••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
🕯حضرت مولانا شاہ محمد حسین الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
اسم گرامی: محمد حسین۔
القابات: فخر الاصفیاء، علامۂ زماں، شہیدِ محبت، عمری، محبی، الہ آبادی۔
سلسلہ نسب: مولانا شاہ محمد حسین الہ آبادی بن تفضل حسین۔علیہما الرحمہ۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تک منتہی ہوتا ہے۔
ولادت باسعادت: آپ کی ولادت 1269ھ بمطابق 1853ء کو محلہ بہادر گنج، الہ آباد (انڈیا) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم الہ آباد میں حاصل کی، مولانا شکراللہ الہ آبادی سے ابتدائی کتب پڑھیں۔ پھر لکھنؤ کا سفر کیا۔ وہاں مولانا نعمت اللہ فرنگی محلی، مولانا ابو الحسنات عبدالحئی فرنگی محلی اور قاری عبدالرحمٰن پانی پتی سے تعلیم پائی، تکمیل درسیات کے بعد حج کے لیے گئے، شیخ الاسلام سید احمد دحلان مکی سے سند حدیث حاصل کی۔ رحمہم اللہ
بیعت و خلافت: مکۃ المکرمہ میں سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ ریاضت کے بعد خلافت سے مشرف کیے گئے۔
سیرت و خصائص: شہید راہ محبت، رونق بزم عاشقاں، پیکر کشتگان، عاشقِ اولیاء، امام العلماء، رئیس الاصفیاء، جامع کمالات ِ علمیہ و عملیہ، معارف اسرار ربانیہ، مہلک الوہابیہ والنجدیہ، مقبول بارگاہِ صمدانی حضرت علامہ مولانا شاہ محمد حسین الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ نامور عالم، فاضل، صوفی بزرگ، عربی و فارسی کے زبردست ادیب، طبیب جسمانی اور روحانی تھے۔
ابتداءً مولوی اسماعیل قتیل، اور سید احمد بریلوی کے خیالات سے متاثر ہوگئے تھے۔ عوام و خواص میں "وہابی" معروف ہوگئے تھے۔ لیکن جب حجاز مقدس تشریف لے گئے اور وہاں شیخ الاسلام شیخ احمد بن زین دحلان مکی علیہ الرحمہ اور شیخ العرب والعجم حضرت شاہ امداداللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ کی صحبت سے مستفید ہوئے، اور جو ذہن و قلب پر بدعقیدگی کی میل آگئی تھی، وہ ان نفوس قدسیہ کی نگاہِ فیض سے صاف ہوگئی۔ اسی طرح ہندوستان سے چار مرتبہ حجاز مقدس کا سفر کیا۔ ہر مرتبہ حالت تبدیل ہوتی گئی۔ بالآخر آپ کا قلب ہر قسم کے گمراہ عقائد و نظریات سے بالکل صاف ہوگیا۔ اسی طرح آپ "مجلس ندوۃ العلماء" کے بانیوں میں سرگرم بانی تھے۔ جب مولوی شبلی نعمانی کی مذہب سے آزاد پالیسیاں ظاہر ہونے لگیں، اور ہر قسم کے افراد اس میں شامل ہونے لگے، مجلس عاملہ کے خصوصی اجلاس میں آپ نے ناظم ندوہ سے معاملات کی صفائی کےلئے کہا تو وہ آپ کے اس اقدام پر بہت برہم ہوا۔ اس اجلاس میں خلیفہ اعلیٰ حضرت عیدالاسلام حضرت علامہ مولانا عبدالسلام جبل پوری علیہم الرحمہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ مولوی شبلی جواب دینے کی بجائے خلافِ تہذیب اور نازیبا گفتگو کرنے لگا۔ یہ دونوں بزرگ وہاں سے بریلی شریف امام اہلسنت کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور تمام روئیداد گوش گزار کی، اعلیٰ حضرت نے دونوں بزرگوں کو بہت ہی دعاؤں سے نوازا اور ان کی حق گوئی کی تعریف فرمائی۔
آپ علیہ الرحمہ ایک بہترین مدرس، مصنف، واعظ اور بہترین ادیب تھے۔ آپ کی تدریس کا دور دور تک شہرہ تھا، لوگ دور دراز سے سفر کرکے تحصیل علم کےلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ آخری عمر میں اوراد و وظائف، تزکیۂ نفس اور زیارات مزارات ِ مقدسہ میں مشغول رہنے لگے، تمام معمولات اہلسنت، بزرگان دین کے ایام، میلاد شریف، معراج شریف کی محافل بڑے اہتمام سے مناتے تھے۔ بلکہ الہ آباد میں محفل میلاد، و شب معراج شریف، اور عرائس بزرگان دین کا شعور آپ نے ہی بیدار کیا تھا۔ اسی طرح آپ وہابیہ کے سخت مخالف تھے۔ کیونکہ ان کی بدعقیدگی و بدعملی کا مشاہدہ کر چکے تھے اور ان کے تمام معمولات کو اندر سے دیکھ چکے تھے۔ اس لئے آپ کی ذات دوسرے علماء اہلسنت کی بنسبت ان کےلئے زیادہ تکلیف کی موجب تھی۔
یہی وجہ ہے کہ "مؤلفِ نزہۃ الخواطر" آپ کے معمولات سے بڑے سیخ پا ہوئے، اور موجد بدعت و شرک وغیرہ لکھ دیا۔ آگے چل کر پھر خود ہی تحریر کیا: "ان تمام باتوں کے باوجود نادر زمانہ تھے۔ ذہن کی صفائی، سینہ کے صاف، دل کے پاک، حافظہ کے قوی، تقریر میں مٹھاس، تحریر میں خوبصورتی، طبیعت کی شرافت، اخلاق کی عمدگی، نظر میں چمک اور اچھی سیرت، حلیم و بردبار۔ میں نے خود ان سے تعلیم حاصل کی اور ان کی طرف سفر کرکے پہنچا۔ کافیہ شرح ابن حاجب، جامی اور شرح تہذیب کا کچھ حصہ ان سے پڑھا"۔ (نزہۃ الخواطر:538)
واقعہ وصال: آپ پہلے سماع کے شدید مخالفوں میں سے تھے۔ پھر اتنا ذوق و شوق ہوا، کہ حج کے لیے گئے تو قوال مع ساز کے ہمراہ لے گئے۔ قوالی کثرت سے سنتے تھے۔ قوالی سنتے سنتےحالتِ استغراق کی کیفیت طاری ہوجاتی اور کافی دیر تک اسی حالت میں رہتے تھے۔ 9 رجب المرجب 1322ھ کو اجمیر شریف بتقریب دعوت نواب سرور جنگ کے ہاں مجلس سماع میں مدعو تھے، اجمیر شریف کے قوال حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کا کلام "آستیں بررو کشیدہ ہمچومکار آمدی" گا رہے تھے، محفل پر ایک کیفیت طاری تھی، شاہ صاحب ہر مصرعے کی شرح فرماتے جاتے تھے، جب قوال مقطع پر پہنچے:
گفت قدوسی فقیرے درفناء ودربقاء
خود نجود آزادبودی خود گرفتار آمدی
"خود بخود آزاد" کی تکرار فرمائی اور نفس نفیس کی طرف اشارہ فرمایا۔ تیسری مرتبہ ادا کرنا چاہتے تھے کہ کیفیت بڑھ گئی، سر بسجدہ ہوگئے اور مقصود کو پہنچے۔ آپ نے چار حج کیے، آخری حج کے موقع پر دربار نبوی میں دعاء کی تھی، کہ میری موت مدینہ منورہ میں آئے، یا اجمیر شریف میں۔ یہ آپ کی دعا قبول ہوئی۔
وصال: آپ کا وصال 9 رجب المرجب 1322ھ بمطابق وسط ستمبر 1904ء کو ہوا۔ مزار شریف "اجمیرشریف" میں مرجع خلائق ہے۔
ماخذ و مراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت۔ نزہۃ الخواطر۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
*مرتبیـن📝 شمـس تبـریز نـوری امجـدی، محمـد یـوسف رضـا رضـوی امجـدی "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 966551830750+/ 9604397443+*
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں