حضرت سیدنا شیخ ابراہیم ایرجی رحمۃ اللہ علیہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
🕯حضرت  سیدنا شیخ ابراہیم ایرجی رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

اسم گرامی: سید ابراہیم۔
ایرج وطن کی نسبت سے "ایرجی" کہلاتے ہیں۔ 
سلسلہ نسب: سید ابراہیم ایرجی بن حضرت سید معین بن سید عبدالقادر بن سید مرتضی الحسنی القادری رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔

ولادت باسعادت: آپ کی ولادت مقام "ایرج" ضلع جالون (مالوہ، بھارت) میں ہوئی۔

تحصیلِ علم: آپ نے علمِ شریعت و طریقت کی پوری تعلیم حاصل فرمائی، اور وقت کے جید علماء و مشائخ سے استفادہ حاصل کیا۔حضرت شیخ علیم الدین محدث علیہ الرحمہ سے آپ نے علم ظاہر  کی تکمیل کی اور اپنے شیخ طریقت حضرت شیخ بہاء الدین بن العطاء الجنیدی قدس سرہ سے علم طریقت کی تکمیل فرمائی۔ اور آپ کے شیخ طریقت نے آپ کے واسطے ایک رسالہ اذکار و اشغال بھی تصنیف فرمایا جسے "رسالہ شطاریہ" کے نام سے تذکرہ نگاروں نے بیان فرمایا ہے۔

بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شیخ بہاؤالدین قادری شطاری قدس سرہ العزیز سے بیعت ہوئے، اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے چھبیسویں امام و شیخِ طریقت ہیں۔

سیرت و خصائص: استاذ العلماء، کثیر العلم، فاضلِ اکمل، مصنف اعظم، شیخِ کامل حضرت شیخ سید ابراہیم ایرجی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ علومِ عقلیہ و نقلیہ اور رسمیہ و حقیقیہ کے فارغ التحصیل تھے اور وقت کے عظیم فلسفی تھے، ہر علم کی بے انتہا کتابیں مطالعہ کی تھیں، اور ان کی تصحیح بھی فرمائی تھی۔ آپ مشکل و سخت کتابوں کے مشکل و سخت مسائل کو اس طرح حل کر دیتے تھے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آپ کے حل کردہ مشکلات کو بغیر استاذ کی مدد کے بھی بخوبی سمجھ جاتا تھا۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے کتب خانے سے اتنی زیادہ کتابیں بر آمد ہوئیں جو ضبط تحریر سے باہر ہیں، جن میں اکثر آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں۔
آپ کے فضائل و بلندی کا اعتراف جملہ مؤرخین نے کیا ہے۔ چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "اخبار الاخیار "میں بڑی تفصیل سے آپ کے فضائل و مناقب بیان فرمائے ہیں، آپ فرماتے ہیں: حقیقت حال یہ ہے کہ آپ کے زمانہ میں اس وقت دہلی میں کوئی شخص علم و دانش میں آپ کے برابرکا نہیں تھا۔ اور آپ کے جس ہمعصر نے آپ سے استفادہ نہیں کیا اور آپ کی علمی قابلیت کا اقرار نہیں کیا وہ بڑا ہی بے انصاف ہے۔ آپ کا یہ دستور تھا کہ لوگوں کی جہالت، ناانصافی اور ناقدری کی وجہ سے گوشہ نشین ہوکر کتابوں کا مطالعہ فرماتے اور ان کی تصحیح میں مشغول رہتے تھے۔بہت کم لوگوں نے آپ سے استفادہ کیا اور صوفیاء آپ کی بارگاہ میں تحصیل علوم و فنون میں شرف تلمذ اختیار کرتے تھے۔ کتاب مطالعہ کی غرض سے اسی آدمی کو دیتے تھے جس کو مخلص سمجھتے تھے۔

وصال: آپ کا وصال 5 ربیع الآخر 953ھ بمطابق 5 جون 1546ء بروز ہفتہ میں ہوا۔ مزار شریف اِحاطہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء قدس سرہ میں مزار حضرت امیر خسرو رحمہ اللہ کے سمت پائینتی واقع ہے۔

ماخذومراجع: تاریخ مشائخِ قادریہ رضویہ۔ تذکرہ علماء ہند از مولوی رحمٰن علی۔ تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
*مرتبیـن📝 شمـس تبـریز نـوری امجـدی، محمـد یـوسف رضـا رضـوی امجـدی "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 966551830750+/ 9604397443+*
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے