-----------------------------------------------------------
*🕯ولادت محمد ﷺ خصائص و کمالات🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 ماہ ربیع الاول وہ متبرک اور باعظمت مہینہ ہے جس میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی،اللہ تعالی نے آپ کی ولادت باسعادت کو امتیازی شان عطا فرمائی،آپ کی شان وعظمت ،رفعت وبلندی کے اظہار کی خاطر اللہ تعالی نے اس موقع پر بے پناہ رحمتوں کانزول فرمایا
خوشیوں اور مسرتوں کا ایسا اہتمام فرمایا کہ ولادت باسعادت کے سال کو فرحت وشادمانی ، رونق وخوشحالی کا سال کہا جانے لگا۔
اسی مناسبت سے احادیث کریمہ کی روشنی میں حضور اکرم ،نور مجسم ،رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت کے چند خصائص و کمالات کا مبارک تذکرہ ہدیۂ قارئین کیا جاتا
اللہ تعالی کا ارشاد ہے(مفہوم):مجھے اس شہر مکہ کی قسم ہے،اس لئے کہ ائے محبوب آپ اس شہر میں تشریف فرماہیں-(سورۃ البلد:1/2)۔۔
اب یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ رب العالمین نے شہرمکہ کی قسم اس لئے ذکرفرمائی کہ وہ روحانیت کاعظیم مرکز ہے، وہ ایسا باعظمت شہر ہے کہ جہاں قدرت الہی کی عظیم نشانیاں موجود ہیں
اس شہر میں کعبۃ اللہ شریف اور حجر اسودہے،وہاں مقدس حطیم اورمیزاب رحمت ہے،وہاں مقام ابراہیم اور چاہ زم زم ہے،وہاں صفا ومروہ کی بابرکت پہاڑیاں ہیں،وہاں جبل رحمت اور جبل نور ہے،وہاں مزدلفہ اور منی ہے،یقینا یہ ساری عظمتیں مکہ مکرمہ کو حاصل ہیں !۔
لیکن اللہ تعالی نے ان خصائص وعظمتوں کے سبب مکہ مکرمہ کی قسم ذکر نہیں فرمائی ،بلکہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اور آپ نے مکہ مکرمہ کو اپنی جائے قیام بنایا تو اللہ تعالی نے اپنے پاکیزہ کلام میں اس حیثیت سے شہر پاک کی قسم ذکر فرمائی،(مفہوم ):مجھے اس شہر مکہ کی قسم ہے،اس لیے کہ ائے محبوب آپ اس شہر میں تشریف فرماہیں-(سورۃ البلد:1/2)۔
آئیے ،جس باعظمت نبی کی ولادت باسعادت اور جلوہ گری کی وجہ سے اللہ تعالی نے شہر مکہ کی قسم ذکر فرمائی ہے، ان کی ولادت باسعادت کے احوال وکیفیات ،خصائص وامتیازات کے ذکرسے اپنی روح کو جلا عطا کریں اور ایمان کو تازگی بخشیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب کہ آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے (جامع ترمذی حدیث نمبر:3968)۔
یوں تو آپ تمام انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے اخیر میں تشریف لائے لیکن کہ آپ کے نور مبارک کی تخلیق ساری کائنات سے پہلے ہوچکی تھی جیساکہ ارشاد نبوی ہے:سب سے پہلے جو چیز اللہ تعالیٰ نے پیدا کی وہ میر ا نور ہے۔
محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس حدیث شریف کو حدیث صحیح فرمایا ہے(مدارج النبوۃ ۔ج2۔ص2 )۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے کس چیز کو پیدا فرمایا؟
تو آپ نے ارشاد فرمایا :اے جابر!بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات سے پہلے تمہارے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا ، پھروہ نور قدرت الٰہی سے جہاں چاہتا تھا سیر کرتا رہا ۔ اس وقت لوح تھی نہ قلم، جنت نہ دوزخ،آسمان نہ زمین،چاند نہ سورج اورنہ جن نہ انسان ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نور مبارک کو اللہ تعالی نے سب سے پہلے پیدا فرمایااور اس نورمبارک پر طرح طرح کی سرفرازیاں فرماتارہا، جب وہ نور مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پشت مبارک میں رہا تو آپ کو مسجود ملائکہ بنادیا۔
اس طرح یہ نور حضرت نوح علیہ السلام ،حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام وحضر ت اسماعیل علیہ السلام میں جلوہ گر ہوکر سب کو مشرف فرماتا رہا۔:حقیقت یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا’ فرشتوں کو اس لیے حکم دیا گیا تھا کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نور مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی جبین مبارک میں تھا (التفسیر الکبیر۔سورۃ البقرۃ۔253)۔
وہ نور مبارک پاک پشتوں اور پاکیزہ ارحام کے ذریعہ بنوہاشم سے ہوکر حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی روشن جبین پر چمکا۔
اس نور مبارک کی فیض رسانی کا یہ عالم تھا کہ قحط سالی کے وقت لوگ اس سے فیض حاصل کیا کرتے،چنانچہ مواہب لدنیہ میں روایت ہے:۔
قریش جب سخت قحط سالی میں مبتلاہوتے توحضرت عبد المطلب کا ہاتھ پکڑکر ثبیر پہاڑ کی جانب لے جاتے اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالی کے دربار میں معروضہ کرتے،اور باران رحمت کے نزول کے لیے دعا کرتے تو اللہ تعالی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نور مبارک کی برکت سے ان پر باران رحمت کا نزول فرماتا اور انہیں مکمل طور پر سیراب فرمادیتا ۔
پھر وہ نو رمبارک حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ میں منتقل ہوا،چوبیس(24)سال کی عمرمیں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت آمنہ بنت وہب رضی اللہ عنہا سے ہوا، ماہ رجب، شب جمعہ حضرت آمنہ بنت وہب رضی اللہ عنہا نور مبارک صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت دار ہوئیں
جیسا کہ مواہب لدنیہ میں خطیب بغدادی کے حوالہ سے مذکور ہے: امام سہل بن عبداللہ تستری نے وہ روایت بیان فرمائی جسے خطیب بغدادی نے روایت کی ہے : جب اللہ تعالی کو منظور ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نور مبارک حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے شکم مبارک میں آیا،وہ ماہ رجب تھا ،اور شب جمعہ تھی
اس رات اللہ تعالی نے خازن جنت “رضوان“کو حکم فرمایا کہ فردوس بریں کے تمام دروازے کھول دیں،آسمانوں ا ور زمین میں ایک منادی نے ندا دی “سنو! بے شک وہ خزانۂ قدرت میں رکھا ہوا نور جس سے نبی ہادی صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لانے والے ہیں، آج کی شب اپنی والدۂ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے شکم مبارک میں متمکن ہوچکا ہے ،وہ حمل شریف میں مدت مکمل کرنے کے بعد بشیرونذیر کی شان سے خاک دان گیتی میں جلوہ گر ہونے والے ہیں۔
اس رات کرۂ ارض پر جوخوشی وشادمانی کا اہتمام تھا، خصائص کبری اور مواہب لدنیہ کی یہ روایت اس کی ترجمانی کر رہی ہے:امام ابو نعیم نے سیدنا عبد اللہ عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی ہے
آپ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شکم مادر میں تشریف لانے کی نشانیوں میں یہ تھا کہ اس رات قریش کے سارے جانور بول اُٹھے: رب کعبہ کی قسم! آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شکم مادر میں تشریف لائے ہیں،آپ ساری دنیا کے امام اور تمام اہل دنیا کے لیے روشن چراغ ہیں۔
اس شب دنیا کے تمام بادشاہوں کے تخت الٹ گئے،مشرق کے جانور مغرب کے جانوروں کو مبارکبادیاں دینے لگے،اسی طرح سمندر کی مخلوق بھی آپس میں ایک دوسرے کو بشارت دینے لگی،حمل شریف کے بعد ہر ماہ آسمان اور زمین میں ندا دی جاتی:”مبارک ہو!سرچشمۂ خیر وسراپا برکت ،حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جلوہ گری کا وقت آچکاہے۔
ولادت سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آمد سے قبل اللہ تعالی نے کس قدر فرحت وخوشی کا اہتمام فرمایا،ہر طرف سرورکا ماحول ہے،مسرت وشادمانی کا سما چھایا ہوا ہے ، سورج کو مزید روشن کردیا گیا،ستارے زمین کے قریب آگئے،چارسُو نور ہی نور چھاگیاہے،ملائکہ استقبال کے لیے حاضر ہیں
حضرت مریم وحضرت آسیہ حوران بہشت کے ساتھ خدمت کی سعادت کے لئے آچکی ہیں،نور کامل کی آمد کی خوشی میں آسمان کو منور کردیا گیا،حسن مطلق کی آمد کی فرحت میں زمین کو مزین کردیا گیا،گلستان مہکنے لگے،مسحورمکن ہوائیں قلب وجاں کو سرور پہنچانے لگیں،جن سے مشام جان بھی مُعطر ہونے لگا اور مشام ایمان بھی مُعنبر ہونے لگا،اشتیاق محبوب میں سمندر کی موجیں بلند ہونے لگیں،فخر سے پہاڑ کا سینہ کشادہ ہوگیا۔
غرض ساری مخلوق منتظر ہے اس ذات گرامی کی آمد کی،جس کے لیے بزم کائنات سجائی گئی،جس کے صدقہ میں مخلوق کو وجود بخشا گیا۔
اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوچکی ہیں،وہ احمد مختار ،رسولوں کے تاج دار ،نبی عالی وقار،غریبوں کے غم گسار،حبیب کردگار کی آمد ہے ، جن کی جلوہ گری کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی،جن کی رونق افروزی کی بشارت حضرت عیسی علیہ السلام نے دی تھی، جن کے فضائل وکمالات کتب سماوی میں بیان کئے گئے۔
اصحاب فیل کے واقعہ کے پچپن( 55)دن بعد مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاوّل بروز دوشنبہ بوقت صبح صادق آپ تشریف لائے۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*از قلم✍🏻 مولانا محمد دانش رضا منظری، پورنپور،پیلی بھیت، استاذ: جامعہ احسن البرکات فتح پور،یوپی،ہند۔*
*رابطہ نمبر:9410610814*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں