آنلائن خرید و فروخت، موبائل میں تصاویر دیکھ کر سامان کی بکنگ کرنا، فلپ کارٹ، ایمیزون وغیرہ کے توسط سے کاروبار کرنا شرعاً کیسا؟

*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
*📚 آنلائن خرید و فروخت، موبائل میں تصاویر دیکھ کر سامان کی بکنگ کرنا، فلپ کارٹ، ایمیزون وغیرہ کے توسط سے کاروبار کرنا شرعاً کیسا؟ 📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
سوال:
محترم مفتی صاحب
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مروجہ انٹرنیٹ اور موبائل کے دور میں تجارت میں موبائل کی تصاویر سے آرڈر بوکنگ ہوتا ہے۔ جب کہ مال کا مالک کوئی اور ہے مال ابھی کارخانہ یا گوداموں میں ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی کاروبار چاہے چھوٹا ہو یا بڑا اس موبائل کے سوداگری سے شاید ہی محفوظ رہا ہوگا۔ مال کہاں ہے اور سودا کہاں ہو رہا ہے۔ موبائل سے معاملات طے ہوتے ہیں اور روپے بھی ٹرانسفر ہو جاتے ہیں۔ 
ہاں البتہ مال کا مالک اپنی اجازت سے فوٹو واٹس ایپ پر بھیجتا ہے۔ اور وہ فوٹو پر سودا کرنے والا مال کی اصل صورت ظاہر کرتا ہے جیسے کی اس کی کوالٹی، اس کی مقدار، اس کے رنگ، اس کی سائز وغیرہ خریدار بھی رضامندی سے سودا کرتا ہے۔
مثلاً عبداللہ کارخانہ دار ہے۔ اس نے دس ہول سیلر کو مال کے فوٹو اور مال کی ڈسکرپشن بھیج دیئے۔ جس میں عبدالرحمن کو فوٹو ارسال ہوا۔ اب عبدالرحمن نے وہ فوٹو اور مال کی ڈسکرپشن پر اپنا منافع لگاکر آگے دکانداروں کو بھیج کر آرڈر بوک کر لیا۔
ایک صورت تو یہ کہ اب مال عبداللہ سے عبدالرحمن کے پاس جائے گا اور پھر دکانداروں تک پہونچایا جائے گا۔
دوسری صورت یہ کہ مال عبداللہ کے کارخانے یا گوداموں سے عبدالرحمن کے نام کے ساتھ سیدھا دکانداروں یا گاہکوں تک بھیجا جائے گا۔ جس میں کہیں پر بھی کارخانہ دار عبداللہ کا کوئی نام نہیں ہوگا۔ دوکان دار یا گاہکوں کو ایسا لگے گا کہ یہ مال ہول سیلر عبدالرحمن کی طرف سے آیا ہے۔ یہ دوسری صورت میں وقت اور ٹرانسپورٹ کا خرچ بچ جاتا ہے۔ تیز رفتار کے ماحول میں جلدی سے ڈلیوری چاہیے اور ابھی مقابلہ کے دور میں یہ معاملہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ چونکہ غیر مسلم تاجروں نے کارخانہ داروں سے Non Disclosure Agreement (غیر انکشاف معاہدہ) کیا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دوسری صورت میں اکثر معاملات ہو رہے ہیں۔
لہذا اس موبائل انٹرنیٹ کے سودا کی جائز صورت کیا ہے؟
برائے مہربانی مسلمان تاجروں کے لیے آسانی ہو ایسی جائز تجویز بتائیں۔
اور اگر "وکالت بیع" چاہے وہ منہ زبانی یا تحریری طور پر ہو اس سے یہ معاملہ جائز ہوگا؟
روایتی آف لائن کاروباراورجدیدانٹرنیٹ ای کامرس کاروباردونوں طریقوں میں واٹس ایپ پرتصاویرکےذریعےآڈربکنگ خریدوفروخت عام ہوچکےہیں لہذا دونوں کاروباری طریقہ کےمتعلق شرعی رہنمائی فرمائیں
*سائل: محمد شبیر قادری، سورت*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب:*
*صورت مذکورہ فی السوال چندشرطوں کے ساتھ جائز ہے* 

*اول: یہ کہ مبیع (Subject Metter Of Sale) اور ثمن (Agreed Price) کی مکمل تفصیل معلوم ہو* 

چنانچہ امام ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی ۵۸۷ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" ومنها : أن يكون المبيع معلوماً وثمنه معلوماً علماً يمنع من المنازعة، فإن كان أحدهما مجهولاً جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع "*
*📔(بدائع الصنائع ، کتاب البیوع ، فصل فی شروط الصحۃ ، ۶/۵۹۲ ، مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالثانیۃ:۱۴۲۴ھ)*
یعنی ، شرائط صحت بیع میں سے یہ ہے کہ مبیع اور اس کا ثمن اس طرح معلوم ہو کہ جو تنازع سے مانع ہو ، لہذا ان میں ایک بھی اگر ایسا مجہول ہو جو مفضی الی النزاع ہوتو بیع فاسد ہوگی ،

*دوم: یہ کہ سونا (Gold) چاندی (Silver) یا کرنسی ( Currency ) کی خرید وفروخت ہوتو بیع صرف یعنی ثمن کو ثمن سے بیچنے (Exchange of Money) کے تمام احکام کی رعایت ہو* 

چنانچہ امام بدرالدین عینی حنفی متوفی ۸۵۵ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" فـمـا اختص باسم الصرف اختص بشرائط ثلاثة ، وجود التقابض من الجانبين جميعا قبل التفرق بالأبدان ، وعدم اشتراط الخيار فيه "*
*📔(البنایۃ شرح الھدایۃ ، کتاب الصرف ، ۸/۳۹۳ ، دارالکتب العلمیۃ ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۰ھ)*
یعنی، جو بیع صرف کے نام سے خاص ہے وہ تین شرطوں کے ساتھ مخصوص ہے ، جانبین سے تقابض ، اور یہ قبضہ کرنا جسمانی طور پر دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ہونا ، اور کسی قسم کا خیار نہ ہونا 
اور علامہ نظام الدین برہانپوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" ومنها : أن لا يكون في هذا العقد أجل هكذا في النهاية "*
*📔(فتاوی ہندیہ ، کتاب الصرف ، الباب الاول ، ۳/۲۱۷ ، دارالکتب العلمیۃ ، الطبعۃالاولی: ۱۴۲۱ھ)*
یعنی ، بیع صرف کے شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ یہ عقد ادھار پر نہ ہو ، نہایہ میں ایسا ہی ہے 

*سوم: یہ کہ کوئی شرط فاسد نہ لگائی جائے جس سے بیع میں فساد لازم آئے* 

چنانچہ علامہ مولی عبدالحلیم رومی حنفی فرماتے ہیں:
*🖋️" ان البيع یبطل بالشرط الفاسد "*
*📔(کشف رموزغررالأحکام و تنویر دررالحکام ، کتاب البیوع ، باب بیع الفاسد ، ۲/۵۲۶ ، مطبوعۃ مصر)*
یعنی، شرط فاسد سے بیع باطل ہوجاتی ہے ،

*چہارم: یہ کہ صرف مبیع کی تصویر دیکھ لینے سے خیار رویت ( Option of Inspection) ساقط نہیں ہوگا* 
لان التصویر لیس باصل الشیئ ، کماھوالظاھر

*پنجم: یہ کہ جاندار کی تصویر نہ لگائی جائے*
لان تصویرالحیوان حرام 

چنانچہ امام بدرالدین عینی حنفی فرماتے ہیں:
*🖋️" قال أصحابنا وغيرهم : تصوير صورة الحيوان حرام أشد التحريم وهو من الكبائر "*
*📔(عمدۃالقاری شرح البخاری ، کتاب اللباس ، باب عذاب المصورین یوم القیامۃ ، رقم الحدیث:۵۹۵۰ ، ۲۲/۱۱۰ ، دارالکتب العلمیۃ ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۱ھ)*
یعنی، ہمارے اصحابِ حنفیہ اور دیگر حضرات نے فرمایا کہ جاندار کی تصویر سخت حرام ہے اور یہ کبائر میں سے ہے 

*ششم: یہ کہ اس صورت میں حتی الامکان ڈیبٹ کارڈ (Debit Card) استعمال کیا جائے ، کریڈٹ کارڈ (Credit Card) کا استعمال نہ ہو کہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال کچھ شرطوں کے ساتھ جائز ہے تو ہوسکتا ہےکہ شرائط پورے نہ کرسکے اور کریڈٹ کارڈ کا استعمال ناجائز ہوجائے* 

چنانچہ مجلس شرعی کے فیصلے میں ہے:
*🖋️" کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ سامان خریدنے میں قیمت کی ادائگی بینک کر دیتا ہے پھر وہ رقم کارڈ ہولڈر سے لیتا ہے اور واپسی رقم کے لیے ایک مدت مثلا تیس دن ایسی رکھتا ہے جس کے اندر کارڈ ہولڈر رقم بینک کو دے دے تو اصل رقم پر اسے کوئی زیادتی نہیں دیتی ہے ۔ اور اگر اس مدت سے زیادہ دنوں میں دے تو بھی پانچ فیصد ( یاکچھ کم و بیش ) فورا اسے دینا ہے بقیہ پنچانوے فیصد کی ادائگی پر اسے اضافی رقم اور جرمانہ دینا ہوگا۔ اگر کارڈ لینے والا یہ عزم رکھتا ہے کہ غیر سودی واپسی کی مدت مقررہ کے اندر وہ بینک کی رقم دے دے گا اور اسی کو عملی شکل بھی دیتا ہے تو اس پابندی کے ساتھ کارڈ لینا اور اس کے ذریعہ معاملہ کرنا درست اور جائز ہے ۔ اور اگر زیادہ دنوں میں زائد رقم کے ساتھ ادا کی کرناچاہتا ہے یا اسے عمل میں لاتا ہے تو یہ صورت ناجائز ہے۔ اسی طرح اگر ادھار خریداری کی کوئی ایسی صورت قرار پاتی ہے جس میں بل کی ادائگی بغیر سود کے نہ ہوتو یہ صورت بھی نا جائز ہے "*
*📔(مجلس شرعی کے فیصلے ، فیصلہ نمبر۳۵ ، ۱/۳۰۵ ، جامعہ اشرفیہ مبارکپور)*

*ہفتم: یہ کہ ویب سائٹ ) Website) یا کسی ایپ (App) پہ آرڈر (Order) ملنے کی صورت میں اگر کسی اور جگہ سے مطلوبہ چیزیں مہیا کرتے ہوں تو آرڈر بک کرنے والے کو اس وقت تک نہ بیچیں جب تک کہ وہ چیز قبضے میں نہ آجائے ، البتہ وکیل بالشراء ( وہ شخص جسے خرید وفروخت کا اختیار دیا گیاہو ، Purchaser) کے طور پر معاہدہ کیا جاسکتا ہے* 

چنانچہ علامہ ابراھیم بن محمد حلبی حنفی متوفی ۹۵۶ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" ونظر الوكيل بالشراء أو القبض كاف"*
*📔(ملتقی الابحر ، کتاب البیوع ، باب الخیارات ، ص۳۹۰ ، دارالبیروتی دمشق ، الطبعۃالثانیۃ:۱۴۲۶ھ)*
یعنی ، خرید و قبضہ میں وکیل کا دیکھنا کافی ہے 

*ان شرائط کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بعد اگر آج کل جوکمپنیاں ، ایپس اور ویب سائٹس عموماً اس قسم کا کاروبار اور خرید وفروخت کرتی ہیں ، تو مطلوبہ سامان میں سے کچھ خود ان کے پاس موجود ہوتی ہیں اور کچھ وہ دوسری بنانے والی کمپنیوں سے خرید کر کسٹمر کو بھیجتی ہیں ، جو سامان (Product) ان کا خود کا ہے اس میں وہ خود ہی بائع ہے ، اور جو دوسرے کمپنیوں سے خرید کر بھیجتی ہیں ان میں ان کمپنیوں کی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے ، کہ بنانے والی کمپنیاں انہیں اس کی اجازت دیتی ہیں کہ وہ اپنے ویب سائٹ یا ایپ پر سامان کی تصویریں لگاکر فروخت کرے ، اس کی دلیل یہ ہےکہ کمپنیاں ان کو سامان کی تصویریں لگانے کی اجازت دیتی ہیں ، اگر یہ وکیل بالبیع نہ ہوتیں تو قانونی طور پر کسی دوسری کمپنی کے سامان کی تصویر لگانے کی انہیں اجازت نہ ہوتی ، فلہذا یہ ویب سائٹ اور ایپس دوسری کمپنیوں کی وکیل بالبیع ہوئیں*
*نیز ان میں تجربہ یہ ہےکہ سامان کی تصویر کے ساتھ اس کی پوری تفصیلات ، کوالیٹی ، اوریجنل تصویر ، قیمت ، بذریعہ بینک یا کیش آن ڈیلیوری وغیرہ سب درج کرتی ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی درج ہوتا ہے کہ اگر ایک ہفتہ یا دس دن کے اندر کوئی مذکورہ سامان واپس کرنا چاہے تو واپس بھی کرسکتا ہے ، اب خریدار اپنی پسندیدہ کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے تو تصویر پر کلک کرکے اپنا آرڈر بک کردیتا ہے ، اور کمپنی اسے فوراً میسیج بھیجتی ہےکہ ہمیں آپ کا آرڈر موصول ہوا ، جلد ہی ہم آپ کیلئے مطلوبہ سامان خریدیں گے ، پھر ایک دو دن بعد میسیج آتا ہے کہ آپ کا مطلوبہ سامان (Shipped) یعنی خریدا جاچکاہے ، حتی کہ سامان اب تک کہاں پہونچا یہ بھی اپ ڈیٹ ہوتا رہتا ہے ، لہذا یہ کمپنیاں ، ایپس اور ویب سائٹس دراصل آرڈر بک کرنے والےسے وعدہ بیع کرتی ہیں ، پھر سامان خرید کر اپنی ملکیت (حقیقی یا حکمی قبضہ) میں لےکر گراہک تک پہونچاتی ہیں*
*فلہذا ایسی صورت میں اس خرید وفروخت کے اندر نہ تو مبیع و ثمن میں کوئی جہالت پائی جاتی ہے اور نہ غرر و دھوکہ جو مفضی الی النزاع ہو ، اور نہ بیع قبل القبض کی صورت بنتی ہے ، اسلئے کاروبار اور خرید وفروخت کی مذکورہ صورت مذکورہ شرائط کے ساتھ جائز ہے ، شرعاً کوئی حرج نہیں* 

چنانچہ امام قاضی غزنوی جمال الدین احمد حلبی حنفی متوفی ۵۹۳ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" من اشترى ما لم يره، فالبيع جائز، وله الخيار إذا رآه : إن شاء قبله،وإن شاء رده "*
*📔(الحاوی القدسی ، کتاب البیوع ، باب خیارالرؤیۃ ، ۲/۳۵ ، مطبوعۃ دارالنوادر بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۳۲ھ)*
یعنی، جس نے کوئی ایسی چیز خریدی جسے دیکھا نہیں ہے تو بیع جائز ہے ، لیکن اسے خیار رویت حاصل رہےگا چاہے تو لے چاہے تو لوٹا دے ،

اور امام یوسف بن عمر کادوری حنفی متوفی ۸۳۲ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" ومن اشترى شيئا لم يره فالبيع جائز عندنا "*
*📔(جامع المضمرات ، کتاب البیوع ، باب خیارالرؤیۃ ، ۲/۶۵۰ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۳۹ھ)*
یعنی، جس نے کوئی چیز بن دیکھے خریدی تو بیع ہمارے نزدیک جائز ہے 

اور امام شمس الدین محمد تمرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۴ھ و علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" (صح الشراء والبيع لما لم يرياہ والإشارة إليه) أي المبيع (أو إلى مكانه شرط الجواز) فلو لم يشر إلى ذلك لم يجز إجماعاً. «فتح» و «بحر». وفي حاشية أخي زاده : الأصح الجواز (وله) أي للمشتري (أن يرده إذا رآه) "*
*📔(الدرالمختار ، کتاب البیوع ، باب خیارالرؤیۃ ، ص۴۰۵ ، دارالکتب العلمیۃ ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی، جس چیز کو بائع و مشتری نے دیکھا نہیں اس کی خرید وفروخت جائز ہے ، اور مبیع یا اس کی جگہ کی طرف اشارہ کرنا جواز کیلئے شرط ہے ، لہذا اگر اس کی طرف اشارہ نہیں کیا تو اجماعا جائز نہیں ، مگر حاشیہ اخی زادہ میں ہےکہ اصح یہ ہےکہ جائز ہے 

اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" فالتسمية كافية عن الإشارة؛ حتى لو قال بعتك كر حنطة بلدية بكذا، والكر في ملكه من نوع واحد في موضع واحد جاز البيع "*
*📔(ردالمحتار ، کتاب البیوع ، باب خیارالرؤیۃ ، ۷/۱۵۰ ، دارعالم الکتب ریاض ، طبعۃخاصۃ:۱۴۲۳ھ)*
یعنی، نام بتا دینا اشارہ کی طرف سے کافی ہے ، فلہذا کسی نے اگر کہا کہ میں شہری گیہوں کا ایک کُرّ یعنی ساٹھ قفیز تجھے اتنے میں بیچا ، اور کُرّ اس کے ملکیت میں ایک ہی قسم کا ایک ہی جگہ میں ہوتو بیع جائز ہے ،

*البتہ ویب سائٹ یا ایپ والوں کا خیار رویت یعنی دیکھ سامان واپسی کیلئے صرف ہفتہ دس دن کی شرط لگانا درست نہیں کیونکہ خیار رؤیت شرعا وقت کے ساتھ مقید نہیں لہذا اگر کسی نے عذر صحیح کی وجہ سے دس دن کے بعد بھی چیز کو دیکھا تو بھی اسے خیار رؤیت حاصل رہے گا* 

چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی فرماتے ہیں:
*🖋️" (ويثبت الخيار) للرؤية (مطلقاً غير مؤقت) بمدة هو الأصح "*
*📔(الدرالمختار ، کتاب البیوع ، باب خیارالرؤیۃ ، ص۴۰۵)*
یعنی، خیار رویت مطلقا بلاکسی تعیین مدت کے ساتھ رہےگا اور یہی اصح قول ہے 

*ہاں ! دیکھنے کے بعد کوئی ایسا قول و فعل جو اس مال پر رضامندی کی دلیل ہو پایا جائے تو پھر خیار رویت ختم ہوجائےگا* 

چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" مال ناقص جو خلاف قرار داد زید نے بھیجا مشتری اسے واپس پہنچا کر اپنی اصل خریداری کا مال لے سکتا ہے جب کہ مشتری سے کوئی امر مانع واپسی نہ ہوا ہو مثلا اسے دیکھنے کے بعد وہ قول یا فعل جو اسی مال پر راضی ہو جانے کی دلیل ہو "*
*📔(فتاوی رضویہ ، کتاب البیوع ، رقم المسئلۃ:۳ ، ۱۷/۸۸ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

*اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب خرید وفروخت کی یہ صورت جائز ہے تو اس کیلئے وکالت ( Purchasing) بھی درست ہے* 

*ھذا ماظھرلی والعلم الحقیقی عندربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*✍🏻 کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:*
*محمد شکیل اختر القادری النعیمی، شیخ الحدیث مدرسۃ البنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*

*✅الجواب صحیح:محمدشرف الدین رضوی ، شیخ الحدیث دارالعلوم حبیبیہ قادریہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ الھند*
*ماشاء اللہ*
*✅قد صح الجواب والمجیب مثاب:فقیر محمد شہروز عالم اکرمی عفی عنہ دارالافتاء دارالعلوم حبیبیہ قادریہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ الھند*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح:محمدشبیراحمدصدیقی قاضی شرع احمد آباد گجرات*
آپ کے فتاوی نویسی اورتحقیق کی جتنی تعریف کی جائےوہ بہت کم ہےبالکل اصول کےمطابق کتابوں کے حوالاجات کی ترتیب ایک قابل مفتی اور محقق کی علامت ہے اللہ تعالی علم وعمل اورعمرمیں بےپناہ برکتیں عطافرمائے۔
*✅ماشاءاللہ! الجواب صحیح والمجیب مثاب واللہ تعالی اعلم:محمدعثمان غنی رضوی مصباحی عفی عنہ ، دارالافتاء دارالعلوم سمرقندیہ دربھنگہ*
*✅ھذا ھوالحق الحقیق والتحقیق الانیق والاجر من اللہ للمجیب یلیق واللہ تعالٰی اعلم:شمیم القادری نعیمی ، دارالعلوم صمدیہ داونگیرہ ، کرناٹک الھند*
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے