سرسید سے متعلق سکوت کا جدید نظریہ
ایک تحریر نظر نواز ہوئی جس میں مضمون نگار نے سرسید کی تکفیر سے سکوت پر بعض شواہد سے استدلال کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ اس کی توبہ کی خبر شہرت کے درجے میں ہے۔ بطور مشورہ چند باتیں عرض کرتا ہوں,تاکہ غور وفکر کیا جائے۔
(1)پوشیدہ گناہوں کی توبہ پوشیدہ طور پر ہوتی ہے اور اعلانیہ گناہوں کی توبہ اعلانیہ طور پر۔سرسید نے بہت سی خلاف اسلام باتیں اپنی کتب ورسائل میں لکھی,ان کتب ورسائل کو شائع کیا اور اس کی غلط باتیں عوام وخواص میں مشہور ہوئیں۔شرعی اصولوں کے مطابق اس کی تکفیر کلامی کی گئی,لیکن اس کی جانب سے اعلانیہ توبہ کی کوئی روایت نہیں ملتی۔
(2) مضمون نگار نے تین شواہد پیش کئے اور اس کے پیش نظر یہ دعوی کیا کہ اس کی توبہ شہرت کے درجے میں ہے۔یعنی تین افراد کی روایت اس کی توبہ سے متعلق ہے۔
عرض ہے کہ خبر مشہور یہ ہے کہ تین افراد نے قائل سے کوئی بات سنی ہو,پھر ان تینوں نے اس کی روایت کی ہو۔اصول حدیث کی کتابوں میں خبر مشہور کی تعریف دیکھ لی جائے۔
مضمون میں دو قلم کاروں کی تحریر کا حوالہ ہے کہ ان دونوں افراد نے رقم کیا کہ سرسید نے توبہ کر لی تھی,لیکن دونوں میں سے کسی نے یہ نہیں لکھا کہ سرسید نے ہمارے سامنے توبہ کی ہے,یا جس کے سامنے توبہ کی تھی,اس نے مجھے بتایا-ایسی صورت میں یہ دونوں روایتیں خبر عزیز بھی نہیں بن سکتی ہیں۔خبر مشہور بننے کی تو کوئی صورت ہی نہیں۔
اگر زید سے کوئی بات سنے بغیر محض اپنی جانب سے بکر کہے کہ زید نے ایسا کہا تو یہ خبر واحد بھی نہیں,بلکہ خبر کاذب ہے۔اس قسم کی گڑھی ہوئی حدیثوں کو موضوع کہا جاتا ہے۔
اصول حدیث کی کتابوں میں خبر متواتر,خبر واحد اور خبر مشہور وعزیز وغریب کی تعریفات دیکھ لی جائیں۔اس کے بعد بتائیں کہ یہ دونوں روایتیں خبر عزیز بن سکتی ہیں یا نہیں؟
ایک شیخ طریقت نے سرسید کو رحمۃ اللہ علیہ لکھ دیا۔اب ان کو سرسید کی توبہ کی خبر ملی یا ان کو سرسید کے کفریات کا علم نہیں تھا۔جب تک یہ واضح نہ ہو جائے,تب تک کچھ کہنا مشکل ہے۔
(3)تواتر عرفی اور شہرت عرفی سے کوئی شرعی مسئلہ حل نہیں کیا جاتا۔یہود ونصاری کے یہاں یہ بات تواتر عرفی کے ساتھ ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو سولی دی گئی,اسی لئے نصاری اپنی گردنوں میں صلیب لٹکائے رہتے ہیں۔قرآن مجید میں اس خبر کو غلط بتایا گیا ہے۔ارشاد الہی ہے:(وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم)(سورہ نساء:آیت 157)
شرعی امور میں تواتر شرعی اور شہرت شرعی کا اعتبار ہو گا۔تواتر عرفی اور شہرت عرفی کا کوئی اعتبار نہیں۔اس کا تفصیلی ذکر فتاوی رضویہ میں مرقوم ہے۔ہم نے اپنے رسالہ:فرقہ وہابیہ:اقسام واحکام(باب دوم,فصل سوم)میں بعض عبارتوں کو نقل کیا ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:12:اگست 2022
مضمون نگار کی تحریر منقولہ ذیل ہے۔
سر سید کے حوالے سے سکوت
یادش بخیر!
1) مظہر العلماء فی تراجم العلماء والکملاء معروف بہ "تذکرۂ علمائے ہندوستان" (محققہ ڈاکٹر خوشتر نورانی) کے مصنف مولانا سید محمد حسین بدایونی (ف: 1918ء) نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان (ف: 27 مارچ 1898ء) کے ترجمے میں لکھا ہے کہ سر سید نے توبہ کرلی تھی. صاحب تذکرہ کے الفاظ یہ ہیں:
"اس میں بڑا بھاری اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا سید صاحب نے اپنے خیالات سے (جو زمانے کی رفتار پر بہ نیت بہبودی و ترقی قوم کی خاطر تھے) توبہ کی یا نہیں، لیکن میری تحقیقات سے یہی امر بخوبی پایۂ ثبوت کو پہنچا ہے کہ آپ نے بہ صدق دل، بہ گریہ و زاری توبہ کی اور کلمۂ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ بآواز بلند پڑھا." (تذکرۂ علمائے ہندوستان، ص: 95)
2) اعلی حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی کے پیر و مرشد اور برادر کبیر اشرف الاولیاء سید شاہ ابو احمد اشرف حسین اشرفی کچھوچھوی (ف: 25 محرم 1348ھ/03 جولائی، 1929ء) نے بھی اپنے فارسی روزنامچہ میں لکھا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے توبہ کرلی تھی. (بحوالہ: حیات مخدوم الاولیاء، ص 60، #از :مولانا شاہ محمود احمد قادری،#ناشر:حضرت امین شریعت ٹرسٹ مظفر پور،بہار)
3) جبکہ معروف شیخ طریقت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری (ف: 1951ء) نے ہفت روزہ "الفقیہ" امرتسر کے شمارہ 21 تا 28 جنوری 1946ء میں "مسلم لیگ شرعی حیثیت سے" کے عنوان سے شائع اپنی ایک مختصر تحریر میں سر سید کو "رحمۃ اللہ علیہ" لکھا ہے اور اس کے دلائل بھی دیے ہیں. ڈاکٹر خوشتر نورانی کی ترتیب سے شائع شدہ رئیس القلم علامہ ارشد القادری کی مکالماتی تحریروں پر مشتمل کتاب "سر سید کے مذہبی عقائد و افکار: ایک مکالمہ" میں میں نے یہ پڑھا ہے.
ان تینوں شواہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے سر سید کے حوالے سے کم از کم سکوت تو اب کیا ہی جا سکتا ہے، کیوں کہ جس سے صریح کفر صادر ہو اور اس کی توبہ یقینی طور پر معلوم ہو تو وہ بلا شبہ مؤمن ہے اور اگر توبہ نہ کرنا یقینی طور پر معلوم ہو تو وہ بغیر کسی شبہ کے کافر ہے اور اگر اس کی توبہ صرف مشہور ہو، یقینی طور پر معلوم نہ ہو تو ایسی صورت میں سکوت کیا جائے گا.
لہٰذا! ان شواہد کے پیش نظر سر سید کو اب کافر نہیں کہا جانا چاہیے، بلکہ سکوت اختیار کرتے ہوئے ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دینا چاہیے.
اور اگر حضرت پیر جماعت علی شاہ پر اعتماد کریں تو ان کے "رحمۃ اللہ علیہ" لکھنے سے آپ سر سید کو مؤمن بھی مان سکتے ہیں، کیوں کہ ایک شیخ طریقت کا "رحمۃ اللہ علیہ" لکھنا بہت معنی رکھتا ہے. والله أعلم بالصواب.
واضح رہے کہ سنجیدہ اہلِ علم و نظر کو اصلاح و انتقاد کا حق حاصل ہے، لیکن طفلان مکتب نقد و تبصرہ سے گریز کریں.
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں