Header Ads

انا مدینۃ العلم وابوبکر اساسھا ، وعمر حیطانھا ، وعثمان سقفھا ، وعلی بابھا

انا مدینۃ العلم وابوبکر اساسھا ، وعمر حیطانھا ، وعثمان سقفھا ، وعلی بابھا

از قلم ✍: شیخ الحدیث مفتی محمد حسان عطاری دامت برکاتہم العاليه۔

حدیثِ پاک :انا مدینۃ العلم وابوبکر اساسھا ، وعمر حیطانھا ، وعثمان سقفھا ، وعلی بابھا ۔
 میں علم کا شہر ہوں ، ابوبکر اس کی بنیاد ، عمر دیواریں ، عثمان چھت اور علی دروازہ ہیں ضعیف ہے موضوع نہیں ۔  
علامہ جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : آدمی کو بغیر علم کے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں کلام کرنے سے ڈرنا چاہیے ، اور اس فن کی تحصیل میں مسلسل کوشش کرنا چاہیے حتی کہ اسے اس فن میں مہارت ورسوخ حاصل ہو ، اور اسے تبحر حاصل ہو اس کے بغیر کلام کرنے والا کہیں اس حدیث کے حکم میں داخل نہ ہوجائے کہ جو بغیر علم کے کلام کرتاہے اس پر اللہ تعالی اور ملائکہ کی لعنت ہے ، اور وہ اس دھوکہ میں نہ رہے کہ دنیا میں تو کوئی ایسا نہیں جو اس پر انکار کرنے والا ہو ، لیکن موت کے بعد اس کو معلوم ہوجائے گا یا تو قبر میں یا پل صراط پر ، اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم وہاں اس کے مقابل ہوں گے اور اس سے گویا یوں فرمائیں گے کہ تو نے میری حدیث کے بارے میں کیسے بغیر علم کے جرأ ت کی اور کلام کیا یا تو یوں فرمائیں گے کہ تو نے اس بات کو رد کیا جو میں نے فرمائی تھی یا تو نے میری طرف ایسی بات کی نسبت کی جو میں نے فرمائی نہ تھی، کیا تو نے مجھ پر اترے ہوئے قرآن میں یہ نہ پڑھا تھا کہ اس کے درپے نہ ہو جس کا تجھے علم نہیں بیشک سمع بصر دل ان میں سے ہر ایک سوال کیا جائے گا، پس اس دن بڑی خرابی ہے اور بڑی رسوائی ہے یہ بھی اس صورت میں جب کہ ایمان پر خاتمہ ہوا ،ورنہ تو اور خرابی ہے ، بہت سے گناہ وہ ہوتے ہیں جس پر سوئے خاتمہ کی وعیدیں ہیں ۔ امام محی الدین قرشی حنفی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب تذکرہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے نقل کرتے ہیں اکثر لوگوں کا ایمان موت کے وقت ضائع ہونے کا سبب ظلم ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں بغیر علم کے گفتگو کرنے کی جرات سے بڑھ کر کونسا ظلم ہوگا ۔ ہم اللہ تعالی سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔ بلوغ المأمول فی خدمة الرسول ضمن الحاوي للفتاوي ج2، ص137، 138 دارلفکر 
فقیہ اعظم ہند حضرت مفتی شریف الحق امجدی صاحب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : جس طرح حدیث گڑھنا حرام ہے اسی طرح کسی حدیث کا انکار بھی گمراہی ہے ، اس لیے اس معاملےمیں دونوں طرف کافی احتیاط کی ضرورت ہے ۔نزهة القاري شرح صحيح البخاري جلد ١ صفحه ٤٥٠ 
بعض محدثین نے جب اس میں غفلت برتی تو اس پر ائمہ حدیث نے سخت تنبیہ فرمائی ، اور اسے راہ راست سے دور ہونا ارشاد فرمایا ۔
امام محمد بن عبد اللہ بہادر الزرکشی رحمۃ اللہ تعالی علیہ(ت۷۹۴ھ) اپنی کتاب اللآلي المنثورة لکھنے کی ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ : وربما نفاه بعض أهل الحديث لعدم اطلاعه عليه، والنافي له كمن نفى أصلا من الدين، وضل عن طريقه المبين 
یعنی بعض اوقات کچھ محدثین کسی حدیث پر عدم اطلاع کی وجہ سے اس حدیث کی نفی کردیتے ہیں ۔ اور ایسی ثابت حدیث کی نفی کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو دین کی ایک اصل کا انکار کردیتا ہے ، اور واضح راستہ سے دور ہوجاتا ہے۔ اللآلي المنثورة في الأحاديث المشتهرة صفحه ٥ ، المكتب الإسلامي بيروت، ١٤١٧ھ الطبعة الأولى
 اس لیےاس جانب بھی بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ، کہ بلا تحقیق کسی حدیث کو موضوع نہ کہہ دیا جائے ،  
حدیث مذکور یعنی أنا مدينة العلم وابوبکر اساسھا پر اجلہ محدثین نے فقط ضعیف ہونے کا حکم دیا ہے ۔ 
حافظ ابن حجر ہیتمی مکی رحمہ اللہ تعالی علیہ سے اس حدیث کے حوالے سے سوال ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ارشاد فرمایا: رواه صاحب مسند الفردوس وتبعه ابنه بلا سند عن ابن مسعود رضي الله عنه مرفوعا وهو حديث ضعيف. اس حدیث کو صاحب مسند الفردوس اور ان کے بیٹے نے ان کی تبعیت میں بلا سند حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے، اور یہ حدیث ضعیف ہے ۔ الفتاوی الحدیثية صفحہ 192 مطبوعہ دار الفکر بیروت
حافظ نجم الدین محمد بن محمد الغزی رحمہ اللہ تعالی ، المتوفی ۱۰۶۱ھ اس مضمون کی دیگر احادیث اور مذکورہ حدیث دیلمی کے حوالے سے نقل کرکے فرماتے ہیں : كلها ضعيفة واهية . یعنی یہ سب شدید ضعیف حدیثیں ہیں 
اتقان ما يحسن من الاخبار الدائر ۃ علی الالسن صفحه ۱۲۶ مطبوعہ الفاروق الحدیثۃ قاہرہ 
 اسی طرح علامہ شمس الدین سخاوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے یہ حدیث دیلمی کے حوالے سے ذکر کی ہے اور یہ ارشاد فرمایا کہ امام دیلمی اور ان کے بیٹے نے اس حدیث کو بلا سند روایت کیا ہے۔ نیز اس باب کی دیگر احادیث کو نقل کرکے ارشاد فرمایا: وبالجملة فكلها ضعيفة وألفاظ أكثرها ركيكة وأحسنها حديث ابن عباس بل هو حسن خلاصہ یہ ہے کہ یہ تمام احادیث ضعیف اور ان کے الفاظ رکیک ہیں ، اور ان میں سب سے راجح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث ہے بلکہ وه حسن حدیث ہے۔ المقاصد الحسنۃ صفحہ 170 دار الکتب العربی
علامہ محمد بن اسمعیل عجلونی رحمۃ اللہ تعالی علیہ مقاصد حسنہ کی عبارت نقل کرکے فرماتے ہیں : وقال النجم: كلها ضعيفة واهية‘‘ یعنی نجم الدين الغزي کہتے ہیں : یہ تمام ضعیف اور واہی ہیں ۔
 کشف الخفاء جلد 1 صفحہ 236 رقم 618 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ 
   محدث احناف حضرت علامہ علی بن سلطان المعروف ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی نے بھی مسند الفردوس کے حوالے سے اس حدیث کو مرقاۃ المفاتیح میں نقل فرما کر مقرر رکھا ہے ۔ مرقاۃ المفاتیح جلد 10 صفحہ 470 مطبوعہ ملتان 
حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو مسندا ذکر کیا ہے ، اس کے راوی اسماعیل بن علی الواعظ پر سخت جروح موجود ہیں، لیکن خود اس کے حالات میں خاص اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی خطیب بغدادی کے حوالے سے لکھتے ہیں ثم قال شيخي أبو الفرج الإسفرايني ثم وجدت هذا الحديث بعد مدة في جزء على ما ذكره ابن المثنى فالله أعلم یعنی میرے شیخ ابو الفرج الاسفرائینی کہتے ہیں : پھر میں نے اس حدیث کو ایک مدت کے بعد ایک جزء میں اس طرح پایا جیسا کہ ابن المثنی نے ذکر کیاہے ۔
 (تاریخ دمشق ج ۹ ص ۲۰ مطبوعہ دار الفکر بیروت )
اس معنی کی ايك اورحديث حافظ ابن عساكر رحمہ الله تعالی نے حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: عن أنس بن مالك قال قال رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) أنا مدينة العلم وأبو بكر وعمر وعثمان سورها وعلي بابها فمن أراد العلم فليأت الباب اسے روایت کرنے کے بعد ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: منكر جدا إسنادا ومتنا یعنی یہ حدیث سند اور متن کے اعتبار سے سخت منکر ہے ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق جلد ۴۵ صفحہ ۳۲۱ مطبوعہ دار الفکر بیروت)
اور اہل علم پر مخفی نہیں کہ حدیث منکر موضوع نہیں ہوا کرتی ۔ 
ان اجلہ ائمہ کی تصریح سے یہ بات واضح ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، موضوع ہرگز نہیں ۔ 
 
گدائے در اہل بیت: ابو حمزہ محمد حسان عطاری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے