بیوی کا اپنے شوہر پر سب کچھ اس کے حوالے کرنے کیلئے دباؤ بنانا اور بچوں کا اس دباؤ میں ماں کا ساتھ دینا شرعاً کیسا ہے

*🕯        «    احــکامِ شــریعت     »        🕯*
-----------------------------------------------------------
*📚بیوی کا اپنے شوہر پر سب کچھ اس کے حوالے کرنے کیلئے دباؤ بنانا اور بچوں کا اس دباؤ میں ماں کا ساتھ دینا شرعاً کیساہے؟📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
سوال
زید کی بیوی ہندہ کا کہنا ہے آپ جو کماتے ہیں وہ ساری کمائی مجھے لاکر دیں آپ اپنے پاس کچھ نہ رکھیں اور مجھے اپنے گھر کا مالک بنادیں جو میں فیصلہ کروں تو سب کو فیصلہ ماننا ہوگا, زید اپنی بیوی کو گھر کا مالک بناسکتا ہے یا نہیں, 
زید کی بیوی ہندہ کا کہنا ہے آپ اپنے بھائی والد کو چھوڑ دیں ان لوگوں سے بالکل رابطہ نہ رکھیں زید کے بچے لوگ بھی اپنی ماں کی بات میں ہاں سے ہاں ملاتے رہتے ہیں 
زید جانتا ہے کہ بھائی مجبور ہے والد ضعیف ہیں ان لوگوں کو تنہا کیسے چھوڑیں بیوی کی بات مانتا ہے تو بھائی اور والد کو چھوڑنا ہوگا 

مفتی صاحب قبلہ کوئی راستہ نکالیں کہ بیوی بھی خوش رہے اور بھائی کو اور والد کو چھوڑنا نہ پڑے 
سائل: جمیل برکاتی اورنگ آباد بہار
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب:*
*ہر شخص اپنے اموال و املاک اور کمائی کا خود مالک ہوتا ہے* 

*چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں*
*" كَلُّ أحَدٍ أحَقُّ بِمَالِهِ مِنْ وَّالِدِهِ وَ وَلَدِهِ وَالنَّاسِ أجْمَعِيْنَ "*
*📔(السنن الکبری للبیہقی ، کتاب النفقات ، باب نفقۃ الابوین ، رقم الحدیث:۱۵۷۵۳ ، ۷/۷۹۰ ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان ، الطبعۃالثانیۃ:۱۴۲۴ھ)*
ترجمہ: ہر شخص اپنے مال کا اپنے ماں باپ ، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ حقدار ہے ، 

*فلہذا جب زید اپنی کمائی کا مالک خود ہے تو اس پر لازم نہیں کہ اپنی کمائی لاکر بیوی کو دے ، وہ بس اتنے کا ہی مطالبہ کرسکتی ہے جتنے کا بطور نفقہ وہ مستحق ہے ، اور وہ ہے کھانا کپڑا اور مکان ، ساری کمائی لاکر دینے کا مطالبہ ناحق و ناجائز ہے* 

چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" هي ، لغة: ما ينفقه الإنسان على عياله. وشرعاً: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وغرفاً : ھی الطعام "*
*📔(الدرالمختار ، کتاب الطلاق ، باب النفقۃ ، ص۲۵۷ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی، لغت میں نفقہ کا معنی وہ چیز ہے جو انسان اپنی عیال پر خرچ کرے ، اور شرعاً کھانا ، کپڑا اور مکان کو کہاجاتاہے ، جبکہ عرفا کھانے کو نفقہ کہتے ہیں ،

*بیوی کا نفقہ بھی انسان پر واجب ہے*

چنانچہ امام شمس الدین محمد تمرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۴ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة زوجية وقرابة وملك فتجب للزوجة على زوجها "*
*📔(تنویر الابصار ، کتاب الطلاق ، باب النفقۃ ، ص۸۴ ، مطبعۃالترقی مصر ، الطبعۃالاولی: ۱۳۳۲ھ)*
یعنی، دوسرے کا نفقہ تین اسباب کی بنا پر واجب ہوتاہے ، زوجیت ، قرابت اور ملکیت ، فلہذا بیوی کا نفقہ شوہر پر واجب ہے ، 

*اور گھر کا مالک بنا دینے سے مراد اگر یہ ہےکہ زید سب کچھ اس کو ہبہ کردے اور اپنے باپ اور بیٹوں کو اپنی وراثت سے محروم کردے ، تو یہ بھی درست نہیں کہ آدمی اپنی زندگی میں بحالت صحت اگرچہ اپنے کل مال کا مالک دوسرے کو بنا دینے کا اختیار رکھتا ہے مگر بلاوجہ شرعی دوسرے وارثین کو محروم کرکے کسی ایک یا چند کو مالک بنا دینا باعث گناہ ہے ،*

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:*
*" مَنْ فَرَّ مِنْ مِّيْرَاثِ وَارِثِهِ قَطَعَ اللهُ مِيْرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "*
*📔(سنن ابن ماجہ ، کتاب الوصایا ،باب الحيف في الوصية ، رقم الحدیث: ۲۷۰۳ ، ص۲۹۴ ، بیت الافکار ریاض)*
ترجمہ: جو اپنے وارث کی میراث سے بھاگے اللہ تعالی روز قیامت اس کی میراث جنت سے قطع فرمادے ،

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" ان کی یہ درخواست مہمل و نا قابل سماعت ہے اول تو حیات مالک میں اس مال کا کوئی وارث نہیں اور بعد موت کب معلوم کون زندہ ہو گا کون مردہ، اور اگر عورت کے بعد پوتا اور بھتیجے سب باقی رہے تو پوتا ہی وارث ہوگا۔ بھتیجے اس کے ہوتے کچھ نہ پائیں گے تو محجوب الارث خود بھیجے ہوں نہ کہ پوتا۔ پوتا اپنے دادی داد کا خود وارث ہے نہ بواسطہ پدر کہ ان کے پہلے مر جانے سے محجوب الارث ہو جاۓ ، یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ عورت کو ہر گز جائز نہیں کہ پوتے کو محروم کرنے کے لئے اپنامال بھتیجوں کو لکھ دے "*
*📔(فتاوی رضویہ ، کتاب الفرائض ، رقم المسئلۃ:۲۷ ، ۲۶/۹۸ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

*اور اگر گھر کا مالک بنا دینے کا یہ مطلب ہےکہ اصلا مالک تو زید ہی رہےگا مگر جملہ اختیارات و حاکمیت اس کی بیوی کی ہوگی جیساکہ سوال میں بیوی کے اس جملے " جو میں فیصلہ کروں تو سب کو فیصلہ ماننا ہوگا " سے ظاہر ہے ، تو یہ بھی شرعاً روا نہیں کہ اللہ رب العزت نے حاکم مرد کو بنایاہے نہ کہ عورت کو ،*
*اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے*
*" اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ "*
*📔(القرآن الکریم ، ۴/۳۴)*
ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے ،

*اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:*
*" «لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أمْرَهُمْ اِمْرَأةً» "*
*📔(صحیح بخاری ، کتاب المغازی ، باب كتاب النبي ﷺ إلى كسرى وقيصر ، رقم الحدیث:۴۴۲۴ ، ص۱۰۸۶ ، دار ابن کثیر ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۳ھ)*
ترجمہ: وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی جو کسی عورت کو اپنا حاکم بنائیں ،

*اور دوسری حدیث پاک میں ہے:*
*" وَأُمُورُكُمْ إِلَى نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ ظَهْرِهَا "*
*📔(سنن ترمذی ، كتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ ، رقم الباب : ۷۸ ، رقم الحدیث: ۲۲۷۳ ، ص۶۶۱ ، دارالفکر بیروت ، طبعۃ:۱۴۲۵ھ)*
ترجمہ: اور تمہاری سربراہی و حکمرانی عورتوں کے سپرد کردی جائے تو تمہارے لیے زمین کے اوپر رہنے سے قبر میں چلے جانا بہتر ہوگا ، 

*نیز مذکورہ عورت کا اپنے شوہر پر باپ اور بھائی سے قطع تعلق کا دباؤ ڈالنا سراسر غیرشرعی اور ظلم و زیادتی ہے ، جس کی شریعت کسی طور اجازت نہیں دیتی*

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:*
*" لا يدخل الجنة قاطع» "*
*📔(صحیح بخاری ، کتاب الادب ، باب إثم القاطع ، رقم الحدیث: ۵۹۸۴، ص۱۵۰۳)*
ترجمہ: رشتہ داری کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا

*دوسری حدیث پاک میں ہے:*
*" إن الرحم شجنة من الرحمن ، فقال الله : من وصلك وصلته ، ومن قطعك قطعته» "*
*📔(ایضا ، باب من وصل وصله الله ، رقم الحدیث: ۵۹۸۸،ص۱۵۰۴)*
ترجمہ : رحم ( رحمن سے ملی ہوئی ) شاخ ہے،اللہ تعالی نے فرمایا: جو تجھ سے وصل کرے گا میں اس سے پہل کروں گا اور جو تجھ سے قطع کرے گا میں اس سے قطع کروں گا ،

*زید کیلئے جائز نہیں کہ بیوی کے دباؤ کی وجہ سے اپنے باپ اور بھائی کو چھوڑ دے ، اگر وہ بیوی اور بچوں کے حقوق ادا کرتا ہے تو یاد رکھے کہ اس کی بیوی اس کی جنت نہیں بلکہ اس کا باپ اس کی جنت ہے*

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:*
*" هُمَا جَنَّتُكً وَنَارُكَ "*
*📔(سنن ابن ماجہ ، کتاب الادب ، باب برالوالدین ، رقم الحدیث: ۳۶۶۲ ، ص۳۹۳ ، بیت الافکار)*
ترجمہ: ماں باپ تمہاری جنت و دوزخ ہیں ،

*خبردار ! بیوی کو راضی کرنے میں باپ کو ناراض ہرگز نہ کرے ،*

*زید کے بچوں پر لازم ہے کہ جہاں ماں کی فرمانبرداری کریں وہیں باپ کی اطاعت بھی لازم جانیں ، کہ اگر ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ہے ،*

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:*
*" اَلْوَالِدُ أوْسَطُ أبْوَابِ الْجَنَّةِ فأضِعْ ذالِكَ الْبَابَ أوْ اِحفَظْهُ "*
*📔(ایضا ، رقم الحدیث:۳۶۶۳)*
ترجمہ: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو ،

*زید کی اولاد یہ بات خوب یاد رکھے کہ ماں کی بات بھی اسی وقت مانی جائےگی جب تک اس میں باپ کی نافرمانی نہ ہو ،* 

*اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:*
*" وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ-وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا "*
*📔(القرآن الکریم ، ۲۹/۸)*
ترجمہ:اور ہم نے آدمی کو تاکید کی اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کی اور اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہا نہ مان ،

*دوسری جگہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے:*
*" وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪ "*
*📔(القرآن الکریم، ۵/۲)*
ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو ،

*اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:*
*" «السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكرہ ما لم يؤمر بمعصية، فإن أمر بمعصية فلا سمع عليه ولاطاعۃ » "*
*📔(الجامع للترمذی ، کتاب الجہاد ، باب ما جاء لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ، ص۵۱۸ ، دارالفکر بیروت ، طبعۃ : ۱۴۲۵ھ)*
ترجمہ : مسلمان شخص پر (اپنے امیر کا حکم ) سننا اور عمل کرنا واجب ہے چاہے اسے پسند ہو یا ناپسند ، جب تک کہ گناہ کا حکم نہ دیا جائے ۔ اور اگر گناہ کا حکم دیا جائے تو پھر کوئی سمع و طاعت نہیں ، 

*اور زید کی بیوی یاد رکھے کہ اس جنت شوہر کی رضامندی میں ہے ،*

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:*
*" «أيُّمَا اِمْرَأةٍ بَاتَتْ وَ زَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ، دَخَلَتِ الْجَنَّةَ» "*
*📔(جامع ترمذی ، کتاب الرضاع عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ماجآء فی حق الزوج علی المراۃ ، رقم الحدیث: ۱۱۶۴ ، ص۳۵۵)*
ترجمہ: عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی ،

*آج ہوسکتاہے کہ اپنے بچوں کو ورغلا کر یا کسی اور طاقت کی بنیاد پر شوہر کو یوں مجبور کردے ، مگر ایک دن اسے بھی موت أئےگی اور نہ وہ رہےگی نہ اس کی کوئی طاقت ، ہر ظلم ، ہر زیادتی اور ہر نافرمانی کا اسے حساب دینا پڑےگا*

*اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:*
*" اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا "*
*📔(القرآن الکریم ، ۱۷/۳۶)*
ترجمہ:بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا ،

*خلاصہ کلام یہ کہ سوال میں مذکور تمام باتیں غیرشرعی و ناجائز ہیں ، زید کی بیوی پر لازم ہےکہ ان باتوں سے باز رہے اور زید کے بچوں پر بھی فرض ہےکہ شرعاً ناجائز باتوں میں اپنی ماں کا ساتھ نہ دیں*

*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*✍🏻کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:*
*محمد شکیل اختر قادری برکاتی، شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*

*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: عبدہ محمد عطاء اللہ النعیمی عفی عنہ ٫خادم الحدیث والافتاء بجامعۃ النور٫ جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح:عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ,دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب مصیب:فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی رئیس دارالافتاء ھاشمیہ کراچی*
*✅الجواب صحیح:ابو ثوبان محمد کاشف مشتاق عطاری نعیمی ،دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
*✅الجواب صحیح:محمد مہتاب احمد النعیمی غفرلہ ، دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
*✅الجواب صحیح:ابوالضیاء محمد فرحان القادری النعیمی ، دارالافتاء الضیائیۃ بالجامعۃ الغوثیۃ الرضویۃ کراتشی*
*✅الجواب صحیح:فقیر محمد قاسم القادری اشرفی نعیمی غفرلہ ولوالدیہ ، شیش جراہ ببلدۃ بریلی الشریفۃ و خادم غوثیۃدارالافتاء کاشی بور اتراکھند الھند*
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے