مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(1)سبط رسول شہزادۂ بتول ابن حیدر کرار وارث سیف ذو الفقار امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین شہید کربلا رضی اللہ تعالی عنہ نے دین اسلام کی حفاظت فرمائی۔وہ پیکر استقامت تھے۔ان کی عزیمت سے اسلام کو تحفظ ملا۔وہ رخصت پر عمل فرما لیتے تو ان کی جان ضرور محفوظ رہ جاتی,لیکن رخصت پر عمل کو آپ نے ترجیح نہ دی۔یہ ان کی عظمت شان تھی۔
آج ساری دنیا یہی کہتی ہے کہ حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے نواسے اور اہل بیت کرام نے اپنے خون کا آخری قطرہ بہا دیا,تاکہ دین مصطفوی کی حفاظت ہو سکے۔ان مقدس وپاکیزہ شہزادوں کے خون سے میدان کربلا سرخ ہو گیا اور اسلام کی شان محفوظ رہی۔
میدان کربلا میں کفر وضلالت کا مسئلہ نہیں تھا,بلکہ جواز وعدم جواز کا معاملہ تھا۔فاسق وفاجر کی بیعت اور اس کو امام وخلیفہ بنانا جائز نہیں۔اگر بیعت نہ کرنے کے سبب قتل وہلاکت کا خطرہ ہو تو فاسق کی بیعت کرنے کی رخصت ہے,لیکن عزیمت یہی ہے کہ فاسق کی بیعت نہ کی جائے۔اگر سبط رسول اس وقت رخصت پر عمل کر لیتے تو رخصت پر عمل کا ایسا دروازہ کھل جاتا کہ اسے بند کرنا مشکل ہو جاتا۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:"ہر گز لڑائی میں امام کی طرف سے پہل نہ تھی۔ ان خبیثوں ہی نے مجبور کیا، اب دوصورتیں تھیں یا بخوف جان اس پلید کی وہ ملعون بیعت قبول کی جاتی کہ یزید کا حکم ماننا ہوگا اگرچہ خلاف قرآن وسنت ہو۔ یہ رخصت تھی ثواب کچھ نہ تھا قال تعالٰی:(الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان)۔مگر جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔
یا جان دے دی جاتی اور وہ ناپاک بیعت نہ کی جاتی، یہ عزیمت تھی اور اس پر ثواب عظیم، اور یہی ان کی شان رفیع کے شایان تھی، اسی کو اختیار فرمایا"-(فتاوی رضویہ۔المحجۃ الموتمنۃ فی آیۃ الممتحنہ)
آج ہم لوگ حسینی ہونے کا دعوی کرتے ہیں,لیکن ہم لوگ اپنے دعوی میں کتنے سچے ہیں,اس پر کبھی غور ہی نہیں کرتے۔ہمارے یہاں تو کفر وضلالت کے مسائل زیر بحث آتے ہیں۔لوگ عجیب وغریب نظریات پیش کرتے ہیں اور عہد حاضر کے حسینی علما رخصت پر عمل کرتے ہوئے زبان اقدس پر قفل سکوت لگائے رہتے ہیں:فیا للعجب
ہمارے علمائے کرام نے اپنا علم وفضل کس دن کے لئے محفوظ کر رکھا ہے۔اب تو ہر چہار جانب میدان کربلا برپا ہے۔اپنوں اور غیروں سبھوں نے عجیب وغریب طلسماتی نسخوں سے قوم کے دل ودماغ کو ماؤف کر رکھا ہے۔
حسن بن صباح کے لوگ حشیشین کھلا کر لوگوں کو غلط راہ پر ڈال دیتے تھے۔آج کل لوگ ماضی قریب کے اسلاف کرام کا کوئی قول پیش کرتے ہیں۔اس قول کے چند معانی ممکن ہوں تو وہ وہی معنی مراد لیتے ہیں جو ان کے منشا کے موافق ہو۔
ابھی ہمارے لوگ وہابیوں اور دیوبندیوں پر سب سے زیادہ مہربان بن چکے ہیں۔ وہابیہ اور دیوبندیہ کو اہل سنت وجماعت کے بالکل قریب اور ادنی درجے کا گمراہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کے لئے خود ساختہ قانون پیش کرتے ہیں۔در اصل ان خود ساختہ اصول وقوانین کو ہی توڑنا ہے۔
کسی عالم اہل سنت کا قفل سکوت ٹوٹے یا مزید دو تین تالے وہ لگا لیں,ان شاء اللہ تعالی میں اللہ تعالی کی عطا فرمودہ توفیق وقوت اور حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے احسان ورحمت سے اپنا کام جاری رکھوں گا۔
ہاں,عرض وگزارش تو ضرور ہو گی کہ ملت کے پاسبانو! کب جاگو گے۔پڑھ لکھ کر علم وفضل کا ساکت وجامد پہاڑ نہ بنو,بلکہ بہتا ہوا سمندر بنو اور ضلالت وگمرہی کو بہا کر دور لے جاؤ,تاکہ کوئی شخص ضلالت وبدعت کی بدبو سے متاثر نہ ہو سکے۔
سواد اعظم فضل الہی سے راہ حق پر رہے گا,لیکن ممکن ہے کہ برصغیر میں کچھ گمراہ ہو جائیں اور اس کے بدلے دیگر ممالک میں لوگوں کو ہدایت عطا فرما دی جائے۔پس بر صغیر کے مسلمانوں کو غلط روی سے بچانے کی کوشش کریں۔
قضا کی تین قسمیں ہیں۔قضائے مبرم,قضائے شبہ مبرم وقضائے معلق-
ممکن ہے کہ بعض لوگوں کی ہدایت وگمرہی قضائے معلق کے قبیل سے ہو کہ علما رہنمائی کریں تو ہدایت پر رہیں,ورنہ غلط روش کے شکار ہو جائیں۔
فاعینونی یا عباد اللہ
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:09:اگست 2022
شب عاشورا 1444
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں