Header Ads

امام احمد رضا اور تصور تعلیم قسط ششم

امام احمد رضا اور تصور تعلیم 

قسط ششم 

غلام مصطفیٰ رضوی 
نوری مشن مالیگاؤں

*علومِ عقلیہ و سائنس کی تحصیل:*
    اسلام کے نزدیک ان تمام علوم کا حاصل کرنا اور درس لینا جائز ہے جو حدودِ شرع میں ہوں اور مُضر نہ ہوں- ماہرینِ تعلیم نے تعلیمی نظریات کو تین خانوں میں تقسیم کیاہے:
(۱) اشتراکی         
(۲) جمہوری     
(۳) اسلامی
    اشتراکی نظامِ تعلیم مادیت پہ بحث کرتا ہے- اس میں مذہب کے لیے کوئی جگہ نہیں، جمہوری نظامِ تعلیم مملکت میں بسنے والے تمام مذاہب میں مساوات اور تہذیبی اشتراک کو مدِ نظر رکھ کر تشکیل پاتا ہے، عموماً اس میں مذہبی تعلیم کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، لہٰذا ان دونوں نظام ہاے تعلیم میں مذہبی روح کا پاس و لحاظ نہیں۔ اسلامی نظامِ تعلیم میں انسانی زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرلیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ گود سے گور تک تعلیم و تربیت کا اہتمام اسلام نے کررکھا ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ تشنہ اور محروم نہیں۔ اسلام! جہالت، جور و ستم، منافرت و عداوت جیسے غیر انسانی رویوں کا خاتمہ کر کے ایک ذمہ دار شہری تیار کرتا ہے۔ 
    علم کے ساتھ اُصول و قانون اور ضابطہ کا ہونا لازمی و ضروری ہے۔ علم کے دو رُخ ہیں۔ منفی و مثبت۔ قانون و ضابطہ راحت و طمانیت کو راہ دیتا ہے؛ اس کی صورت مثبت پہلو کے قیام سے یقینی ہے، مثلاً سائنس کو دیکھیں اسے انسانی زندگی کی بقا و آسائش کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور جوہری توانائی کو اسیر بنا کر آبادیوں میں منتشر کر کے حیاتِ انسانی کے خاتمہ کے لیے بھی، اسلام ہر علم کے لیے قانون فراہم کرتا ہے اور سلامتی کے پیغام کو فائق رکھتا ہے۔ 
    امام احمد رضا تمام علوم کو دینِ حق کے زاویے سے دیکھتے تھے۔ آپ کے نزدیک انہیں علوم کی تعلیم دی جائے جو دین و دُنیا میں کام آئیں، غیر مفید اور غیر ضروری علوم کو نصاب سے خارج کردیا جائے۔ 
    سائنس و فلسفہ جو اشتراکی و جمہوری نظام ہاے تعلیم کے زیرِ اثر پروان چڑھتے ہیں؛ عموماً ان میں مذہب کی رو رعایت نہیں ہوتی۔ ایسے ایسے نظریات پڑھاے جاتے ہیں جو مذہبی اُصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے اور فکری انتشار کو راہ دیتے ہیں۔ امام احمد رضا ایسے علم کو مُضر قرار دیتے ہیں اور اسے ’’علم‘‘ تسلیم نہیں کرتے، لکھتے ہیں:
    ’’ ہیہات ہیہات (افسوس افسوس) اسے علم سے کیا مناسبت، علم وہ ہے جو مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ترکہ ہے، نہ وہ جو کفار یونان کا پس خوردہ۔ 
    اسی طرح وہ ہیئت جس میں انکارِ وجود آسمان و تکذیب گردش سیارات وغیرہ کفریات و اُمور مخالفِ شرع تعلیم کیے جائیں وہ بھی مثل نجوم حرام و ملوم اور ضرورت سے زائد حساب یا جغرافیہ وغیرہما داخلِ فضولیات ہیں۔‘‘۱۹؎
    برطانوی انگریز نو مسلم ڈاکٹر محمد ہارون (م۱۹۹۸ء) نے اپنے مقالہ ’’امام احمد رضا کی عالمی اہمیت‘‘ میں یہ تاثر دیا ہے کہ:’’آپ کا نظریہ تھا کہ سائنس کو کسی طرح بھی اسلام سے فائق اور بہتر تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی اسلامی نظریے، شریعت کے کسی جُز یا اسلامی قانون سے گلو خلاصی کے لیے اس کی کوئی دلیل مانی جاسکتی ہے۔ اگر چہ وہ خود سائنس میں خاصی مہارت رکھتے تھے لیکن اگر کوئی اسلام میں سائنس سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے کوئی تبدیلی لانا چاہتا تھا آپ اسے ٹھوس علمی دلائل سے جواب دیتے تھے۔‘‘۲۰؎
    امام احمد رضا قرآن عظیم سے فیض پاتے، احادیث نبوی سے اکتساب کرتے اور انہیں کی روشنی میں علوم کو جانچتے اور پرکھتے۔ جس کو ان کے مطابق پاتے تسلیم کرتے اور جسے مخالف پاتے اس کی شدت سے مخالفت کرتے؛ اس میں کسی طرح کی لچک کے قائل نہ تھے۔ آپ سائنس کو قرآن مقدس کی روشنی میں پرکھنے کے قائل تھے۔ اس لیے آپ سائنس کی تعلیم کی مشروط اجازت دیتے ہیں کہ:  
  ’’سائنس اور مفید علومِ عقلیہ کی تحصیل میں مضائقہ نہیں مگر ہیئتِ اشیا سے زیادہ خالق اشیا کی معرفت ضروری ہے۔‘‘۲۱؎
     ایک مقام پرتحریر فرماتے ہیں:
    ’’مطلقاً علومِ عقلیہ کی تعلیم و تعلّم کو ناجائز بتانا یہاں تک کہ بعض مسائلِ صحیحہ مفیدہ عقلیہ پر اشتمال کے باعث توضیح و تلویح جیسے کتبِ جلیلہ عظیمہ دینیہ کے پڑھانے سے منع کرنا سخت جہالت شدیدہ و سفاہت بعیدہ ہے۔‘‘۲۲؎
    امام احمد رضا ضروریاتِ دین کاعلم حاصل کر لینے کے بعد دیگر علوم کو حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور ان علوم کے حصول کو مباح قرار دیتے ہیں جن سے واجب شرعی میں خلل نہ آئے۔ آپ لکھتے ہیں: 
    ’’ہاں جو شخص ضروریاتِ دین مذکورہ سے فراغت پا کر اقلیدس، حساب، مساحت، جغرافیہ وغیرہا وہ فنون پڑھے جن میں کوئی امر مخالف شرعی نہیں تو ایک مباح کام ہوگا؛ جب کہ اس کے سبب کسی واجب شرعی میں خلل نہ پڑے۔‘‘ ۲۳؎
     ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں:
    ’’اگر جملہ مفاسد سے پاک ہو تو علومِ آلیہ مثل ریاضی و ہندسہ و حساب و جبر و مقابلہ و جغرافیہ و امثال ذٰلک ضروریاتِ دینیہ سیکھنے کے بعد سیکھنے کی کوئی ممانعت نہیں، کسی زبان میں ہو اور نفسِ زبان کا سیکھنا کوئی حرج رکھتا ہی نہیں۔‘‘ ۲۴؎

*حوالہ جات:*
(۱۹) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد ۲۳، مطبوعہ برکات رضا پوربندر گجرات، ص ٦۲۸۔٦٢٩
(۲۰) محمد ہارون، ڈاکٹر، امام احمد رضا کی عالمی اہمیت، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں، ص ۸۔۹
(۲۱) محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر، دارالعلوم منظرِ اسلام، مطبوعہ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی ۲۰۰۱ء، ص ۱۰
(۲۲) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد ۲۳، مطبوعہ برکات رضا پوربندر گجرات، ص ٦٣٤
(۲۳) ایضاً، ص ٦٤٨
(۲۴) ایضاً ، ص ٧٠٦
***
(بقیہ آئندہ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے