Header Ads

قائد انقلاب 1857ء صدرالصدور مفتی صدرالدین خان آزردہؔ دہلوی

یومِ آزادی 15 اگست🇮🇳

قائد انقلاب 1857ء صدرالصدور مفتی صدرالدین خان آزردہؔ دہلوی

"صبحِ آزادی کو شامِ غلامی سے بدَلنے کی تیاری کی جا چکی ہے... مشرکین کو وجودِ مُسلم کھٹک رہا ہے...   اَسلاف کے تذکروں کا مطالعہ کیجئے... اور آزادی کی بقَا کیلئے عزمِ محکم پیدا کیجئے..."

غلام مصطفٰی رضوی
نوری مشن مالیگاؤں

    ملک ہندُستان کو انگریزی تسلط و استبداد سے آزاد کرانے میں اولین کردار قائدینِ انقلاب ۱۸۵۷ء کا ہے، جنھوں نے فتویٔ جہاد دیا، جامع مسجد دہلی میں انگریزی تسلط کے خلاف تقریریں بھی کیں اورحریت کی روح پھونک دی۔ فکر و نظر اور خیالات کی وادیوں میں جرأت و بہادری کی کاشت کی۔ علما و سلفِ صالحین کے نقوشِ قدم پر چل کر بعد کو آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔

    قائدِ انقلاب ۱۸۵۷ء مفتی محمد صدرالدین آزردہ دہلوی کی ولادت ۱۲۰۴ھ/۱۷۸۹ء کو دہلی میں ہوئی۔ آپ نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں نمایاں و مرکزی کردار ادا کیا۔ اعیانِ مغلیہ سلطنت بشمول شاہِ دہلی آپ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ آپ کا مکان صاحبانِ علم و فضل کی آماج گاہ تھا۔ روزانہ علمی محافل، شعری بزم، اور سیاسی مشورے منعقد کیے جاتے۔ بڑے بڑے اصحابِ جبہ و دستار نیاز مندانہ حاضر ہوتے اور اکرام بجا لاتے۔

    قائدِ آزادی علامہ فضل حق چشتی خیرآبادی رحمۃاللہ علیہ (شہید انڈمان) کے والد ماجد مولانا فضل امام خیرآبادی سے علومِ عقلیہ کی تحصیل کی۔ فقہ و حدیث میں مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے استفادۂ علمی فرمایا۔ جن کی درس گاہ اس وقت علومِ دینیہ کا محور و مرکز تھی۔علامہ فضل حق خیرآبادی آپ کے ہم درس و ہم سبق تھے، تاہم آپ عمر میں علامہ سے ۸؍ برس بڑے تھے۔ دونوں ہی ہم مزاج، ہم خیال اور اسلاف کے طریقے پر گامزَن تھے۔ دونوں ہی انگریز کے مخالف، برطانوی استبداد کے خلاف صف آرا تھے، دونوں ہی عقائدِ اسلامیہ میں متصلب، بدعات سے مجتنب اور ناموسِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فدائی و شیدائی تھے۔ دہلی میں انگریز کے زیر اثر پیدا شدہ فتنوں کی دونوں نے تردید کی اور اپنے قلم سے سرمایۂ ملت کی نگہ بانی کا فریضہ انجام دیا اور فتنہ و نظریاتی تخریب کا ناطقہ بند کر دیا۔

*ذوقِ شعر و ادب:*
    علامہ آزردہ شعر و ادب میں استاذ کا درجہ رکھتے تھے۔ علامہ عبدالحکیم شرف قادری لکھتے ہیں: ’’آپ بلند پایہ شاعر تھے۔ کلام سادہ اور بلند ہوتا۔ آزردہؔ تخلص، عربی، فارسی، اردو تینوں زبان میں جو کہا سب ضائع ہو گیا، بہت سے اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں  ؎

اے دل تمام نفع ہے، سودائے عشق میں
ایک جان کا زیاں ہے، سو ایسا زیاں نہیں

کامل اس فرقۂ فرہاد سے اُٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی زندانِ قدح خوار ہوئے
(تذکرہ علماے اہلسنّت،ص۱۰۶)

*مشاہیر کی نظر میں:*
[۱] مولانا فقیر محمد جہلمی تحریر فرماتے ہیں: ’’بجز شاہِ دلی کے تمام اعیان و اکابر اور علما و فضلا خاص دہلی اور اس کے نواح کے، آپ کے مکان پر حاضر ہوتے۔ طلبا تو واسطے تحصیلِ علم اور اہلِ دُنیا واسطے مشورتِ معاملات اور منشی (انشا پرداز) بغرضِ اصلاحِ انشا اور شعرا واسطے مشاعرے کے آتے تھے۔‘‘

[۲] نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ: ’’فاضلوں میں افضل، عالموں میں اعلیٰ، گراں مایہ بلیغوں کے قائد، عالی مقام فصیحوں کے پیشوا، چھوٹے بڑے اوصافِ حمیدہ سے متصف۔ ان کی تمام تر کوشش مخلوق کی حاجت روائی میں صرف ہوتی ہے۔‘‘

[۳]  سید احمد علی گڑھی نے آپ کی مدح سرائی میں اپنے مضمون کا آغاز یوں کیا  ؎

’’ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی ست‘‘

*آزادی کیلئے خدمات:* برٹش عہد میں قریب ۳۵؍برس ملازمت کی۔ مولانا فضل امام خیرآبادی کے بعد دہلی کے صدرالصدور بنائے گئے۔ ۴۰۰؍ ماہ وار تنخواہ مقرر تھی۔ کرسیِ عدالت پر بیٹھ کر دیانت و انصاف کا مظاہرہ فرمایا۔ غالبؔ کا مقدمہ بھی روبرو ہوا۔ اس پر بھی فیصلہ سنایا گرچہ عائد رقم اپنے صرفے سے ادا کردی۔ جب تحریک آزادی چھیڑی گئی تو اس وقت بہت سے عمائدین، امرا و رؤسا نے بھی اس میں حصہ لیا۔ ان میں کئی وہ تھے جو انگریز حکومت میں مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔ انھیں میں حضرت آزردہؔ بھی تھے؛ جن کا کردار آزادی کی تحریک میں قائدانہ تھا۔ حضرت آزردہؔ اپنے متوسلین کے ساتھ انگریزی تسلط کے خاتمہ کے لیے تبادلۂ خیال کیا کرتے۔ انگریز کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے حضرت آزردہؔ متفکر تھے، اس سلسلے میں شاہِ دہلی کی مجلس مشاورت میں شریک ہوتے۔ جنرل بخت خاں کی معیت میں جب فتویٔ جہاد مرتب ہوا تو اس پر آپ کے بھی دستخط تھے۔ مولانا عبدالشاہد خاں شروانی لکھتے ہیں:

    ’’علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے، مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا، بعد نمازِ جمعہ جامع مسجد میں علما کے سامنے تقریر کی، استفتا پیش کیا۔ مفتی صدرالدین خاں آزردہؔ صدرالصدور دہلی…نے دستخط کر دیے۔‘‘

    آپ نے جہاد کی تائید و تصدیق کی تھی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی جائداد ضبط کی گئی۔ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ غالبؔ لکھتے ہیں:

    ’’حضرت مولوی صدرالدین صاحب بہت دن حوالات میں رہے۔ کورٹ میں مقدمہ پیش ہوا۔ رو بکاریاں ہوئیں، آخر صاحبانِ کورٹ نے جاں بخشی کا حکم دیا۔ نوکری موقوف جائداد ضبط، ناچار، خستہ حال و تباہ لاہور گئے۔ فنانشیل کمشنر لیفٹیننٹ گورنر نے ازراہِ رحم نصف جائداد وا گذاشت کی۔ اب نصف جائداد پر قابض ہیں۔‘‘…

قریب ۳؍لاکھ مالیت کی کتابیں بھی ضبط کی گئیں۔آزادی کی تحریک کو انگریز نے کچل دیا۔ علما کو انڈمان بھیجا، شہید کیا، درختوں پر لٹکایا، توپوں سے اڑایا، ذلیل کیا، املاک ضبط کیں، مدارس بند کیے، اہانتِ رسالت کو راہ دی، ناموسِ رسالت کے محافظ علما کو ستایا، دبایا اور پابندِ سلاسل کیا گیا، آپ بھی چند ماہ نظر بند رہے، آخر رہا کر دیے گئے۔

    ۸۱؍برس کی عمر پا کر ۲۴؍ربیع الاول ۱۲۸۵ھ/۱۸۶۸ء کو راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ مادۂ تاریخ ’’چراغِ دوجہاں‘‘ ہے۔درگاہ حضرت چراغ دہلی میں مدفون ہیں۔ آپ کے تابندہ نقوش آج بھی رہبر و رہنما ہیں   ؎

جس سے تاریخ جہادِ حریت تابندہ ہے
نام جس کازندہ ہے جس کا عمل پائندہ ہے

[ مآخذ: حدائق الحنفیہ،ص۴۸۱؛ گلشن بے خار،ص۷۶۔۷۷؛ مقالات سر سید،حصہ شانزدہم،ص۲۸۰؛ علم و عمل،ج۱، ص۲۷۴؛  تاریخ ذکاء اللہ، باغی ہندستان ص۱۴۱؛ خصوصی استفادہ:مقالہ صدرالصدور دہلی، شاہ محمد چشتی، مشمولہ ترجمان اہلسنّت کراچی، جنگ آزادی نمبر۱۸۵۷ء، جولائی ۱۹۷۵ء ]
٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے