سیرتِ سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے سبق آموز پہلو

*سیرتِ سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے سبق آموز پہلو*
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
از قلم: محمد عامرحسین مصباحی ـ
خادم التدریس: جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ددری سیتامڑھی بہار 
•••••••••••••••••••••••••••••
____اولیاے کرام کی مبارک زندگی نمونۂ عمل اور مشعلِ راہ ہوا کرتی ہے ،ان کی جلوتوں کے ساتھ خلوتوں کا عالم بھی امت کی راہیابی کا سبب ہوا کرتی ہے۔
____ہمارے یہاں تو اولیائے امت کی سیرتوں میں سے کرامات کا بیان کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے بےشک یہ بھی کار آمد اور مفید ہے مگر ان کی زندگی کے وہ حسین پہلو جو امت کے لیے زیادہ کار آمد ہیں انھیں یکسر فراموش کرنا درست نہیں!  
____حضور سیدنا غوثُ الثقلین، نجیب الطرفین ، قطبِ ربانی، غوثِ صمدانی شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی مبارک سیرت کا مطالعہ جہاں ہمیں ان کی عظمتوں، رفعتوں کا پتہ دیتی ہے وہیں آپ کی مبارک زندگی خوفِ خدا، حبِ خدا ورسول، زہد وتقویٰ اور عبادت و ریاضت کی جامع بھی نظر آتی ہے جن پر عمل میں دنیا وآخرت کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔
ہم حضور غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کی سیرت مبارکہ کے کچھ ایسے ہی پہلو ذیل میں سپردِ قرطاس کرتے ہیں۔
*عبادت و ریاضت کا حال:-*
___شیخ ابو عبد اللہ محمد بن ابوالفتح ہروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے چالیس سال تک حضور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت کی ـ اس درمیان میں نے دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ مسلسل عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے ہیں۔ 
(بہجۃ الاسرار)
___یہ سیرتِ مبارکہ کا وہ پہلو ہے جو عاشقانِ غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے لیے انتہائی سبق آموز ہے ـ کیونکہ یہاں حال یہ ہے سیرتِ غوثِ اعظم پر کئی شبانہ روز بیان کرلینے والے زبان دانوں کی پنجوقتہ نمازیں بھی گول رہا کرتی ہیں۔ الا ماشاء اللہ 
*خوفِ خدا کا حال:-*
___ بقول شیخ سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ "مسجد الحرام میں کچھ لوگ کعبۃ اللہ شریف کے قریب عبادت میں مصروف تھے..اچانک انھوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ دیوارِ کعبہ سے لپٹ کر زاروقطار رورہاہے اور اس کے لبوں پر یہ دعا جاری ہے،" ائے اللہ عزوجل!اگر میرے اعمال تیری بارگاہ کے لائق نہیں ہیں تو بروزِ قیامت مجھے اندھا اٹھانا"اس عجیب وغریب دعا پر لوگوں کے استفسار پر آپ نے جواب دیا کہ میں اس لیے ایسی دعا کیا کہ اگر میرے اعمال رب کی بارگاہ میں قابلِ قبول نہ ہوں تو اندھا اٹھوں تاکہ حشر میں اللہ کے بندوں کے سامنے شرمندگی نہ ہو۔
___ولایت کے اس قدر درجے پر فائز ہونے کے باوجود خوفِ خدا کا یہ عالم ہے مگر یہاں حال تو یہ ہے ذرا سی عبادت کیا کرلی نفس موٹا ہوگیا اور پھر دوسروں کو بنظرِ حقارت دیکھنا معمول بن گیا۔

*ایفائے عہد:-*
___آپ رضی اللہ عنہ کے زمانۂ طالبِ علمی زبان زد خاص و عام واقعہ کہ والدہ نے حصولِ علم کے لیے رختِ سفر باندھتے ہوئے چالیس اشرفیاں عبا کے نیچے سل کر نصیحت کی کہ *"بیٹا خواہ کچھ ہوجائے جھوٹ مت بولنا"* اور آپ نے حامی بھرلی ـ عہدِ شکنی تو دور ایفائے عہد کا منظر بھی تاریخ بن گیا، آنکھوں کے سامنے قافلہ لوٹ لیا گیا، لوگوں کے سامانِ سفر غصب کرلیے گئے اس کے باوجود ڈاکوؤں کے استفسار پر ارشاد فرمایا کہ میرے پاس *چالیس اشرفیاں* ہیں اور یہی بات ان کے سردار سے بھی کہا ـ 
___ایفائے عہد کا یہ جذبہ ڈاکوؤں کے سردار کے ساتھ تمام ڈاکوؤں کی توبہ کا سبب بن گیا۔
___یہ ان لوگوں کے لیے سبق آموز ہے جو وعدہ کرکے ایفائے عہد کے وقت حیلہ سازی کرکے مُکر جاتے ہیں۔

*عجزوانکساری:-*
____صحرا کے سفر کے دوران پیاس کی سختی کے بعد ایک بادل ظاہرہوا جس سے بارش کے مشابہ ایک چیز گری جس سے آپ نے سیرابی حاصل کی بعدہ اس سے ایک نور نکلا اور پھر ایک شکل ظاہر ہوئی جس سے آواز آئی عبدالقادر! میں تیرا رب ہوں اور میں نے تم پر حرام چیزیں حلال کردی ہیں، تو آپ نے اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھ کر کہا اے شیطانِ لعین! دور ہوجا تو روشن کنارہ اندھیرے سے بدل گیا اور آواز آئی " اے عبدالقادر! تم مجھ سے اپنے علم، اپنے رب عزوجل کے حکم اور اپنے مراتب کے سلسلے میں سوجھ بوجھ کے ذریعے نجات پاگیا مگر اس طرح میں نے ستر مشائخ کو گمراہ کردیا ـ تو آپ نے جواب دیا کہ یہ صرف میرے رب کا فضل و احسان ہے۔
___یہ واقعہ تو آپ نے بہت سنا ہوگا مگر اس میں خاص بات یہ ہے کہ آج کل تعریف پسندی اتنی غالب آئی ہوئی ہے کہ جب تک چار پانچ سطروں میں بڑے بڑے القاب کے ساتھ نام نہ آئے تب تک نام لکھنے کا حق ادا نہیں ہوتا ورنہ اپنی گستاخی پر محمول کرلیا جاتا ہے ـ عاجزوانکساری، خاکساری اور خلوص جیسی چیزیں غائب ہوتی جارہی ہے اور ہر کام میں شہرت طلبی مقصود ہونے لگی ہے اس کے بجائے اگر اپنی جانب سے اچھے کام کو خدا کا فضل واحسان اور بُرے کام کا سرزد ہونا نفس و شیطان کی طرف منسوب کرنا انسب ہے مگر بُرے کام کی نسبت نفس کی طرف تو کی جاتی ہے مگر اچھے کام پر خود کی تعریف مقصود ہوتی ہے۔

*غریبوں اور محتاجوں کی داد رسی:-*
___حضور سیدنا غوثِ اعظم کا فرمان ہے " میرے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا اور حسنِ اخلاق کامل زیادہ فضیلت والے اعمال ہیں ـ پھر فرمایا " میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا، اگر صبح کو میرے پاس ہزار دینا آئیں تو شام تک ان میں سے ایک پیسہ بھی نہ بچے ـ (غریبوں میں تقسیم کرنے اور انہیں کھانا کھلانے کی وجہ سے)
____سیرت کا یہ حصہ ان رؤسا اور امرا کے لیے لائق عمل ہے جو شہرت و ناموری کے لیے لاکھوں لاکھ پیسہ لٹادیتے ہیں جبکہ پڑوس میں کوئی بھوکا سوتا ہے اور انہیں ان کی خبر تک نہیں ہوتی بلکہ اپنے بھرے پیٹ پر قیاس کرکے خوابِ خرگوش میں مست ہوجاتے ہیں۔

*مہمان نوازی:-* 
____روزانہ رات کو اپنے مہمانوں کے ساتھ تناول فرمانا آپ کا معمول تھا۔
(بہجۃ الاسرار)
___بعض لوگ مہمانوں کی آمد پر منہ بناتے اور بُرا جانتے ہیں ان کے لیے یہ سبق ہے۔
___اس کے علاوہ بیماروں کی عیادت وغیرہ بھی آپ کے معمولات میں شامل تھا ـ 
____خلاصۂ کلام یہ کہ حضور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے فضائل و کمالات، شان و مرتبہ، عظمت و رفعت اور کرامات وغیرہ کا ضرور تذکرہ ہونا چاہیے کہ اس سے ایمان میں تازگی، فکر میں بلندی ، اور قلوب میں اولیاء اللہ سے محبت پیدا ہوتی ہے مگر ساتھ میں اگر آپ کی غربا پروری، حاجت روائی، دستگیری، عاجزی و انکساری، صبر وشکر، تقویٰ وپرہیزگاری، خدمتِ خلق اور خوفِ خدا ورسول کا بھی تذکرہ ہوتارہے تاکہ ان کی سیرت مبارکہ کے ان پہلوؤں سے بھی سماج و معاشرے کی اصلاح اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آنے کا جذبہ پیدا ہو ـ اللہ رب العزت ہمیں توفیق بخشے ـ آمین
***************

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے