بھی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے بیان کیا تب بھی یہ احتمال ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے یہ سمجھا ہو کہ اس ارشاد کی تعمیل فوراً مقصود نہیں ہے ۔ ہاں اگر نبی اکرم ﷺ کسی کو ایسے کام کے لیے بلائیں جس کے لیے الله تعالی نے آپ کو حکم دیا ہو تو اس کی تعمیل فوراً واجب ہوتی ہے اگرچہ جس کو بلایا جائے وہ فرض نماز میں ہی کیوں نہ مصروف ہو شاید حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو اس وقت یہ استثناء معلوم نہ ہو یا وہ اس کے قائل نہ ہوں ، اور اس صورت میں وہ معذور ہوں گے ۔ تیسرا یہ بھی احتمال ہے کہ یہ بددعا نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے بغیر قصد سے نکل گئی ہو جا طرح آپ ﷺ نے اپنے بعض صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کو فرمایا : تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہو جائیں ۔ یا بعض امہات المؤمنین رضی الله عنہن کو فرمایا : پاؤں کٹی ہوئی سر منڈی ہوئی ۔ اور اس طرح کے الفاظ اہل عرب کی زبان سے عادةً نکل جاتے تھے علاوہ ازیں اس کے کہ ان کے معنی مراد ہوں ۔ چوتھا احتمال یہ ہے کہ امام مسلم علیہ الرحمہ نے خود اپنی صحیح میں اس بات کو بیان کر دیا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اس بددعا کے مستحق نہ تھے کیونکہ انہوں نے ایک باب باندھا ہے کہ وہ لوگ جن کو نبی اکرم ﷺ نے برا کہا یا ان کو بددعا دی حالانکہ وہ اس کے مستحق نہ تھے تو یہ ان کے لیے پاکی اور ثواب کی وجہ ہوگی ۔ اس باب میں اس حدیث مبارکہ کو بھی ذکر کیا ہے ۔ یہ جو امام مسلم علیہ الرحمہ نے فرمایا بالکل ظاہر ہے کیونکہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس میں احتمالات ہیں ۔ ممکن ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو نبی اکرم ﷺ کے طلب فرمانے کی اطلاع ملی ہو مگر انہوں نے سمجھا ہو کہ فوراً حاضر مقصود نہیں ہے یا ان کا اعتقاد یہ ہو کہ امر مقتضی فوریت نہیں ہوتا جیسا کہ اکثر علمائے اصول کا مذہب ہے ان احتمالات کے ہوتے ہوئے جو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے کمال اور فقاہت اور مرتبے کے لائق ہیں ۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ وہ اس بددعا کے مستحق نہ تھے لہذا یہ بددعا ان کے لیے باعث پاکیزگی و ثواب پر مبنی ہوگی ۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مجھے بھی غصہ آتا ہے جس طرح تمہیں غصہ ہے لہذا جس کو میں برا کہوں یا اس پر لعنت کروں یا اس کو بددعا دوں اور وہ مستحق نہ ہو تو اے الله! میرے اس فعل کو اس کے لیے باعث پاکیزگی و ثواب اور رحمت بنا دے ۔ پانچواں احتمال یہ ہے کہ یہ حدیث مبارکہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے مناقب میں ہے کیونکہ میرے پچھلے بیان سے واضح ہوگیا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے لیے دعا ہے نہ بددعا ہے امام نووی علیہ الرحمہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے ۔
حوالہ درج ذیل ہے :
( تطهير الجنان و اللسان عن خطورة و التفوة بثلب معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه ، لامام أبي العباس شهاب الدين أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي المكي ، تحت " الفصل الثالث في الجواب عن أمور ، ص 102 تا 104 ، مطبوعة دار الصحابة للتراث بطنطا ، طبع اول ١٤١٣ه/١٩٩٢ء )
( ٥ )_امام محى الدين ابو زكريا يحيى بن شرف النووى الشافعی رحمة الله علیہ ( متوفٰی٦٧٦ه ) اپنی کتاب *" المنهاج فى شرح صحيح مسلم بن الحجاج "* میں فرماتے ہیں : فإن قيل كيف يدعو على من ليس هو أهل للدعاء أو سبه أو يلعنه و نحو ذلك فالجواب ما أجاب به العلماء و مختصره وجهان أحدهما : أن المراء ليس بأهل لذلك عند الله تعالى وفي باطن الأمر ، و لكنه في الظاهر مستوجب له ، فيظهر له ﷺ استحقاقه لذلك بأمارة شرعية و يكون في باطن الأمر ليس أهلا لذلك . و هو ﷺ مأمور بالحكم بالظاهر ، والله يتولى السرائر . الثاني : أن ما وقع من سبه و دعائه و نحوه ليس بمقصود و إنما هو مما جرت به عادة العرب في وصل كلامها بلا نية ، كقوله : تربت يمينك و ثكلتك أمك . وفي حديث معاوية : لا أشبع الله بطنه . و نحو ذلك لا يقصدون بشيء من ذلك حقيقة الدعاء ، فخاف أن يصادف شيء من ذلك إجابة ، فسأل ربه سبحانه و تعالى ورغب إليه في أن يجعل ذلك رحمة و كفارة و قربة و طهورا و أجرا ، و إنما كان يقع هذا منه في النادر و الشاذ من الأزمان ، و لم يكن فاحشا و لا متفحشا و لا لعانا و لا منتقما لنفسه ، و قد سبق في هذا الحديث أنهم قالوا : ادع على دوس فقال : اللهم اهد دوسا . و قال : اللهم اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون . والله اعلم
اگر کہا جائے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کیونکر ایسے شخص کے خلاف دعا کر سکتے ہیں جو اس دعا کا سزاوار نہ ہو یا اسے گالی دیں یا لعنت فرمائیں یا اس طرح کی دیگر کلمات ہیں اس کا جواب وہی ہے جو علماء نے دیا ہے مختصر یہ کہ اس کی دو وجہیں ہیں : وجہ اول : الله تعالیٰ کے نزدیک باطنی معاملہ میں جھگڑا اس کے لائق نہیں لیکن ظاہر میں اس کا مستوجب ہے پس شرعی حکمرانی کے ساتھ اس کا استحقاق نبی اکرم ﷺ کیلئے ظاہر ہے ۔ مگر باطنی حکم میں اس کے اہل نہیں کیونکہ آپ ﷺ ظاہر کے ساتھ حکم کرنے پر مامور ہیں ۔ الله تعالیٰ پوشیدہ باتوں کا اختیار رکھتا ہے ۔ دوسری وجہ : حضور ﷺ سے سب و شتم جو اور بددعا وغیرہ کلمات صادر ہوئے وہ مقصود نہ تھے وہ اہل عرب کی جاری عادت کے مطابق بلانیت وصل کلام کیلئے تھے ۔ جیسے قول ہے : تربت يمينك و ثكلتك أمك ۔ یعنی تیرا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو تیری ماں تجھے گم کرے ۔ حضور ﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے دعا کی : لا أشبع الله بطنه ۔ یعنی الله اس کو شکم سیر نہ کرے ۔ اہل عرب اس سے حقیقت دعا کا قصد نہیں کرتے اس کے باوجود حضور نبی رحمت ﷺ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں دعا قبولیت سے ہم آہنگ نہ ہو جائے اس لئے الله تعالیٰ سے التماس کی اور رغبت کا اظہار کیا کہ اس دعا کو رحمت ، کفارہ ، قربت ، طہور اور اجر بنا دے ۔ یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ سے ایسا شاذ و نادر ہی وقوع پذیر ہوتا کیونکہ آپ بدزبان ، فحش کلام ، اور لعنت کرنے والے نہ تھے اور نہ ہی اپنی ذات کیلئے انتقام لیتے تھے ۔ اسی حدیث میں گزرا کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کی کہ قبیلہ دوس کے خلاف دعا کریں تو آپ نے دعا کی : اے الله! دوس کو ہدایت دے ۔ نیز دعا فرمائی : اے الله! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے ۔ والله اعلم
حوالہ جات درج ذیل ہیں :
( المنهاج فى شرح صحيح مسلم بن الحجاج ، لامام محي الدين ابو زكريا يحيى بن شرف النووي ، كتاب البر و الصلة ، تحت " باب من لعنه النبي ﷺ أو سبه ، جلد 16 ص 152 تا 153 ، المطبعة المصرية بلأزهر ، طبع اول ١٣٤٩ه/١٩٣٠ء )
______________________________________
( طالب دعا : ایڈمن دفاع حضرت سيدنا امير معاويه رضى الله تعالى عنه وٹس ایپ گروپ )
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں