مسلم تاجروں میں حرص ولالچ کی کثرت
اور تجارت ومعیشت کی تباہی وبربادی
(1)کسٹمرز کو اپنی طرف مائل کرنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک اہم ذریعہ سامانوں کی قیمت میں کچھ معمولی سی کمی رکھنی ہے۔گراہک ایک دو روپے کی زیادتی کو بھی برداشت نہیں کر پاتے اور جہاں انہیں ایک دو روپے کم میں سامان ملتے ہوں,ادھر ہی کا رخ کرتے ہیں۔
ہندو تاجروں کے پاس کسٹمرز کو لبھانے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں,جب کہ مسلم تاجران کے پاس وہ آئیڈیاز نہیں ہوتے یا پھر وہ ان طریقوں سے جان بوجھ کر چشم پوشی کرتے ہیں۔وہ چند ہی کسٹمرز سے دن بھر کا خرچ نکال لینا چاہتے ہیں,حالاں کہ اگر وہ قیمت میں کچھ کمی رکھیں تو خریداروں کی کثرت ان کی طرف مائل ہو گی اور وہ خاطر خواہ منافع حاصل کر سکیں گے۔
(2)عام طور پر مسلم حضرات آٹو ریزرو کرنے کے واسطے مسلم آٹو ڈرائیور کو تلاش کرتے ہیں,لیکن مسلم آٹو ڈرائیور عام طور پر ہندو آٹو ڈرائیور سے دوگنا یا ڈیڑھ گنا کرایہ زیادہ لیتے ہیں۔
یعنی تاجروں سے لے کر آٹو ڈرائیورس تک کے مسلمان کثرت حرص کے شکار اور لالچ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ چند لوگوں سے ہی دن بھر کا خرچ نکالنے کی فکر میں غرق رہتے ہیں۔
(3)ایک حادثہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک عالم صاحب روڈ پر جا رہے تھے۔جوس بیچنے والے ایک مسلم شخص نے انتہائی پرتپاک انداز میں انہیں سلام کیا اور بہت ہی عقیدت ومحبت کے ساتھ انہیں کرسی پر بٹھا کر ایک گلاس جوس پیش کیا۔عالم صاحب نے سمجھا کہ شاید یہ کوئی ہمارے سناشا اور عقیدت مند ہیں۔جوس کا گلاس خالی ہوتے ہی جوس بیچنے والے نے انتہائی خندہ پیشانی اور محبت بھرے انداز میں کہا کہ چالیس روپے ہوئے,تب عالم صاحب کو سمجھ میں آیا کہ اس شخص نے بے وقت ہمارے جیب پر چالیس روپے کا بوجھ ڈال دیا ہے۔خیر اب کوئی چارۂ کار نہ تھا۔انہوں نے رقم ادا کی اور چل دیئے۔خدا نخواستہ اس عالم صاحب کے جیب میں بروقت چالیس روپے نہ ہوتے تو ان کو ذلت وشرم ساری سے دو چار ہونا پڑتا۔بلاشبہہ اس شخص نے اپنے جوس ہی کی قیمت لی تھی,لیکن اس طریق کار میں فریب ودغا بھی شامل ہے,اس میں ایک عالم کی شرم ساری کا بھی خطرہ موجود تھا۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:09:جولائی 2022
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں