••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
*📚قعدہ میں بیٹھنے کا طریقہ کیا ہے؟📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس بارے میں کہ قعدہ میں بیٹھنے کا طریقہ کیا ہے ؟ داہنا پاؤں کھڑے کرکے کتنی انگلیوں کا پیٹ لگنا ضروری ہے ؟ جواب عنایت فرمائیں ۔
*سائل: محمد جاوید قادری ممبئی۔*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
*جواب:* قعدہ میں بیٹھنے کا صحیح اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے اور دائیں پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھے کہ اس کی انگلیاں قبلہ رخ ہوں سنت ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو بھی نماز ہو جائے گی لیکن قصدا پاؤں کو کھڑا نہ کرنے والا گنہگار ہوگا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ " عن عائشة قال : کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یستفتح الصلاۃ بالتکبیر - إلی - و کان یفرش رجله الیسریٰ و ینصب رجله الیمنیٰ و کان ینهی عن عقبة الشیطان و ینهی أن یفترش الرجل ذراعیه افتراش السبع " اھ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انہوں نے کہا : رسول اللہ نماز کا آغاز تکبیر سے ۔۔۔۔۔دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح پچھلے حصے پر بیٹھنے سے منع فرماتے اور اس سے بھی منع فرماتے کہ انسان اپنے بازو اس طرح بچھا دے جس طرح درندہ بچھاتا ہے " اھ ( صحیح مسلم ج 1 ص 194 رقم حدیث 498 : الصلاۃ ، باب الاعتدال فی السجود )
اور دوسری حدیث میں ہے کہ " عن عبد الله أنه أخبرہ : أنه کان یری عبد الله بن عمر یتربع فی الصلاۃ إذا جلس ففعلته و أنا یومئذ حدیث السن فنهانى عبد الله بن عمر و قال : إنما سنة الصلاۃ أن تنصب رجلك الیمنیٰ ، و تثنی الیسری فقلت : إنك تفعل ذلك ؟ فقال : إن رجلى لا تحملانى " اھ یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو وہ دیکھتے کہ آپ نماز میں چار زانو بیٹھتے ہیں میں ابھی نو عمر تھا میں نے بھی اسی طرح کرنا شروع کر دیا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے روکا اور فرمایا کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ ( تشہد میں ) دایاں پاؤں کھڑا رکھے اور بایاں پھیلا دے میں نے کہا کہ آپ تو اسی طرح کرتے ہیں آپ بولے کہ ( کمزوری کی وجہ سے ) میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پاتے " اھ ( صحیح البخاری ج 1 ص 114 رقم حدیث 819 : الأذان ، باب سنة الجلوس فی التشهد )
اور در مختار مع رد المحتار میں ہے کہ " و سننها افتراش رجله الیسریٰ اى مع نصب الیمنیٰ سواء کان فی القعدۃ الأولیٰ أو الأخریٰ " اھ ( در مختار مع رد المحتار ج 2 ص 174 : کتاب الصلاۃ ، باب صفة الصلاۃ ، دار عالم الکتب بیروت )
اور اسی میں ہے کہ " ( و بعد فراغه من سجدتی الركعة الثانية يفترش ) الرجل ( رجله اليسرى ) فيجعلها بين أليتيه ( و يجلس عليها و ينصب رجله اليمنى و يوجه أصابعه ) فی المنصوبة ( نحو القبلة ) هو السنة فی الفرض و النفل ( و يضع يمناه على فخذه اليمنى و يسراه على اليسرى ، و يبسط أصابعه ) مفرجةً قليلاً ( جاعلاً أطرافها عند ركبتيه ) و لا يأخذ الركبة هو الأصح لتتوجه للقبلة " اھ ( در مختار مع رد المحتار ج 2 ص 216 : کتاب الصلاۃ ، باب صفة الصلاۃ ، دار الکتب العلمیہ بیروت )
اور بہار شریعت میں ہے کہ " دوسری رکعت کے سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد بایاں پاؤں بچھا کر دونوں سرین اس پر رکھ کر بیٹھنا اور داہنا قدم کھڑا رکھنا اور داہنے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رُخ کرنا یہ مرد کے لیے ہے " اھ ( بہار شریعت ج 1 ص 530 : سنن نماز )
واللہ اعلم بالصواب
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*✍🏻 کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:*
*کریم اللہ رضوی، خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی موبائل نمبر 7666456313*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں