Header Ads

امام احمد رضا اور تصور تعلیم / آخری / ساتویں قسط

امام احمد رضا اور تصوّرِ تعلیم
_(آخری {ساتویں} قسط)_

غلام مصطفیٰ رضوی 
نوری مشن مالیگاؤں

*انگریزی زبان سیکھنا:*
    اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے مطابق کسی بھی زبان کے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن مقصد دینِ اسلام کی اشاعت و تبلیغ ہو اور عقائد محفوظ و سلامت رہیں۔ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: 
’’ایسی انگریزی پڑھنا جس سے عقائد فاسد ہوں اور جس سے علماے دین کی توہین دل میں آئے، انگریزی ہو خواہ کچھ ہو ایسی چیز پڑھنا حرام ہے۔‘‘ ۲۵؎
    ایک مقام پر اس سوال کے ضمن میں کہ: انگریزی پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ ارشاد فرمایا:
    ’’ذی علم مسلمان اگر بہ نیت ردِ نصاریٰ انگریزی پڑھے اجر پائے گا، اور دُنیا کے لیے صرف زبان سیکھنے یا حساب اقلیدس جغرافیہ جائز علم پڑھنے میں حرج نہیں، بشرطیکہ ہمہ تن اس میں مصروف ہو کر اپنے دین و علم سے غافل نہ ہو جائے، ورنہ جو چیز اپنا دین و علم بقدرِ فرض سیکھنے میں مانع آئے حرام ہے، اسی طرح وہ کتابیں جن میں نصاریٰ کے عقائدِ باطلہ مثل انکار وجودِ آسمان وغیرہ درج ہیں ان کا پڑھنا بھی روا نہیں۔‘‘ ٢٦؎
*کالج کی تعلیم:*
    استعماری تحریکوں نے نصاب کو اپنے رنگ میں رنگنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، بلکہ مسلم ممالک کے نصاب پر بھی زعماے مغرب نے اپنی نظریں جما دی ہیں اور نصاب میں ترمیم و تنسیخ اور حذف و اضافہ کا عمل جاری ہے۔ کالجوں کے نصاب میں وہ نظریات و خیالات پڑھائے جا رہے ہیں جن سے عقائد کی تباہی کا خطرہ لاحق ہے۔ اور اس کے واسطے مادی ذرائع کو بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی طرز کی کوشش انگریزی دورِ حکومت میں بھی ہوئی تھی اور کالجوں کی اِمداد کے لیے شرط یہ تھی؛ جسے پروفیسر حاکم علی نقشبندی (م۱۹۲۵ء) اسلامیہ کالج لاہور کے الفاظ میں دیکھیں، جو آپ نے امام احمد رضا کی خدمت میں لکھ بھیجے:
    ’’ اول تو امداد میں اس قسم کی شرط ہوتی ہے کہ کالج کا پرنسپل اور ایک دو پروفیسر انگریز ہوں، دوسرے مقررہ کورس پڑھائے جائیں، جن میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ خلافِ اسلام باتیں ہوتی ہیں، بلکہ بعض میں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ الفاظ لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔‘‘
    اس کے جواب میں امام احمد رضا نے لکھا کہ: 
’’بے شک جو اس قسم کے اسکول یا کالج ہوں ان میں نہ فقط اخذِ امداد بلکہ تعلیم و تعلّم سب حرام قطعی مستلزم کفر ہے۔‘‘ ۲۷؎
    آپ کالج کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں، ساتھ ہی شریعت پر عمل کا اہتمام بھی اَشد ضروری قرار دیتے ہیں، ایک مقام پر رقم طراز ہیں:
    ’’کالج اور اس کی تعلیم میں جس قدر بات خلافِ شریعت ہے اس سے بچنا ہمیشہ فرض تھا اور ہے، جہاں تک مخالفتِ شرع نہ ہو اس سے بچنا کبھی بھی فرض نہیں۔‘‘ ۲۸؎
*خلاصۂ کلام:*
    تعلیم و تعلّم کے بارے میں امام احمد رضا کے نظر یات واضح اور روشن ہیں۔ آپ ایک اسلامی مفکر اور ماہرِ تعلیم ہونے کی حیثیت سے تعلیم کا مقصد دین کی اشاعت و تبلیغ اور حق و صداقت کا فروغ متعین فرماتے ہیں، اسی لیے تعلیم کا محور ’’دین اسلام‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ آپ کے تعلیمی نظریات پر یونیورسٹی سطح پر درجنوں تحقیقی مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں، ایسے علمی کاموں کی ایک فہرست راقم نے مرتب کی جو ہند و پاک سے مطبوع ہے- اور تحقیق و ریسرچ کا سفرِ شوق ہنوز جاری ہے، جس کی منزل دکھائی نہیں پڑتی۔ نئے نئے زاویے سامنے آرہے ہیں اور ذہن کے دریچے کھل رہے ہیں- راقم نے اس مقالہ میں صرف بعض گوشوں کو حیطۂ تحریر میں لانے کی کو شش کی ہے، دورانِ تحقیق موضوع کی وسعت کا اندازہ ہوا کہ اس موضوع پر: سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے... 
    امام احمد رضا نے تعلیم و تعلّم، درس و تدریس، نصاب و تربیت اور ان کے متعلقات پر جو باتیں اپنی تصانیف اور فتاویٰ میں درج کی ہیں، ضرورت ہے کہ ان بکھرے ہوئے موتیوں کو یکجا کر دیا جائے، تا کہ نظامِ تعلیم میں ان سے استفادہ کیا جاسکے۔ امام احمد رضا کی دینی و علمی اور تعلیمی خدمات کا تجزیہ مطالعہ کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ مطالعہ خیر و شر کے فرق کو واضح کرتا ہے اور حقائق کو واشگاف کرتا ہے۔ 
    استعماری قوتوں نے مسلمانوں کے علم و فن سے رشتے کو کمزور کرنے کے لیے ایسے نصاب تشکیل دے لیے جن سے اسلامی سوچ و فکر میں واضح تبدیلی آئی۔ عقائد میں انتشار برپا ہوا۔ 
    آنربیل ایم نفنسٹن اور آنربیل ایف وارڈن نے ۱۸۲۳ء/ ۱۲۳۸ھ کو جو ایک متفقہ یادداشت (انگریز) گورنمنٹ کو پیش کی تھی، اس سے بھی مغربی نظامِ تعلیم کے اجرا کے استعماری مقاصد عیاں ہوتے ہیں۔ اس یادداشت کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
    ’’ہماری فتوحات کی نوعیت ایسی ہے کہ اس نے نہ صرف ان کی عملی ترقی کی ہمت افزائی کے لیے تمام ذرائع کو ہٹایا ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ قوم کے اصلی علوم بھی کم ہوجانے کا اندیشہ ہے، اس الزام کو دور کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔‘‘ ۲۹؎
    امام احمد رضا محدث بریلوی نے اپنے تعلیمی تصورات (جن کی بنیاد مضبوط ومستحکم اسلامی عقائد و تعلیمات پر ہے) کو مقصدیت سے جوڑ کر تعمیرِ شخصیت کا واضح اُصول مقرر فرما دیا، وہ یہ کہ علومِ جدیدہ ہوں یا دیگر علوم و فنون وہ اسلامی فکر و خیال کو پروان چڑھاتے ہوں، اور حق شناسی کا جوہر عطا کرتے ہوں، ان کا حصول بلاشبہہ کیا جانا چاہیے۔ آج ضرورت ہے کہ امام احمد رضا کے پیش کردہ تعلیمی افکار، تجاویز کو فروغ دیا جائے تا کہ مسلمانوں کے تعلیمی انحطاط و زوال کی تیرگی دور ہو اور سویرا نمودار ہو:
تُو مِری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
تِرے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی
 
*حوالہ جات:*
(۲۵)     احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ (قدیم) جلد ٦، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی، ص۲۴
(٢٦)    یادگار رضا ۲۰۰۵ء سالنامہ، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی، ص ٢٦
(۲۷)     احمد رضا خان، امام، المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنۃ، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی، ص ۱۹، ۲۷
(۲۸)     احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ (قدیم) جلد ٦، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی، ص ۱۷۱
(۲۹)     ماہنامہ ضیاے حرم لاہور، فروری ۲۰۰۱ء ، ص ۴۰۔۴۱

٭٭٭
*شذرہ:* مواد کثیر تھا اور طوالت کا خوف، اس لیے اختصار میں اور محض سات قسطوں میں تجزیہ پیش کیا گیا، مزید متعلقاتِ علم و تعلیم پر پھر کبھی سلسلہ وار لکھا جائے گا... (١٥ مئی ٢٠٢٢ء)

+91 9325028586
noorimission92@gmail.com


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے