حضرت تیغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
🕯حضرت تیغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

اسم گرامی: محمد تیغ علی۔
القاب: شیخ المشائخ، محبوب الاولیاء، پیکر رشد و ہدایت۔ 

ولادت باسعادت: آپ کی ولادت 1300ھ میں اپنے آبائی وطن موضع گوریارہ ضلع مظفرپور بہار (انڈیا) میں ہوئی۔

تحصیل علم: زیادہ تر ابتدائی تعلیم آپ نے جناب مولوی سبحان علی علیہ الرحمہ (ہرپور مچیا/ جو آپ کے آبائی وطن گوریارہ سے متصل پورب جانب واقع ہے) مولوی سبحان علی علیہ الرحمہ علم فارسی کے بہت بڑے ماہر اور استاذ وقت تھے، قرآن مجید اور اردو و فارسی کی ابتدائی کتابیں باقاعدہ آپ نے مولوی صاحب ممدوح سے پڑھیں۔ بعدہٗ اپنے عم محترم جناب اکبر علی کے ہمراہ کلکتہ تشریف لے گئے، انہوں نے آپ کو بغرض تعلیم مدرسہ عالیہ میں داخل کر دیا۔ مولانا محمد حنیف علیہ الرحمہ جو علاقہ تھانہ مہوا ضلع مظفرپور کے باشندہ تھے ان دنوں مدرسہ عالیہ میں مدرس تھے، انہیں کہ حلقۂ درس میں آپ شامل ہوئے، فارسی کی باقی کتابیں مثلاً گلستاں، بوستاں، اخلاق محسنی، مالا بدمنہ، بہار عجم انشائیے خلیفہ باقاعدہ ان سے پڑھیں، پھر عربی کا شوق پیدا ہوا تو درجۂ عربی میں داخل ہوئے مگر افسوس کہ ابھی کتابیں تمام نہیں ہوئی تھیں کہ آپ کے والد بزرگوار کا انتقال ہوگیا۔ آپ کے عم محترم نے آپ کو گھر واپس بھیج دیا، گھر آنے کے بعد لوازمات خانہ داری نے ایسا مجبور کیا کہ چار و ناچار تعلیم کا سلسلہ ختم کر دینا پڑا، اور اس طرح آپ کی تکمیل ظاہری نہ ہونے پائی، اب آپ گھر پر ہی رہنے لگے اور کاشت کاری کرنے میں مصروف ہو گئے چند ہی سال کے بعد آپ کے عم محترم نے آپ کو کلکتہ واپس بلا لیا اور طلب معاش میں لگا دیا مگر چونکہ کتب بینی کا شوق ابتدا ہی سے تھا لہذا دن کو تو موقع نہیں ملتا لیکن رات میں بعد نماز عشاء جب سب لوگ سو جاتے آپ کتب بینی میں مشغول ہو جاتے، درسیات کی تمام کتابیں جو آپ پڑھ چکے تھے سلسلہ وار ان کا مطالعہ کرتے، ان کے علاوہ دینیات کی اور دوسری کتابیں بھی مطالعہ میں رہتیں حتیٰ کہ علوم ظاہری میں بھی آپ کامل تھے۔

بیعت و خلافت: پیر طریقت مرشد برحق حضرت مولانا شاہ سمیع احمد مونگیری رحمۃ اللہ علیہ (خلیفۂ پنجم زبدۃ العارفین قدوۃ السالکین سرکار اعظم حافظ شاہ فرید الدین آروی قدس سرہٗ) نے شرف بیعت سے سرفراز فرما کر تعلیم سلسلہ آبادانیہ، فریدیہ کی عطا فرمائی۔ نیز آپ کو خلافت آپ کے پیر و مرشد خلیفہ دوم واقف اسرار خفی و جلی حضرت شاہ مولیٰ علی لعل گنجی علیہ الرحمہ نے بتاریخ 20 جمادی الآخر 1341ھ بمقام خان پور ضلع مونگیر اپنے پیر و مرشد کے عرس شریف کے موقع پر مجمع عام میں اپنے دست حق پرست سے آپ کے سر مبارک پر دستار خلافت باندھا اور آپ کا ہاتھ پکڑے ہوئے مزار اقدس پر لے گئے اور عرض کیا کہ "لیجیے جو حضور کا حکم تھا اس کی تعمیل کرکے حاضر خدمت کر دیا اب حضور کو اختیار ہے"۔
نیز 1349ھ میں آپ کو خانقاہ فریدیہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا حافظ شاہ محمد صاحب علیہ الرحمہ نے بھی خرقۂ خلافت و اجازت سلسلہ عالیہ، قادریہ، مجددیہ، آبادانیہ، فریدیہ کی عنایت فرمائی۔

سیرت و خصائص: حضرت بابرکت، آفتاب ولایت، سراج ہدایت، شیخ المشائخ، محبوب الاولیاء الحاج الشاہ محمد تیغ علی قادری مجددی آبادانی فریدی مجیبی مظفرپوری بہاری رحمۃ اللہ علیہ۔ 
آپ ایک خدا رسیدہ اور بلند پایہ بزرگ تھے، نہایت دیندار دین پرور، متبع سنت اور مجدد اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمہ اللہ کے مسلک کے پابند تھے، اتباع سنت آپ کی عادت کریمہ کہ اپنے مریدین و معتقدین کو بھی اتباع سنت کی تعلیم دیتے تھے، رشد و ہدایت آپ کا منصب تھا اشاعت مذہب اور تبلیغ دین کے دلدادہ تھے، 1362ھ میں قائم کردہ "انوار العلوم علیمیہ دامودرپور مظفرپور" آپ کی کریمانہ توجہ کا نتیجہ ہے۔ 
صف اخیار میں آپ کا مقام بہت بلند تھا اور ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ زہد و اتقاء، تواضع و انکساری، عبادت و ریاضت آپ کا شیوہ تھا، آپ علم و عرفان کے پیکر اور رشد و ہدایت کے مجسمہ تھے۔
آپ بچپن ہی سے راست باز و مُتَدَیّن اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ سے معمور، بادہ خلق محمدی ﷺ سے مخمور اور بڑے ہی کریم النفس تھے، مرید و غیر مرید، امیر و غریب اور دوست و دشمن کے ساتھ آپ یکساں اخلاق سے پیش آتے تھے۔ جو بھی آپ کے درِ دولت پر آپ کی زیارت کے لیے یا کسی دوسری غرض سے حاضر ہوتا آپ سب کی خاطر تواضع فرماتے، آپ کے فیاض قلب نے کبھی یہ گوارہ نہیں کیا کہ کوئی دروازے سے یونہی چلا جائے، اکثر غیر مسلم بھی اپنی حاجت روائی کے لیے آیا کرتے ان کی بھی چھوہارے وغیرہ سے خاطر کرتے، نَو وارد علماء و فقراء کی دعوت بکشادہ پیشانی نہایت مسرت و تعظیم کے ساتھ فرماتے اور اعلیٰ قدر مراتب نذر و ملبوسات دے کر رخصت فرماتے۔
گوریارہ سے سرکانہی شریف ہجرت: آپ کی دلی خواہش تھی کہ اچھا ہوتا میری یہ خانقاہ صوفیائے متقدمین کی خانقاہوں کا نمونہ ہوتی (گوریارہ میں جو خانقاہ تھی اس کے اندر مہمانوں کے رہنے کی گنجائش اتنی نہیں تھی اور گرد و پیش اتنی جگہ بھی نہیں تھی کہ وسعت دی جاتی) اس میں ہمیشہ کچھ ایسے بندگان خدا ہوتے جن کا مقصود صرف طلب دین اور ذکر الٰہی ہوتا، غرباء و مساکین اور داردین و صادرین کے قیام و طعام کا بھی معقول انتظام کیا جا سکتا۔ چنانچہ اسی نیک مقصد کے ماتحت 1355ھ میں چند مخلصین اہل سلسلہ کے مشورہ سے آپ نے اپنے آبائی وطن گوریارہ سے ہجرت فرما کر بمقام سرکانہی ضلع مظفرپور تشریف لے گئے۔ وہاں متصل مسجد خانقاہ شریف تعمیر کرائی جس کی تعمیر میں مخلصین و حلقہ بگوشان سلسلہ نے نہایت فراخ دلی سے کام کیا اور ہر طرح سے آپ کی خدمت کی۔

سفر حج و زیارت: 2 شوال المکرم 1367ھ میں جناب حاجی شاہ محمد یوسف صاحب داراپٹی اور جناب حاجی خدا بخش صاحب چاندپوری کے ہمراہ حجاز مقدس تشریف لے گئے اور حج بیت اللہ و زیارت روضۂ مقدسہ سے مشرف ہوکر محرم الحرام 1368ھ میں واپس تشریف لائے۔

وصال: 1 ربیع الآخر 1378ھ شب چہار شنبہ بعد نماز مغرب 6 بجکر 35 منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دوسرے دن بعد نماز ظہر تجہیز و تکفین عمل میں آئی۔ حضرت حافظ شاہ نور محمد صاحب محمدپوری نے مخدومی سجادہ نشیں صاحب قبلہ کی اجازت سے جنازہ کی نماز پڑھائی، تقریباً 5 بجے آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کا مزار پُر انوار خانقاہ سرکانہی شریف مظفرپور بہار میں مرجع خلائق ہے۔ 

ماخذ و مراجع: مظاہر قطب الانام المعروف بہ انوار قادری / از حضرت حافظ شاہ محمد حنیف قادری آبادانی فریدی حمیدی تیغی علیہ الرحمہ۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
*مرتبیـن📝 شمـس تبـریز نـوری امجـدی، محمـد یـوسف رضـا رضـوی امجـدی "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 966551830750+/ 9604397443+*
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے