***"**** حج کے لیے پیدل سفر کرنا *******
*┄┅═❁🌼﷽🌼❁═┅┄*
*الــــجــــــواب بـــعــون الـلّٰـه الــعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لــلـــحـــق والـــــــــــصــــــــــــــواب :*
*آپ کے سوال کا مختصر اور اصل جواب تو یہی ہے کہ اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے. جس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ ان دنوں عوام و خواص کی ایک تعداد مختلف ذرائع ابلاغ خصوصاً سوشل میڈیا پر اس بات کو لے کر باھم مصروفِ بحث و نظر ہے کہ اس زمانہ میں حج کی نیت سے بیت الله شریف کا پیدل سفر کرنا شرعاً جائز و درست ہے یا نہیں، جب کہ آج سفر کے لیے اتنے اسباب و وسائل اور سہولیات و ذرائع میسر ہیں جو پہلے کبھی نہیں تھے.*
*ایک طبقہ پیدل سفر حج کی نہ صرف تقریر و تحریر کے ذریعہ تائید و حمایت کررہا ہے، بلکہ اس دور میں پیدل سفر حج کے لیے نکلنے والے جوان کو غازی، مجاہد، مردِ قلندر، انقلاب آفریں بین الاقوامی شخصیت اور ہمت و جرأت کا پیکر مردِ آہن قرار دے کر اس کی تعریف و توصیف، تحسین و آفرین، قصیدہ خوانی و منقبت گوئی اور شاباش دہی و حوصلہ افزائی میں رطب اللسان و مصروفِ بیان دکھائی دے رہا ہے، جب کہ دوسرا گروہ اس عمل کو شرعاً نادرست و ناروا، خلافِ احادیث و آثار اور اسلامی تعلیمات سے انحراف قرار دے کر لغو و عبث بلکہ بدعت و منکَر ٹھہرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے.*
*فقیر قادری الله تعالى کی توفیق سے یہاں چند سطور میں اس آویزش و خلش اور پیکار و خلفشار کو دور کرنے کی کوشش کرے گا ، وما توفيقى إلا بالله، عليه توكلت، و إليه أنيب.*
*🟢سواری کی سہولت و آسانی اور اس پر قدرت و استطاعت کے باوجود حج کے لیے پیدل جانا جائز و درست ہے، اور حج فرض ہونے کے شرائط پائے جاتے ہوں تو سواری کے بجائے پیدل جانے سے فرض بھی ادا ہوجائے گا اور مشقت و کلفت زیادہ برداشت کرنے کی وجہ سے اجر و ثواب بھی زیادہ پائے گا.*
*🟣ہاں جس طرح ہر عمل میں اخلاص شرط ہے اسی طرح حج کے لیے پیدل جانے میں بھی اخلاص و للّٰہیت، رضائے الٰہی اور حکمِ شریعت کی بجاآوری مقصود ہونا چاہیے ، ریا و نمود، نام و شہرت اور نمائش و دکھاوے کی ہرگز نیت نہ ہو ورنہ ساری محنت اکارت و برباد چلی جائے گی، بلکہ الٹا عذابِ شدید و وبالِ عظیم ہوگا .*
*🟡پہلے ہم ان احادیث و روایات کی وضاحت پیش کررہے ہیں جن کو بیان کرکے کئی لوگ غلط فہمیاں پھیلارہے ہیں، خواہ مخواہ ایک جائز عمل کو خلافِ سنت و بدعت بتانے پر تلے ہوئے ہیں، اور بے وجہ قوم میں انتشار و خلفشار کو ہوا پانی دے رہے ہیں:*
*🟢امام بخاری رحمه الله تعالى اپنی صحیح کے "باب من نذر المشی إلی الكعبة" کے تحت حضرت انس بن مالک رضی الله تعالى عنه کی یہ حدیث بیان فرماتے ہیں :*
*أن النبى صلى الله تعالى عليه وسلم رأى شيخا يهادى بين ابنيه قال ما بال هذا؟ قالوا نذر أن يمشى، قال إن الله عن تعذيب هذا نفسه لغنىّ ، وأمره أن يركب. (صحيح البخارى، كتاب جزاء الصيد، حديث نمبر 1865. ورواه مسلم، برقم 4247)*
*یعنی نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص اپنے دوبیٹوں کے سہارے سے چل رہا تھا، آپ نے پوچھا انہیں کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے بتایا انہوں نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے، یہ جو اپنے آپ کو عذاب دے رہا ہے الله تعالى اس سے بے نیاز ہے، اور آپ نے اس کو سوار ہونے کا حکم دیا.*
*امام مسلم رحمه الله تعالى یہی حدیث سیدنا ابوھریرہ رضی الله تعالى عنه سے ان الفاظ میں روایت کرتے ہیں :*
*أن النبى صلى الله تعالى عليه وسلم أدرك شيخا يمشي بين ابنيه يتوكأ عليهما، فقال النبى صلى الله تعالى عليه وسلم ما شأن هذا؟ قال ابناه يارسول الله كان عليه نذر، فقال النبى صلى الله تعالى عليه وسلم اركب أيها الشيخ فإن الله غنى عنك و عن نذرك. (صحيح مسلم، حديث نمبر 4248)*
*نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم نے ایک بزرگ کو دیکھا کہ وہ اپنے دوبیٹوں ٹیک لگاکر چل رہے ہیں، آپ نے دریافت ان کا کیا حال ہے؟ ان کے بیٹوں نے عرض کیا یارسول الله! ان کے ذمہ نذر ہے. نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا سوار ہوجاؤ بزرگ، کیونکہ الله تعالى تم سے اور تمہاری نذر سے مستغنی ہے.*
*حضرت عقبہ بن عامر رضى الله تعالى عنه بیان فرماتے ہیں :*
*نذرت أختى أن تمشى إلى بيت الله، وأمرتنى أن أستفتى لها النبى صلى الله تعالى عليه وسلم، فاستفتيته ،فقال صلى الله تعالى عليه وسلم لتمش و لتركب. (صحيح بخارى ،حديث نمبر 1866. صحيح مسلم، حديث نمبر 4250)*
*میری بہن نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ بیت الله پیدل جائیں گی، اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم سے ان کے لیے مسئلہ معلوم کروں، میں نبی اکرم صلى الله تعالى عليه وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو پیدل جانا چاہیے اور سوار ہونا چاہیے.*
*سیدنا عبد الله بن عباس رضى الله تعالى عنهما فرماتے ہیں :*
*أن أخت عقبة نذرت أن تحج ماشية، و أنها لا تطيق ذلك، فقال النبى صلى الله تعالى عليه وسلم : إن الله لغنىّ عن مشى أختك، فلتركب، ولْتُهْدِ. (سنن أبى داؤد ، كتاب الأيمان و النذور ،حديث نمبر 3289 ،بتحقيق محمد عوامة، مؤسسة الريان، بيروت)*
*یعنی حضرت عقبہ بن عامر کی ہمشیرہ نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی حالانکہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتی تھیں، تو نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم نے فرمایا بے شک الله تعالى تیری بہن کے پیدل چلنے سے بے نیاز ہے، وہ سوار ہوکر جائے اور ایک جانور قربان کرے.*
*مذکورہ احادیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص پیدل چلنے کی طاقت و قدرت نہ رکھتا ہو پھر بھی پیدل حج کرنے کی نذر مان لے تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ حج کے لیے سواری پر جائے اور ایک جانور قربان کرکے منت و نذر کا کفارہ ادا کرے.*
*🟣یہاں یہ بات بھی مدِّ نظر رہے کہ نذر کا کفارہ تو عاجز و قادر دونوں کے لیے ایک جیسا ہے، البتہ عاجز کے لیے ایسی نذر ماننا شرعاً ممنوع اور ارشادِ نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم کے خلاف ہے جس کو پورا کرنے کی طاقت و قدرت نہ ہو.*
*یہاں سے یہ بات بالکل ظاہر و واضح ہوجاتی ہے کہ جو شخص پیدل چلنے اور حج کو جانے کی قدرت رکھتا ہو وہ شخص پیدل حج کرنے کی نذر مانے یا بغیر نذر مانے حج کو پیدل جائے دونوں طرح اس کا یہ فعل شرعاً جائز و درست ہے، اس میں کسی طرح کی کوئی کراہت و قباحت ہے نہ احادیث مبارکہ میں اس سے نہی و ممانعت ہے. لہٰذا حد درجہ نادان و غافل ہیں وہ لوگ جو حج کے لیے پیدل چلنے کی طاقت و قدرت رکھنے والے کسی مسلمان پر اعتراض کرتے ہیں، اس کے عمل کو خلافِ شریعت بتاتے اور اس پر احادیث مبارکہ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہیں.*
*⚫یہ بات یقیناً حکمت و مصلحت اور دینی سیاست و فراست کے اعتبار سے بالکل غیر معقول ہے کہ ایک شخص جب پیدل حج کے لیے نکل چکا ہے اور اس کا یہ فعل احکامِ شریعت اور اصولِ دین کی رو سے بالکل جائز و درست بھی ہے تو اب اس کے عمل کو افضل و غیر افضل اور بہتر و غیر بہتر کے معیار پر تولا جائے؛ کیونکہ اس سے کسی طرح کی کوئی دینی منفعت حاصل نہیں ہوگی، بلکہ سادہ لوح عوام اختلاف و انتشار اور بدگمانی و غلط فہمی کا شکار ہوں گے.*
*🟢سفرِ حج کے لیے پیدل جانا جائز و درست ہے.*
*رب کریم ارشاد فرماتا ہے :*
*وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ. (سورة الحج، آية 27)*
*اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو ، وہ آپ کے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے جوہر دور دراز راستے سے آئیں گی.*
*آیتِ کریمہ اس بات کے بیان میں نصِ صریح ہے کہ حج کے لیے پیدل یا سوار ہوکر دونوں طرح جانا جائز و درست ہے ،بلکہ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیتِ مبارکہ سے اشارۃً یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حج کے لیے پیدل جانا افضل ہے ؛کیونکہ یہاں پیدل حج کا ذکر پہلے ہے اور بسا اوقات افضل کا ذکر پہلے کیا جاتا ہے.*
*چنانچہ امام ابو عبدالله محمد بن احمد قرطبى رحمه الله تعالى لکھتے ہیں :*
*لاخلاف فى جواز الركوب و المشى، و اختلفوا فى الأفضل منهما؛ فذهب مالك و الشافعى فى آخرين إلى أن الركوب أفضل، اقتداء بالنبى صلى الله تعالى عليه وسلم، و لكثرة النفقة، ولتعظيم شعائر الحج بأبهة الركوب. و ذهب غيرهم إلى أن المشى أفضل، لما فيه من المشقة على النفس، ولحديث أبى سعيد قال : حج النبى صلى الله تعالى عليه وسلم و أصحابه مشاة من المدينة إلى مكة، وقال اربطوا أوساطكم بأزركم و مشى خلط الهرولة. (الجامع لأحكام القرآن، جلد 14، ص 364. ويقول القادرى : و الحديث وإن كان ضعيفا ولكن يمكن التوفيق بينه و بين ما صح من الأحاديث أن النبى صلى الله تعالى عليه وسلم و أصحابه رضى الله تعالى عنهم كانوا راكبين ولم يكونوا مشاة من المدينة إلى مكة بأن يقال : المشاة مرفوع على أنه خبر ل"أصحابه" أو مرفوع على أنه حال منهم والمراد من الأصحاب بعضهم. ذكره الإمام السندى رحمه الله تعالى.)*
*سواریا پیدل حج کرنے کے جائز ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ افضلیت میں اختلاف ہے، امام مالک و شافعی رحمهما الله تعالى کا آخری قول یہ ہے کہ سوار ہوکر حج کو جانا افضل ہے؛ کیونکہ اس میں نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم کی اتباع بھی ہے اور اخراجات کی زیادتی اور سواری کے شرف و وقار کی وجہ سے شعائرِ حج کی تعظیم بھی ہے، اور دوسرے فقہاء و علماء فرماتے ہیں کہ حج کے لیے پیدل جانا افضل ہے ؛کیونکہ اس میں نفس پر مشقت بھی ہے اور نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم کی اتباع بھی، چنانچہ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوسعید کی یہ حدیث موجود ہے کہ نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم اور آپ کے صحابہ نے مدینہ سے مکہ تک حج کے لیے پیدل سفر کیا............*
*اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہور ائمہ کرام، فقہائے اسلام اور محدثین عظام رحمهم الله تعالى کا موقف یہی ہے کہ حج کے لیے سواری سے ہی جانا افضل ہے؛ کیونکہ اس میں نبی اکرم صلى الله تعالى عليه وسلم کی اتباع بھی ہے اور شعائرِ حج کی تعظیم بھی، تاہم بعض اہل علم دوسری وجوہ سے پیدل سفر حج کو افضل قراردیتے ہیں.*
*اس دور انحطاط میں جب کہ دین سے دوری اور احکام شریعت سے غفلت و بیزاری عام ہوتی جارہی ہے، فرائض و واجبات کو ترک کرنا معمولات کا حصہ بن چکا ہے ، رشوت و سود، مکر و فریب، دھوکہ و جھوٹ، اور حق تلفی و وعدہ خلافی تجارت و ملازمت کے لیے لازمی چیزیں سمجھی جانے لگی ہیں، حرام روزی، حرام کمائی اور حرام کام سے گریز و پرہیز کی سوچ ختم ہوتی جارہی ہے، نئی نسل مغربی تہذیب و ثقافت کی رنگینی و رعنائی کی دلدادہ ہوچکی ہے، اسلامی تعلیمات سے ناآشنائی، کتاب و سنت سے لاتعلقی اور سلفِ صالحین کے طریقے سے ہٹ کر بدعات و منکرات میں دلچسپی دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور دین و شریعت کے تقاضوں سے انحراف آخری حدوں کو چھورہاہے، اگر ان ہوش ربا حالات اور سنگینی سے بھری فضا میں کوئی بندہ حج بیت الله کے لیے پیدل جارہا ہے تو آخر اس پر کسی کو واویلا مچانے اور شورکرنے کا کیا حق ہے؟ کیا اس کے پیدل جانے سے دین اور اس احکام پر کوئی حرف آتا ہے؟ کسی کو کیا تکلیف ہے؟ اسے ریاکار کہنا کہاں کا انصاف ہے؟ یا اس کے اس عمل پر کسی کو اعتراض کرنے اور سوالات کھڑے کرنے کی کیا حاجت ہے؟*
*اگر دین کے نام پر بہت سے لوگوں کے معمولات و مراسم کی تفصیلات کو سامنے لایا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے دین کی اصل صورت کو مسخ کررکھا ہے، بلکہ کئی تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی خواہشات کو ہی دین بنالیا ہے، لیکن ان کی پیشانی پر بل آتا ہے نہ کان پر جوں رینگتی ہے، مگر ایک بندہ حج کو پیدل کیا چلا کہ ان گنت لوگ میدان میں کود کر شور و ہنگامہ کرنے لگے اور اس پر طرح طرح کی باتیں کسنے لگے.*
*خلاصہ یہ ہے کہ پیدل حج کو جانا بلاشبہ شرعاً جائز و درست ہے اور اس کو ناجائز و ممنوع کہنا جہالت و بے خبری ہے.*
*والله تعالي أعلم بالصواب.*
*🖊️كــتـــــــــــــــــــــبـــــــــــــــه الــــفـــــقـــــــيــــــر إلـــــــي ربـــــــــــــه الــــقــــديــــر :*
*أبـو الـحـسَّـان مُـحَـــمَّــــد اشــــتـــيـــاق الـــقـــادري.*
*خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء بـــجـــامــعـة مـديـنــة الـعــــــلـم ،كـــبـــيـــــر نــگــر ،دهــــــــلـي 94.*
*📞رابطه :*
*7982911611*
*9758897786*
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں