مرجوح اقوال اور غلط فتاویٰ پر عمل جائز نہیں

مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما 

مرجوح اقوال اور غلط فتاویٰ پر عمل جائز نہیں 

مرجوح وشاذ اقوال پر عمل جائز نہیں،اسی طرح غلط فتاویٰ پر عمل جائز نہیں ہے۔

اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”وہابیوں،بلکہ سب گمرہوں کی ہمیشہ یہی حالت رہی ہے کہ ڈوبتا سوار پکڑتا ہے۔جہاں کسی کا کوئی لفظ شاذ مہجور پکڑ لیا،خوش ہو گئے اور اس کے مقابل تصریحات قاہرہ سلف وخلف،بلکہ ارشادات صریحہ قرآن وحدیث کو بالائے طاق رکھ دیا،مگر اہل حق بحمد اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ شاہراہ ہدایت اتباع جمہور ہے۔ جس سے سہوا خطا ہوئی،اگرچہ معذور ہے،مگر اس کا وہ قول متروک ومہجور ہے“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد29:ص173-172-جامعہ نظامیہ لاہور)

منقولہ بالا اقتباس میں بتایا گیا کہ گمراہ لوگ متروک ومہجور قول کو اختیار کر لیتے ہیں اور شور مچاتے پھرتے ہیں۔اس کے بالمقابل اقوال صحیحہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے٫حالاں کہ قول مرجوح پر عمل جائز نہیں۔

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ خداکے یہاں مفتی فتویٰ دینے کا ذمہ دارہوگا، یاوہ بھی جو فتو یٰ پرعمل کرے؟بینوا توجروا

الجواب:اگروہ مفتی قابل فتویٰ نہیں، یا عامہ مسلمین ِشہر دربارۂ فتویٰ اس پراعتما د نہیں کرتے، یا فتویٰ ایسا غلط ہے جس کی صریح غلطی مستفتی پرظاہرہے،یاعالم معتمدومستندنے اس کے اغلاط ظاہرکردیئے،یافتویٰ واقعات پر نہیں ہے،اوراس میں مفتی نے اصل واقعہ چھپایا اورغلط رخ دکھایاتومفتی واس پرعمل کرنے والا دونوں ماخوذ وگرفتارہیں،ورنہ جب تک حق واضح نہ ہو،جاہل پروبال نہیں:واللہ تعالیٰ اعلم۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم: جز دوم:ص284 -رضااکیڈمی ممبئ)

جب معتمد ومستند عالم فتویٰ کے اغلاط ظاہر کردے تو مفتی کا اپنے فتویٰ پر قائم رہنا اور رجوع نہ کرنا اور کسی کا اس فتویٰ پر عمل کرناگناہ ہے۔جاہل نے غلطی ظاہر ہونے سے قبل عمل کیا تو گناہ نہیں۔فتویٰ کے غلط ہونے کا علم عوام کو ہوگیا تو اس پر عمل کے سبب وہ گنہگار ہیں۔


حضو ر مفتی اعظم کے فتویٰ کی تشریح 

حضورمفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”قوالی مع مزا میر ہمارے نزدیک ضرور حرام وناجائز وگناہ ہے اور سجدۂ تعظیمی بھی ایسا ہی۔ ان دونوں مسئلوں میں بعض صاحبوں نے اختلاف کیا ہے،اگر چہ وہ لائق التفات نہیں،مگر اس نے ان مبتلاؤں کو حکم فسق سے بچادیا ہے، جو ان مخالفین کے قول پر اعتماد کرتے اور جائز سمجھ کر مرتکب ہوتے ہیں، اگرچہ شرعاً ان پر اب دہرا الزام ہے۔ایک ارتکاب حرام کا، دوسرا اسے جائز سمجھنے،خلاف قول صحیح جمہور چلنے گا“۔(فتاویٰ مصطفویہ:ص 456)

جو مخالفین کے قول پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ امورمیں مبتلا ہیں،وہ اسی وقت تک معذور ہیں جب تک ان کواس قول کے غلط ہونے کا علم نہ ہو۔ جب ان کے لیے اس قول کا غلط ہونا واضح گیا،اس کے باوجودوہ اس پر عمل پیرا ہیں تو گنہ گار ہیں،جیسا کہ فتاویٰ رضویہ کے منقولہ بالافتویٰ میں مرقوم ہے۔قوالی مع مزامیر سے متعلق فتویٰ درج ذیل ہے۔

مسئلہ: ازسہرام برتلہ ضلع آرہ مسؤلہ قدرت اللہ ۵:شوال۹۳۳۱؁ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اعلم بالسنۃ عالم باعمل سماع بالمزا میر سنتاہے اور اس کی امامت جائز ہے اور اس کی امامت میں کراہت ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا

الجواب: مزامیر حرام ہیں۔ ان کا سُننا عالم باعمل کا کام نہیں (کما بیناہ فی اجل التحبیر فی حکم السماع بالمزامیر)(جیسا کہ اسے میں نے ا جل التحبیر فی حکم السماع بالمزامیر میں بیان کیا ہے۔ت) اگر اعلانیہ اس کا مرتکب ہو،اسے امام نہ کریں،اور کراہت سے کسی حال خالی نہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
(فتاوی رضویہ:جلد ششم:ص596-جامعہ نظامیہ لاہور)

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:15:فروری 2023

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے