-----------------------------------------------------------
*📚اپنی نوکری دوسرے کو دے کر ہر ماہ آدھی تنخواہ لینے کا معاہدہ کرنا شرعاً کیساہے؟📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نوکری کر رہا تھا کچھ دنوں بعد زید نے اپنی نوکری بکر کو اس شرط پر دے دی کہ جو بھی تنخواہ آئیگی اس میں سے دونوں کا برابر حصہ ہوگا..
دریافت طلب امر یہ ھیکہ زید کا اس طرح بکر سے معاہدہ کرنا شرعا درست ھے یا نہیں.
اور کیا زید کے لئے وہ پیسہ لینا شرعا ٹھیک ھے یا نہیں ؟
بحوالہ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
*سائل: فیروزعالم ، بہار ، الھند*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب:*
*صورت مسئولہ میں پہلے یہ بات یاد رہےکہ عموما کمپنیوں ، فیکٹریوں اور کاروباری اداروں میں جن ملازمین کو ملازمت دی جاتی ہے وہ ان کی ذہانت ، تجربہ وغیرہ کی بنیاد پر دی جاتی ہے ، اور مالک چاہتا ہے اس کے سپرد جو کام ہے اسے وہی انجام دے*
*فلہذا ایسی صورت میں بلااجازت مالک اپنی نوکری دوسرے کو نہیں دی جاسکتی کہ مالک اس کے کام اور ملازمت سے راضی ہے نہ کہ دوسرے کے کام سے ،*
چنانچہ امام فخرالدین زیلعی حنفی متوفی ۷۴۳ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" (ولا یستعمل غيره ان شرط عملہ بنفسہ ) أی لیس للاجیر ان یستعمل غیرہ اذا شرط عليه أن يعمل بنفسه لان المعقود عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه "*
*📔(تبیین الحقائق ، کتاب الاجارۃ ، ۵/۱۱۲ ، مطبوعۃ: المطبعۃالکبری مصر ، الطبعۃالاولی:۱۳۱۵ھ)*
یعنی ، جب مالک نے خود اس کے کام کرنے کی شرط لگائی تو اجیر اپنی جگہ دوسرے کو استعمال نہیں کرسکتا ، اسلئے کہ عقد اجارہ محل معین سے کام پر ہوا ہے فلہذا دوسرا اس کے قائم مقام نہیں ہوگا ،
*البتہ اگر کسی کمپنی ، فیکٹری وغیرہ کے مالک کی طرف سے خود کام کرنے کی شرط نہ ہو اور نہ ایسا عرف ہو ، بلکہ مالک کو بس کام سے مطلب ہو خواہ کوئی کرے ، تو ایسی صورت میں اپنی نوکری کسی دوسرے کو بھی دی جاسکتی ہے*
علامہ زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" (قوله وان أطلق كان له أن يستأجر غيره) لان المستحق عمل في ذمته و يمكن استيفاؤه بنفسه وبالاستعانة بغيره بمنزلة ايفاء الدين "*
*📔(البحرالرائق ، کتاب الاجارۃ ، ۷/۳۰۳ ، مطبوعۃ شرکت علاؤالدین بیروت )*
یعنی ، اگر مطلق ہو تو ملازم کو جائز ہے دوسرے کو اجارہ پہ رکھ سکتا ہے کیونکہ مالک اس کے ذمہ عمل کا مستحق ہے اور اس کو پورا خود اس کے ذریعہ بھی ممکن ہے اور دوسرے کی مدد سے بھی ، یہ ایفائے قرض کی منزل میں ہے ،
*اب اگر یہ دوسری صورت ہو یا پہلی صورت میں مالک مرضی و اجازت سے ہو تو دوسرے کو نوکری پہ رکھ سکتا ہے*
چنانچہ علامہ علی حیدر آفندی حنفی متوفی ۱۳۵۳ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" قول المستأجر للأجير اعمل هذا الشغل اطلاق وليس بتقييد. فعلى ذلك للأجير في هذه الصورة أن يستعمل خليفته أي الشخص الذي يشتغل عنده بالأجرة بدلا عنه "*
*📔(دررالحکام شرح مجلۃالاحکام ، کتاب الاجارۃ ، الباب السادس ، الفصل الرابع فی بیان اجارۃ الآدمی ، رقم المادۃ:۵۷۳، ۱/۶۵۹ ، دارعالم الکتب ریاض ، طبعۃخاصۃ:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، مستاجر کا ملازم سے یہ کہنا کہ یہ کام کرو مطلق ہے ، مقید نہیں ہے ، اس بنیاد پر اس صورت میں اجیر کیلئے جائز ہوگاکہ اپنے نائب کو استعمال کرے ، یعنی وہ شخص جو اس کےپاس کام کرتا ہے اس کے بدلے ،
*لیکن ہر مہینے اس کی آدھی تنخواہ لینے کا معاہدہ درست نہیں ، کہ اب اجیر یہ دوسرا شخص ہے ، اور ہرشخص اپنی کمائی کا خود مالک ہوتا ہے نہ کہ کوئی دوسرا*
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:*
*" «كُلُّ أحَدٍ أحَقُّ بِمَالِهِ مِنْ وَّالِدِهِ وَ وَلَدِهِ وَالنَّاسِ أجْمَعِيْنَ» "*
*📔(السنن الکبری للبیہقی ، کتاب النفقات ، باب نفقۃ الابوین ، رقم الحدیث: ۱۵۷۵۳ ، ۷/۷۹۰ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالثانیۃ:۱۴۲۴ھ)*
ترجمہ: ہر شخص اپنے مال اپنے والد ، اپنی اولاد اور تمام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ حقدار ہے ،
*جب زید نے نوکری چھوڑ کر بکر کو دے دی تو اس کی حیثیت بکر کے کفیل کے طور پر ہوگئی ، جس پر کسی منفعت کے حصول کی شرط سراسر رشوت کے زمرے میں آتا ہے*
چنانچہ سیدالسند علامہ علی بن محمد شریف جرجانی حنفی متوفی۸۱۶ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" الرشوة ما يعطى لابطال حق او لاحقاق باطل "*
*📔(کتاب التعریفات ، باب الراء ، ص۱۱۶ ، مکتبۃ لبنان ، طبعۃجدیدۃ:۱۹۸۵ء)*
یعنی رشوت اس مال کو کہتے ہیں جو کسی کے حق کو باطل ثابت کرنے کیلئے یا کسی باطل کو حق ثابت کرنے کیلئے دیاجائے ،
*اور رشوت چونکہ حرام ہے لہذا زید کی یہ شرط بھی ناجائز وحرام ہے*
چنانچہ امام شمس الائمہ سرخسی حنفی متوفی ۴۸۳ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" ولو كفل رجل عن رجل بمال على أن يجعل له جعلا فالجعل باطل هكذا روى عن ابراهيم رحمه الله وهذا لانه رشوة والرشوة حرام "*
*📔(المبسوط للسرخسی ، کتاب الکفالۃ ، باب الکفالۃ بالمال ، ۲۰/۳۲ ، دارالمعرفۃ بیروت ، طبعۃ:۱۴۰۹ھ)*
یعنی ، کسی نے کسی آدمی کی کفالت مال پر اس شرط پہ کی اس کیلئے کچھ انعام و مزدوری ہوگی ، تو یہ مزدوری باطل ہے ، امام ابراھیم سے یہی مروی ہے کیونکہ یہ رشوت ہے اور رشوت حرام ،
*لیکن اگر زید یہ کہے کہ میں اس کی نوکری کیلئے دوڑ دھوپ کی ہے اور محنت کرکے اس کو نوکری پہ لگایا ہے ، تو پھر اس کی حیثیت دلال و سمسار کی ہوجائے گی اور دلال یعنی ایجنٹ اتنی ہی اجرت و کمیشن کا مستحق ہوتا ہے جتنی کہ اس جیسے معاملات میں عموماً دی جاتی ہے ، وہ بھی صرف ایک بار نہ ہر مہینے ،*
چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم "*
*📔(ردالمحتار ، کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ ، قبیل باب ضمان الاجیر ، ۹/۸۷ ، دارعالم الکتب ریاض ، طبعۃخاصۃ:۱۴۲۳ھ)*
یعنی، دلال میں اجرت مثل واجب ہے ، اور یہ جو رواج بنا لیا ہےکہ مثلا ہر دس دینار میں اتنا ہوگا ، تو یہ ان پر حرام ہے ،
*فلہذا زید کا بکر سے ماہانہ آدھی آدھی تنخواہ بانٹ لینے کا معاہدہ شرعاً درست نہیں اور نہ وہ پیسہ اس کیلئے حلال ،*
*ھذا ماظھرلی والعلم الحقیقی عندربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*✍🏻کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:*
*محمد شکیل اخترقادری برکاتی، شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح:عبدہ محمد عطاء اللہ النعیمی عفی عنہ ٫خادم الحدیث والافتاء بجامعۃ النور٫ جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح:عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ,دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب مصیب:فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی رئیس دارالافتاء ھاشمیہ کراچی*
*✅الجواب صحیح:ابو ثوبان محمد کاشف مشتاق عطاری نعیمی ،دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
*✅الجواب صحیح:محمد مہتاب احمد النعیمی غفرلہ ، دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں