مطلقہ عورت کو حالت عدت میں نکاح کرنا کیسا
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
علمائے اہل سنت و مفتیان اکرام کی بارگاہ میں مسئلہ عرض ہے کہ ایک شخص نے بیوی اپنی کو ۳ طلاق دی ابھی عدت نہیں پوری ہوئی کہ نکاح پڑھا دیا کسی نے
عرض یہ ہے کہ نکاح ہوا یہ نہیں اور نکاح پڑھانے والے اور گواہوں کا اور وکیل کا بھی نکاح ٹوٹ گیا ۔
جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
*🌹سائل ۔۔۔ محمد عمر رضا قادری۔ خادم ۔مدرسہ گلشن رضا نوری مقام چھبہ پوروہ مجگئیں ضلع کھیری لکھیم پور یوپی*🌹
*وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ*
*👇📝الجـــوابــــــــ👇 : کسی شخص کے لیے عورت سے اس کی عدت میں نکاح کرنا خواہ طلاق رجعی کی عدت ہو یا طلاق بائن کی عدت ہو یا وفات کی عدت ہو حرام ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا "*
*🏷وَ لااَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَه*
*یعنی اور نکاح کی گرہ پختہ نہ کرو یہاں تک کہ لکھا ہوا حکم اپنی مدت کو پہنچ جائے " اھ*
*📕( پ 2 سورہ بقرہ آیت 237 )*
*اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے عورت کی عدت میں اس کے ساتھ نکاح کا عقد کرنے سے منع فرمایا ہے عدت میں عورت کے ساتھ نکاح کرنے سے روکنا اس کے حرام ہونے کی دلیل ہے۔*
*نکاح تو بعد کا مسئلہ ہے شریعت اسلامیہ میں عورت کی عدت میں اسے واضح طور پر نکاح کا پیغام بھیجنا بھی حلال نہیں ۔ رسول اللہ نے فاطمہ بنت قیس سے کہا تھا (جب انہیں تینوں طلاقیں ہو چکیں) جب تمہاری عدت گزر جائے تو مجھے اطلاع دینا جب فاطمہ بنت قیس نے عدت گذرنے کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا " اسامہ سے نکاح کرلو " اھ یعنی رسول اللہ نے فاطمہ کو ان کی عدت کے دوران میں نکاح کے پیغام تک کی بات بھی نہیں کی اور انہیں عدت مکمل ہونے پر رسول اللہ کو اطلاع دینے کا کہا اور عدت مکمل ہونے پر اسامہ سے نکاح کا پیغام دیا " اھ*
*📚 ( صحیح مسلم کتاب الطلاق باب المطلقة البائن لا نفقة لھا، حدیث نمبر 1480)*
*📿جب صراحتاً نکاح کے پیغام (منگنی) کی اجازت نہیں تو عدت میں نکاح کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ " وقد اجمع العلماء علی انه لا یصح العقد فی مدۃ العدۃ ) تفسیر ابن کثیر تمام علماء کا اجماع ہے کہ عدت کے دوران میں نکاح صحیح نہیں ہے ۔ اور ابن رشد فرماتے ہیں کہ " واتفقوا علی ان النکاح لا یجوز فی العدۃ أکانت عدۃ الحیض او عدۃ حمل او عدۃ اشھر " اھ یعنی تمام اہل علم متفق ہیں کہ عدت میں نکاح جائز نہیں عدت خواہ حیض کی ہو یا حمل کی ہو یا مہینوں کی ہو " اھ*
*📘(بدایۃ المجتہد کتاب النکاح فصل11 فی مانع العدۃ صفحہ 472 )*
*اور حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ " ہندہ کے شوہر نے حالت حمل میں طلاق دی تو اس کی عدت وضع حمل ہے قال الله تعالى "*
*و اولات الاحمال اجلهن و يضعن حملهن " اھ*
*📙( پ 28 سورہ طلاق )*
*لہذا نکاح مذکور حالت حمل میں جائز نہ ہوا ہندہ پر لازم ہے کہ بکر سے الگ رہے اس کے ساتھ میاں بیوی کے تعلقات ہرگز قائم نہ کرے پھر بچہ پیدا ہونے کے بعد جس سنی صحیح العقیدہ سے چاہے نکاح کرسکتی ہے اور ناجائز نکاح پڑھانے کے سبب نکاح پڑھانے والے کا نکاح نہیں ٹوٹا البتہ اس پر لازم ہے کہ نکاح مذکور کے ناجائز ہونے کا اعلان عام کرے علانیہ توبہ و استغفار کرے اور نکاحانہ پیسہ بھی واپس کرے نکاح پڑھنے والا اگر اس نکاح کے ناجائز ہونے کا اعلان نہ کرے یا علانیہ توبہ و استغفار نہ کرے یا نکاحانہ پیسہ واپس نہ کرے تو مسلمان سختی کے ساتھ بائیکاٹ کریں " اھ*
*🔰 ( فتاوی فیض الرسول ج 2 ص 303 )*
*📤لہذا مذکورہ بیان سے معلوم ہوا کہ عدت کے دوران میں اگر نکاح کیا تو وہ نکاح باطل ہوگا اور ان دونوں کا فوراً ایک دوسرے سے علیحدہ ہونا لازم و ضروری ہے ۔ اور معلوم ہوتے ہوئے جتنے لوگ اس نکاح شامل تھے سب توبہ استغفار کریں اور اگر معلوم نہیں تھا تو کوئی بات نہیں ۔*
*🌹واللہ اعلم بالصواب🌹*
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
*✍شرف قلم حضرت علامہ و مولانا کریم اللہ رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی*
*۳۲ اکتوبر بروز مـنـگـل ۲۰۱۸*
📞+917666456313
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں