مولانا محمد عبدالمبین نعمانی قادری صاحب اپنا مشاہدہ بیان فرماتے ہیں:
’’چتوڑ گڑھ (راجستھان)سے چند آدمی (بارگاہِ حضور مفتی اعظم میں) حاضر ہوئے۔ ان سے حضور مفتی اعظم نے کچھ دیر گفتگو فرمائی۔ انھوں نے ایک خط دیا۔ حضور (مفتی اعظم) نے خود ہی اس کو پڑھا، پھر ان لوگوں کو نصیحت فرمانے لگے، کیوں کہ ان میں ایک صاحب تو سر پر رومال باندھے ہوئے تھے اور ایک صاحب ٹوپی پہنے ہوئے تھے، لیکن دونوں کی داڑھی منڈی ہوئی تھی۔ فرمایا: *’’سر پر ٹوپی پہنا کرو۔‘‘*
اس شخص نے کہا :حضور عجلت میں بھول گیا۔
فرمایا: *’’یہ عذر نہیں ہے،کہیں پاجامہ چھوڑ دیں اور کہیں کہ بھول گیا تب؟‘‘*
پھر فرمایا: *’’میں داڑھی منڈے سے زیادہ سر کھلے سے ناراض ہوتا ہوں۔ حالاں کہ داڑھی منڈے سے زیادہ ناراض ہونا چاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ داڑھی منڈوانے والا اپنے اسلام کو چھپانے کی نیت نہیں کرتا، مگر سر کھلے اکثر اپنے اسلام کو چھپانے کی نیت کرتے ہیں کہ کہیں ان کو مسلمان نہ پہچانا جائے،* اس لیے ٹوپی ایسی چیز ہے کہ جیسا بھی آدمی ہو اگر اس کے سر پر ٹوپی ہوتی ہے تو ضرور اس کو مسلمان پہچان لیا جاتا ہے۔‘‘
پھر فرمایا:’’ہر مذہب والا اپنے دین کا ایک شعار رکھتا ہے اور وہ اس پر مرتا ہے(یعنی اس کو باقی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے) ہندوؤں نے اپنا شعار چوٹیاں، جنیو اور قشقہ رکھا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ان کی چوٹیا پکڑے یا ان کا قشقہ چھوئے یا جنیو کاٹے۔ آخر دَم تک و ہ اس کو کاٹنے نہ دیں گے، وہ جنیو پر اپنی جان دیتے ہیں۔ ‘‘
(حوالہ: سال نامہ یادگارِ رضا، شمارہ ۲۹، مطبوعہ ممبئی۱۴۴۴ھ/۲۳۔۲۰۲۲ء، ص ١٠٥-١٠٦)
*درسِ عمل:* ہمیں اپنے شعار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کیا کبھی مشرکین، سکھوں اور یہود و نصاریٰ کو دیکھا کہ انھوں نے اپنے مذہبی مراسم و شعار کے معاملے میں ایک انچ بھی مفاہمت کی ہو!! ہرگز نہیں! وہ اپنے مراسم سے اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ غیروں کے طور طریقوں پر عمل کرتے نہیں شرماتے۔ اپنی مذہبی روایات پر عمل بار گزرتا ہے۔ افسوس!! حالاں کہ یہ ذلت و پستی کی علامت ہے!! زوال پذیر قوم اپنے ورثے کو بھلا دیتی ہے اور رُسوائی کی وادیوں میں بھٹکنے لگتی ہے۔ آج اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جوتے ہزاروں کے پہنے جاتے ہیں اور سر کا تاج ’’سستی‘‘ اور ’’کم قیمت‘‘ ٹوپی، وہ بھی پہننا گراں گزرتا ہے۔ یا پھر مجبوراً استعمال شدہ میلے کچیلے رومال سروں پر باندھ لیے جاتے ہیں۔ جب کہ اپنے سروں کو عمدہ قسم کی ٹوپیوں، عماموں سے سجانا چاہیے- زینت دینا چاہیے، یہ عمل ہماری عظیم تہذیبی روایات کا حصہ ہے۔ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اپنے مسلمان ہونے کے اظہار سے لوگ کتراتے ہیں، یہ سخت محرومی و ذلّت کی علامت ہے۔ ہمیں اپنے شعارِ دینی و مراسم اسلامی پرفخر اور غرّہ ہونا چاہیے۔ یاد رکھیں! اگر اسلامی شعار پر شرمائیں گے تو پھر بے چہرہ ہوجائیں گے۔ اپنی غیرت، حمیت کا سودا کرنے والے کبھی فوز و فلاح نہیں پا سکتے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سلفِ صالحین بالخصوص اعلیٰ حضرت و حضور مفتی اعظم کی تعلیمات کوحرزِ جاں بنایا جائے۔ اپنی دینی وضع قطع پر فخریہ عمل کیا جائے تا کہ دُنیا اور آخرت دونوں روشن ہوں۔ (غلام مصطفیٰ رضوی)
ترسیل: نوری مشن مالیگاؤں
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid02FfBoJDFq51DovPmgxQdZQGgBg5uPdwCLJCXBHE3rjj6izNaDNbP8efWP1XZ27WTtl&id=100064081901491&mibextid=Nif5oz
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں