ٹیوشن پڑھانے کے لیے گھر جانا

ٹیوشن پڑھانے کے لیے گھر جانا 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

‏بخارا کے گورنر نے امام بخاری رحمہ اللہ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس تشریف لائیں تاکہ میں آپ کی کتابیں سنوں۔ 
امام صاحب نے قاصد سے فرمایا :
 ” میں علم کو ذلیل نہیں کرتا کہ مال و منصب والوں کے دروازوں پر لے جاؤں ۔ اگر آپ کو ضرورت ہے تو میرے گھر یا میری مجلس میں آ جانا۔ “
‏(تاريخ بغداد : ٣٤٠/٢)

✿ اسی کا ایک واقعہ امام مالک رضی اللہ عنہ کا ہے کہ جب خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بچے کی تعلیم وتربیت کے لیے عرض کیا، تو آپ نے صاف ارشاد فرمایا کہ: 
میں علم کو ذلیل نہ کروں گا، انھیں پڑھنا ہے تو خود حاضر ہوا کریں ۔ 
خلیفہ نے عرض کی: چلیں ٹھیک، وہی حاضر ہوں گے، مگر اور طلباء پر ان کو اضافی عزت رکھی جائے ۔ 
فرمایا: یہ بھی نہ ہوگا، سب یکساں رکھے جائیں گے، آخر خلیفہ کو یہی منظور کرناپڑا ۔  

✿ اسی طرح کا ایک واقعہ امام شریک نخعی کے بارے میں آیا ہے کہ جب خلیفۂ وقت نے کہا کہ گھر آکر میرے شہزادوں کو پڑھا دیا کریں ۔
تو فرمایا : یہ نہیں ہوسکتا ۔
کہنے لگا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ امیر المومنین کا حکم ماننا نہیں چاہتے۔
انھوں نے فرمایا: یہ بات نہیں ہے، بلکہ میں علم کو ذلیل نہیں کرنا چاہتا ۔
❁ سبق : 
● مالداروں کے گھر پہنچ کر ٹیوشن پڑھانے کے بجائے، خود ہی اپنی علمی مجلس قائم کیجیے، اور وہیں بچوں کو بلاکر پڑھائیے ۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے: ” بِئْسَ الْفَقِيرُ عَلَى بَابِ الْأَمِيرِ، وَنِعْمَ الْأَمِيرُ عَلَى بَابِ الْفَقِيرِ “ یعنی : وہ کیسا برا فقیر ہے جو امیر کے دروازے پر ہوتا ہے، اور وہ کتنا اچھا امیر ہے جو فقیر کے دروازے پر پہنچتا ہے ۔
حضرت ملاعلی قاری نے فرمایا کہ اول میں دنیا کی جانب متوجہ ہونا ہے اور دوم میں آخرت کی جانب، اور توجہ إلی الآخرۃ کی طرف آنے والا بندہ قابلِ مدح ہے ۔ 
● ہمارے اسلاف نے خودداری کے ساتھ زندگی بسر فرمائی ہے، اور دنیا کی طمع میں آکر اپنے علم کو رسوا کرنے سے احتراز کیا ہے ۔
● علم دین بجائے خود بہت بڑی دولت ہے، جس کا دنیا سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ جس کے پاس یہ لازوال دولت ہو اسے کسی زوالی دولت مندوں سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے ۔

#فیضان_سرور_مصباحی
٢ ؍ جمادی الآخرۃ ۱۴۴۵ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے