امام و مقتدیوں کے متعلق کچھ تنبیہات

*🕯        «    احــکامِ شــریعت     »        🕯*
-----------------------------------------------------------
*📚امام و مقتدیوں کے متعلق کچھ تنبیہات📚* 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
کیافرماتے ہیں علماۓدین مسٸلہ ذیل کے بارے میں!
(١) امام مسجد سنت غیر مؤکدہ اکثر ترک کرتا ہو اور اس کا اثر مقتدی پر بھی پڑتاہو تو کیا حکم شرع ہے؟
(٢) اور جماعت کے مقررہ وقت سے دو چار منٹ اکثر تاخیرکرتےہوں جسکی وجہ سے بعض مقتدی امام سے ناراض و بدظن ہوکر غیر نمازی کے درمیان امام کی شکایت کر تے ہیں
اس کا یہ فعل کیساہے؟
(٣) کیا سنت غیر موکدہ کے ترک پر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم رہے گا
مدلل ومفصل جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں
*المستفتی: محمد عیسیٰ رضا قادری امام مرچیاٹولہ چھپرہ بہار*
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ

*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوہاب:*  
(١) تارک سنت غیرمٶکدہ گنہگار نہیں اور ناہی لاٸق ملامت!
مگر امام کو چاہیے اگر وقت ہے تو سنت غیر موکدہ ترک نہ کرے کہ افضل ہے! احادیث میں اسکی بہت سے فضاٸل وارد ہوۓہیں جیسا کہ حدیثِ قدسی ہے۔۔۔
*" وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه فإذا أحببته كنت سمعه الذي يسمع به وبصره الذي يبصر به ويده التي يبطش بها ورجله التي يمشي بها وإن سألني لأعطينه ولئن استعاذني لأعيذنه "*
(میرا بندہ فراٸض ادا کرنے کے بعد کیوں کہ اصل فرض ہے) نفلی عبادات بجا لاکے مجھ سے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ اور  جب میں اس سے محبت کرنے لگتاہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی بری شٸ سے میری پناہ مانگے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں
*( 📕صحیح البخاری ، کتاب الرقاق ، المجلدالثالث ، ص٢٤٨ )*

لہذا امام کو چاہیے سنن و نوافل ترک نہ کرے! اور ترک کر بھی دیا تو مقتدیوں کا یہ کہنا کہ مقتدیوں پر اثر پڑےگا لغو ہے! 
اکثردیکھنے میں آتا ہے کہ امام کا سنت غیر موکدہ کا اکثر و بیشتر نہ پڑھنےکی وجہ سے مقتدی حضرات بدظن ہوتے ہیں! کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر کے امام کو رخصت کر دیا جاتا ہےیہ مقتدیوں کی بہت بڑی جہالت ہے جس کی وجہ یہ سب بروز حشر حق العباد میں گرفتارہوں گے!
مگر افضل یہی ہے کہ امام سنت غیر موکدہ کی بھی پابندی کرے ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں کہ جس بندے کے فرائض و واجبات میں اگر کمی ہوگی تو اللہ تعالی اسکو نوافل کے ذریعے پورا فرما دے گا،  *واللہ اعلم*

{٢} جماعت کیلٸے امام کا انتظار کرنا جاٸز اور باعثِ زیادتِ ثواب ہے جبکہ مقتدیوں پر شاق نہ ہو،
جیساکہ سرکار اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ  الرحمة الرضوان فرماتے ہیں کہ
وقت کراہت تك انتظار امام میں ہرگز تاخیرنہ کریں، ہاں وقت مستحب تك انتظار باعث زیادت اجر و تحصیل افضلیت ہے، پھر اگروقت طویل ہے اورآخر وقت مستحب تك تاخیر حاضرین پرشاق نہ ہوگی کہ سب اس پرراضی ہیں تو جہاں تك تاخیر ہو اتناہی ثواب ہے کہ ساراوقت ان کانماز ہی میں لکھاجائے گا۔
*" وقدصح عن الصحابۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہم انتظار النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم حتی مضی نحو من شطر اللیل وقداقرھم علیہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، وقال انکم لن تزالو فی صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ "*
صحابہ کرام رضی ﷲ تعالٰی عنہم اجمعین کاحضور اکرم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کایہاں تك انتظارکرنا ثابت ہے کہ رات کاکافی حصہ گزرجاتا اور نبی اکرم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کوبرقراررکھااور فرمایا: تم جب سے نماز کے انتظار میں ہووہ تمام وقت تمہارانماز میں گزرا

*" الحاصل ان التاخیر القلیل لاعانۃ اھل الخیر غیرمکروہ ولاباس بان ینتظر الامام انتظار اوسطا '*
 خلاصہ یہ ہے کہ اہل خیر کی اعانت کی وجہ سے کچھ تاخیر کرنے میں کوئی کراہت نہیں لہٰذا امام کو اوسط درجہ کا انتظار کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔
*(📘فتاوی رضویہ، جلد، ٧، صفحہ، ٢٠٥، رضا فاٶیشن، لاہور، )*

اور فتاوی مرکزتربیتِ افتا جلد اول صفحہ ٢٠٢ پر ہیکہ کسی وقت امام کی وقت مقررہ سے چند منٹ تاخیر جاٸز ہے 
لھذا امام صاحب کو چاہٸے کہ وقت مقررہ پر جماعت قاٸم کرے کہ وقت مقررہ جماعت کے التزام سے جماعت بڑھتی ہے اور مسلسل تاخیر کی عادت کرنے سے جماعت گھٹتی ہے، *و اللہ اعلم*

(٣) سنت غیر مؤکدہ کےترک پر نہ شفاعت سے محرومی ہے نہ کوئی عذاب نہ کوئی گناہ ہے اور نہ اس پر شرع میں تاکید ہےہاں جو شفاعت سے محرومی کی احادیث وارد ہیں وہ سنت مٶکدہ پر دال ہیں یعنی حضورﷺکا فرمان  ہے کہ  سنت  مٶکدہ کا تارک (جس نے چھوڑنے کی عادت بنا لی ہو)معاذ اللہ شفاعت سے محروم ہو جائے۔
حضور صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں ۔۔۔ 
سنتیں بعض مٶکدہ ہیں کہ شریعت میں اس پر تاکید آئی بلا عذر ایک بار بھی ترک کرے تو مستحق ملامت ہے اور ترک کی عادت کرے تو فاسق مردود الشہادۃ مستحق نار ہے اور بعض ائمہ نے فرمایا کہ وہ گمراہ ٹھہرایا جائے گا اور گنہگار ہے اگرچہ اس کا گناہ واجب کے ترک سے کم ہے ،، تلویح میں ہے ، کہ اس کا ترک قریب حرام کے ہے اس کا تارک مستحق ہے کہ معاذ اللہ شفاعت سے محروم ہو جائے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری سنت کو ترک کرے گا اسے میری شفاعت نہیں ملے گی سنت مٶکدہ کو سنن الھدیٰ بھی کہتے ہیں

دوسری قسم غیر مؤکدہ جس کو سنن الزواٸد بھی کہتے ہیں اس پر شریعت میں تاکید نہیں آٸی کبھی اس کو مستحب اور مندوب بھی کہتے ہیں ۔۔۔۔
*( 📚بہارشریعت ، حصہ ٤ ، ص ٦٦٢، قادری کتاب گھر )* 

*واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ* 
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ

*✍🏻کتبــــــــــــــــــــه:* 
*حضرت مولانا عبید اللہ حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف*

*✅ الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جابر القادری رضوی صاحب قبلہ جمشید پور ۔*
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے