Header Ads

امام احمد رضا خان

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯 مجدد دین و ملت، اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسمِ گرامی: محمد۔
تاریخی نام: المختار۔
جد امجد مولانا رضا علی خاں رحمۃ اللہ علیہ نے "احمد رضا" نام رکھا، اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔

القاب: اعلیٰ حضرت، امام اہلِ سنت، مجدد اسلام، شیخ الاسلام، حامیِ سنت، ماحیِ بدعت وغیرہ۔

سلسلہ نسب: اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان بن مولانا نقی علی خاں بن مولانا رضا علی خاں بن حافظ کاظم علی خاں بن محمد اعظم خاں بن محمد سعادت یار خاں بن محمد سعید ﷲخاں۔ علیہم الرحمۃ والرضوان ۔
(آپ کا تعلق "افغانستان" کے معزز قبیلہ "بڑھیچ پٹھان "سے ہے)۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروز ہفتہ،10,شوال المکرم 1272 ھ، مطابق 14,جون 1856ء، بوقتِ ظہر، "محلہ جسولی" بریلی شریف (انڈیا) میں ہوئی۔ 
خود امام ِ اہلِ سنّت نے اپنی ولادت کاسن ہجری(1272ھ) اس آیتِ مبارکہ سے اخذکیا ہے: اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمٰنَ وَ اَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۔ (سورۃ المجادلۃ:22)

تحصیلِ علم: اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ کی رسمِ بسم اللہ کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری ہوگیا آپ نے چار برس کی ننھی عمر میں ناظرہ قرآن مجید ختم کرلیا۔ چھ سال کی عمر میں ماہِ ربیع الاول شریف کی تقریب میں ایک بہت بڑے اجتماع کے سامنے "میلاد شریف" کے موضوع پر ایک پر مغز اور جامع بیان کرکے علمائے کرام اور مشائخ عظام سے تحسین و آفرین کی داد وصول کی۔ابتدائی اردو اور فارسی کی کتب پڑھنے کے بعد "میزان و منشعب" حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ رحمہ اللّٰه سے پڑھیں۔ پھر آپ نے اپنے والدِ ماجد سندالمحققین حضرت مولانا شاہ نقی علی خان رحمہ اللّٰه سے اکیس علوم حاصل کیے۔ "شرحِ چغمینی" کا بعض حصہ حضرت علامہ مولانا عبدالعلی رام پوری رحمہ اللّٰه سے پڑھا۔ابتدائی "علم ِتکسیر وجفر" شیخ المشائخ حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی رحمۃ اللّٰه علیہ سے حاصل کیے۔
علمِ تصوف کی تعلیم استاذ العارفین مولانا سید آلِ رسول مارہروی رحمۃ اللّٰه علیہ سے حاصل فرمائی۔
تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر میں 14/شعبان المعظم 1286ھ،مطابق 19/نومبر 1869ء کو فارغ التحصیل ہوئے اور دستارِ فضیلت سے نوازے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوتِ حافظہ سے خوب نوازا تھا۔ صرف مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں ایک پارہ حفظ کر لیتے تھے، اور ایک ماہ میں قرآنِ مجید مکمل کرلیا۔اعلیٰ حضرت کے اساتذہ کی فہرست توبہت مختصر ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کے حبیبﷺ کی عطا سے آپ کا سینہ علم ومعرفت کا خزینہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ بہت سے علوم کے بانی و موجد ہیں۔
(ذَالِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشآء)

بیعت و خلافت: آپ 1294ھ، مطابق 1877ءکو شیخ المشائخ حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی رحمۃ اللّٰه علیہ کے دستِ حق پرست پر سلسلہ اعلیٰ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے۔

سیرت وخصائص: اعلٰی حضرت، امامِ اہلسنت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رسالت، حامیِ سنت، ماحیِ بدعت، شیخ الاسلام، مجددِمأۃ ماضیہ، حالیہ،آتیہ، مفسرِعدیم النظیر، محدثِ باکمال، فقیہِ عَلَی الْاِطْلاق شاہ امام احمدرضاخاں قادری برکاتی محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ۔ 
امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خاں رحمتہ اللہ علیہ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک جامعہ ہیں۔آپ کی سیرتِ مبارکہ اور کارہائے نمایاں سے قرونِ اولیٰ کے اسلاف کی یادتازہ ہوجاتی ہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت ایسی جامع وکامل وعالی مرتبت ہے،جن کی علمی سطوت وشوکت اور مخالفین ودشمنانِ اسلام پر ہیبت دبدبہ ان شاء اللہ العزیز آئندہ تاقیامِ قیامت اپنی پوری آب وتاب اور شان وشوکت کے ساتھ آفتاب نصف النہار کی طرح مطلعِ علم وشریعت پر چھائی رہے گی۔آپ کی پھیلائی ہوئی شمعِ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی مہک پورے عالم میں پھوٹتی رہے گی اور ہر آنے والے دن کے ساتھ اس کی خوشبو اور فیض رسانی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

امام احمد رضاخاں قادری رحمۃ اللہ علیہ مروجہ علوم دینیہ کے علاوہ ایسےعلوم پر مہارت رکھتے تھے جن سےعام طور پر علماء تعلق نہیں رکھتے، اور کچھ علوم کےتو بانی وموجد ہیں، ہرفن میں قیمتی تحقیقات وتعلیقات کا اضافہ کیا۔آپ رحمۃ اللّٰه علیہ نے پچاس سے زیادہ علوم و فنون میں تصانیف کا یادگار ذخیرہ چھوڑا۔جدید حساب سے ان کی تعداد ایک سو بیس کے قریب ہے۔ اسی طرح مختلف علوم وفنون پر ایک ہزار سے زیادہ یادگار تصانیف چھوڑی ہیں۔ صرف فتاوٰی رضویہ کی جدید طباعت تیس جلدوں میں ہے۔ بہت سی کتب طباعت کے مراحل میں ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ اس پیکرِ حق و صداقت، حاملِ علم و معرفت کا نام ہے جسے"عَلَّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّا" کی تعبیر اور "اِنَّمَایَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ" کی تصویر، اور "وَالرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْم" کی تفسیر کہیں توبے جانہ ہوگا۔ مدح و ثنا خوانی میں حافظ شیرازی، امام بوصیری و جامی بلکہ حسان الہند کہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ صرف "ترجمۂ کنزالایمان" دیکھ لیں حقائق و معرفت کا خزینہ ہے، اس ترجمے میں رازی کی موشگافیاں، غزالی کا تصوف، جامی کی وارفتگی، حضرت بلال کا عشق، نعمان بن ثابت کا تفقہ ہے۔
اگریقین نہ آئے تو ترجمہ پڑھ لیں۔"وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ فَھَدٰی" مجھے حیرت ہے ان نام نہاد موحدین پر جو یہود و نصاریٰ کےظلم وستم اور فواحش پر تو خاموش رہیں اور عظمتِ خدا و عشقِ مصطفیٰﷺ کے ترجمے پر پابندی لگا دیں۔ مزید ستم ظریفی دیکھیں کہ جس امام نے رد و بدعات ، بے حیائی و خرافات، جاہلانہ رسوم و رواج کے خلاف ساری زندگی جہاد فرمایا اور سب سے زیادہ ان جہال کے خلاف لکھا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جس نے شریعتِ مصطفیٰ ﷺ کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ،دن رات خدمت کی اسے ’’حامیِ بدعات‘‘ بنا دیا، اور دینِ اسلام میں تحریف کرنے والے، عظمتِ خدا عَزَّوَجَلّ اور عزتِ مصطفیٰﷺ پر حملے کرنے والے، کفار و مشرکین سے دوستی کرنے والے، اور ان کیلئے مر مٹنےوالے، ان کو منبروں پر بٹھانے والے، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والوں کو "شیخ الاسلام" اور "توحید" کا ٹھیکیدار بنا دیا۔ 
فَاشْتَکٰی اِلَی اللہِ ،وَاِلَیْہِ الْمَصِیْر۔

حق کے آگے جتنے پروپیگنڈے کیے جائیں، پردہ ڈالنے کی کوششیں کی جائیں، حق چھپانے سے چھپ نہیں سکتا ۔بلکہ حق ہوتا ہی وہے جو ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ چاہے مخالفین کچھ بھی کرلیں۔
جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ،اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔

یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں "مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام" کی آواز قلوب و اذہان کو منور کر رہی ہے۔ پوری دنیا میں عزتِ مصطفیٰﷺ کی بدولت عظمتِ احمد رضا کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ آج پوری دنیا کی یونیورسٹیز میں مختلف زبانوں میں آپ کی سیرت و تصانیف پر متعدد افراد ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں، اور کئی افراد کر رہےہیں، اور یہ علمی سفر جاری وساری ہے۔ (الحمدللہ علیٰ ذالک)

آپ کی ذات کی پہچان اور پوری حیات کا عرفان عشقِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔ آپ فنافی الرسول ﷺ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے دمِ آخرین اپنے عقیدت مندوں ، وارثوں ،اور تمام اہل سنت کو جو وصیت فرمائی اس کوحرزِ جان بنانے کی ضرورت ہے۔

آپ فرماتے ہیں: "جس سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی شان میں ادنیٰ توہین پاؤ پھر وہ تمھارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو فوراً اس سےجدا ہو جاؤ، جس کو بارگاہِ رسالت مآِب ﷺ میں ذرا بھی گستاخ دیکھو، پھر وہ کیسا ہی بزرگ و معظم کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو‘‘۔ (وصایا شریف)

وصال: بروز جمعۃ المبارک 25,صفرالمظفر 1340ھ، مطابق 28, اکتوبر 1921ء کو دن دو بج کر 38 منٹ پر عین اذانِ جمعہ میں اُدھر "حی علی الفلاح" کی پکار سنی ادھر روح پُرفُتوح نے "دَاعِیْ الی اللہ " کو لبیک کہا۔ آپ کا مزارِ پُر انوار بریلی شریف (انڈیا) میں مرجعِ خلائق ہے۔

 مبلغ اعظم حضرت علامہ شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی فرماتے ہیں:
تمھاری شان میں جوکچھ کہوں اس سے سوا تم ہو
قسیمِ جامِ عرفاں اے شہِ احمد رضا تم ہو

مآخذ و مراجع: حیات ِ اعلیٰ حضرت ، سوانح امام احمد رضا، سیرتِ اعلیٰ حضرت ، تاجدار بریلی نمبر۔


➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

اپنا کمینٹ یہاں لکھیں