امام زین العابدین علی بن امام حسین -رضی اللہ تعالی عنہما

*[امام زین العابدین علی بن امام حسین -رضی اللہ تعالی عنہما-]*

✍🏽 نثار مصباحی 

*[1] - نسبتِ رسول کو کبھی ایک درہم بھی کھانے-کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا:*

قال جويرية بن أسماء : ما أكل علي بن الحسين بقرابته من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - درهما قط.

یعنی ثقہ محدث جویریہ بن اسماء(وفات 173ھ) فرماتے ہیں:
امام زین العابدین علی رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے اپنی قرابت کی بنیاد پر کبھی ایک درہم بھی نہیں کھایا!! 

*[2] - اپنے خرچ میں کمی کر کے بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کرتے تھے:*

عن محمد بن إسحاق : كان ناس من أهل المدينة يعيشون ، لا يدرون من أين كان معاشهم ، فلما مات علي بن الحسين فقدوا ذلك الذي كانوا يؤتون بالليل.

امام محمد بن اسحاق(وفات 151ھ) بتاتے ہیں:
مدینے کے کچھ لوگ زندگی بسر کرتے تھے مگر ان کا ذریعۂ معاش نامعلوم تھا۔ پھر جب امام زین العابدین کا وصال ہو گیا تو ان لوگوں کو راتوں میں ملنے والا سامانِ زندگی موقوف ہو گیا!!! 
(یعنی امام زین العابدین خفیہ طور پر ان کی کفالت فرماتے اور ان کے رزق کا انتظام فرماتے تھے)

*[3] - راتوں میں ضرورت مندوں کے گھر بوریاں پہنچانے کی وجہ سے پیٹھ پر نشانات پڑ گئے تھے:*

عن عمرو بن ثابت : لما مات علي بن الحسين ، وجدوا بظهره أثرا مما كان ينقل الجرب بالليل إلى منازل الأرامل.

عَمرو بن ثابت نے بتایا کہ:
جب امام زین العابدین علی کا وصال ہوا تو لوگوں نے ان کی مبارک پیٹھ پر اُن بوریوں کے نشانات پائے جو وہ راتوں میں بیواؤں کے دروازوں تک پہنچایا کرتے تھے!!!
(اس سے اندازہ لگائیں کہ امام حسین کی نسلِ پاک کے امین اور ساجدین و عابدین کے یہ سردار یعنی سیدنا امام زین العابدین علی بیواؤں اور یتیموں کی نگہبانی کے لیے خود کس قدر مشقت اٹھاتے تھے)

*[4] - امام زین العابدین 100 گھروں کی کفالت فرماتے تھے:*

وقال شيبة بن نعامة : لما مات علي وجدوه يعول مائة أهل بيت۔

شیبہ بن نعامہ سے مروی ہے کہ :
جب امام زین العابدین علی کا وصال ہو گیا تب لوگوں کو پتہ چلا کہ وہ 100 گھروں کی کفالت فرماتے تھے!!!!

امام ذہبی لکھتے ہیں:
قلت : لهذا كان يبخل ، فإنه ينفق سرا ويظن أهله أنه يجمع الدراهم.
یعنی : اسی وجہ سے وہ اپنے خرچ میں کمی فرماتے تھے۔ وہ پوشیدہ صدقہ فرماتے اور گھر والے (ظاہری خرچ نہیں دیکھتے تو) سمجھتے کہ وہ دراہم جمع فرماتے ہیں۔!!!

*[5] - سواری سے چلتے تو کوئی خصوصی پروٹوکول نہیں ہوتا:*

"كان علي بن الحسين إذا سار في المدينة على بغلته ، لم يقل لأحد : الطريق . . ويقول : هو مشترك ليس لي أن أنحي عنه أحدا"

یعنی امام زین العابدین جب اپنے خچر پر سوار ہو کر مدینہ منورہ میں نکلتے تو کسی سے یہ نہیں کہتے کہ راستہ دو۔ وہ فرماتے ہیں کہ راستہ سب کا ہے، مجھے یہ حق نہیں کہ کسی کو راستے سے ہٹاؤں۔!!
(آج کے ہٹو-بچو والے ماحول میں مشائخ کے لیے امام زین العابدین کے اس طرز عمل میں بہت بڑا درس ہے۔)

*[6] - اپنی وفات تک روزانہ 1000 رکعت نماز پڑھتے رہے:*
كان يصلي في كل يوم وليلة ألف ركعة إلى أن مات۔
یعنی اپنے وصال تک ہر دن وہ ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔

(رحمہ اللہ تعالی و رضی عنہ)

*(سير أعلام النبلاء للذھبی، ترجمۃ الامام علی بن الحسین رضی اللہ تعالی عنہما)*

انتخاب و پیش کش:
نثار مصباحی 
۹ محرم ۱۴۴۴ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے