Header Ads

مصطفوی نظام معیشت !انقلاب آفریں اثرات اور خصوصیات کا علمی جائزہ

مصطفوی نظام معیشت !
انقلاب آفریں اثرات اور خصوصیات کا علمی جائزہ

`مسلمانوں کے معاشی مسائل کا تصفیہ "مصطفوی نظام معیشت" پر عمل در آمد میں ہے`

غلام مصطفیٰ رضوی
[نوری مشن مالیگاؤں]

  دُنیا کا نظام تبدیل ہوتے رہتا ہے، جو عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اسی لیے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی لازمی ہے۔ اسلام نے فطری تقاضوں کو پورا کیا۔ یہ اسلام کا نظام ہے، مصطفوی نظام ہے، جس میں ہر زمانے کی رعایت ہے۔ زمانہ بدلے۔ حالات پلٹا کھائیں۔ دُنیا مختلف مسائل سے دوچار ہو لیکن اسلامی نظام کی ضرورت باقی رہتی ہے۔نظامِ مصطفوی ہی نظامِ اسلام ہے۔ جس کی ہر عہد کو ضرورت ہے۔ ہر خطے کو ضرورت ہے۔ شرقین و غربین اسی نظام کے محتاج۔ یہ نظام! نظامِ الٰہی ہے۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد:
  ’’معاشرہ ایک نقطے سے پھیل کر کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے… سارا عالم زندگی کی جلوہ گاہ بن چکا ہے…اس مرحلے پر ایک ایسے نظامِ معیشت اور ایک ایسے دستورِ حیات کی ضرورت ہے جو معاشرے کے ہر فرد کی ضرورت پوری کرتا ہو…‘‘(مصطفوی نظامِ معیشت، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں٢٠٢٢ء )
  اور وہ نظام ’’مصطفوی نظامِ معیشت‘‘ ہے۔ جس نے دُنیا کو انسان کی غلامی سے نجات بخشی۔ جلوہ گاہِ حیات میں اسی نظام کی کرنیں چھائی ہوئی ہیں۔ جن مذاہب نے اس نظام سے روگردانی کی وہ دُنیا کے لیے مسائل کا سبب بنے۔ تباہی و بربادی کا موجب بنے۔ اسی پہلو کو واضح کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد لکھتے ہیں:
  ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظامِ معیشت دیا ہے وہ انسانوں کے ہرطبقے کے لیے ہر حال میں ہر زمانے میں یکساں طور پر قابلِ عمل ہے اور مؤثر و مفید ہے…گویا یہ نظام ایسا جامع ہے جو زمانے پر حاوی ہے… زمانہ اس پر حاوی نہیں کیوں کہ زمانہ جس نظام پر حاوی ہوتا ہے وہ بدلتا رہتا ہے…لیکن زمانے کا عمل اور زمانے کی رفتار دُنیا کے دوسرے دساتیر کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نظامِ حیات کو باطل نہ کر سکی… بلکہ جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اس نظام کی حقانیت اور افادیت ظاہر ہوتی جاتی ہے…‘‘ (نفس مصدر)
  انھیں وجوہ سے دُنیا کی تمام باطل قوتیں اسلام سے خوف زدہ ہیں۔ تمام آمرانہ شوکتیں اسلام سے لرزا براندام ہیں۔ تمام ظالمانِ عصر اور اقدارِ باطل اسلام کو اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ لیکن! پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!
  ’’مصطفوی نظامِ معیشت‘‘ پر پروفیسر ڈاکٹر محمدمسعود احمد نے اہم کتاب تصنیف کی، جس میں نظامِ معاش اور اس سے متعلقہ پہلوؤں پر اسلامی اُصولوں کو اُجاگر کیا۔ نظامِ مصطفوی کی فطری عظمت کا دلائل سے اِدراک کیا۔ دُنیا کے دیگر نظاموں کی ناکامی، انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے نظاموں کا کھوکھلا پن ظاہر کیا گیا ہے۔ آج دُنیا مختلف معاشی نظام سے دوچار ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کو جکڑتا جا رہا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں منجمد ہو رہی ہے۔ غریب! غریب تر اور امیر! امیر تر ہو رہا ہے۔ فطری نظام سے بغاوت نے دُنیا میں معاشی بحران پیدا کر دیا ہے۔ چند آمرینِ زمانہ چاہتے ہیں کہ جملہ وَسائل پر انھیں کا قبضہ ہو۔ ایسے حالات میں کامیابی و کامرانی اور نجات صرف مصطفوی نظام میں ہے۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر نوری مشن کی اشاعت ’’مصطفوی نظامِ معیشت‘‘ منصۂ شہود پر ہے۔ جس کے بعض گوشوں کا تجزیہ اس تحریر میں کیا گیا ہے-
  پیشِ مطالعہ کتاب ’’مصطفوی نظامِ معیشت‘‘ کا مطالعہ اِن نتائج کو اُجاگر کرتا ہے:
[۱] جو نظام جبر و استبداد کے ذریعہ نافذ کیا جائے اس کو نہ دوام حاصل ہو سکتا ہے اور نہ مقبولیت… حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو نظامِ معیشت لائے اس کو جبراً نافذ نہیں فرمایا بلکہ افکار و خیالات میں انقلاب برپا کر کے آپ نے اس نظام کو ایسا دل پذیر بنادیا کہ لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے…
[۲]حاکم و افسر کا خوف جلوتوں میں افراد کو قابو میں رکھ سکتا ہے، خلوتوں میں نہیں … اللہ کا تصوّر ہی ایک ایسا عظیم تصوّر ہے جو خلوتوں اور جلوتوں میں انسان کی نگہبانی کرتا ہے اور ایک متوازن معیشت کے قیام میں مددگار ثابت ہوتا ہے…
[۳] وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُھَا [سورۂ ھود:۶/۱۱]
(ترجمہ) اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو۔
[٤] حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی محبت کو انسانی رذائل میں سب سے بُری خصلت قرار دیا، دورِ جدید میں جرائم کی کثرت اسی مال کی محبت کی وجہ سے نظر آتی ہے …
[۵] قرآن کریم نے مومن کی نشانی یہ بتائی کہ نہ صرف یہ کہ وہ خود غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی کھلانے کی ترغیب دیتا ہے اور جو ایسا نہیں کرتا قرآن کی نظر میں در حقیقت دین کی تکذیب کرتا ہے اور اسلام کے نظامِ معیشت سے رُو گردانی کرتا ہے۔
[٦] حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل اہمیت مال کو نہیں بلکہ انسان کو دی جس نے معیشت میں ایک انقلاب برپا کیا، آپ نے دولت کو انسان کی خادمہ قرار دیا اور خود جس انداز سے آپ کے اہلِ بیت اور صحابہ(رضی اللہ عنہم) نے غریبوں، مسکینوں اور اَسیروں کے ساتھ سلوک کیا اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ کے نزدیک دولت وہی دولت ہے جس سے انسان کی معیشت کی فلاح و اصلاح ہو …
[۷] حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احترامِ انسانیت کا درس دیا… جب تک اس انسان کا احترام نہ کیا جائے جس سے نظامِ معیشت وابستہ ہے، نظام مؤثر نہیں ہوسکتا…حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو انسان کا بھائی بنایا…
[۸]مالِ غنیمت کے پانچویں حصے میں یتیموں، محتاجوں، مسافروں کا حصہ رکھا اور اس طرح ان کی معیشت کو سدھارا۔
[۹]حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غربا ، مساکین کے لیے زکوٰۃ کی صورت میں ایک مُستقل ذریعۂ آمدنی متعین فرمایا۔ زکوٰۃ کو اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رُکن قرار دیا،
[۱۰]حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معیشت کو خاص اہمیت دی…اسلام کے ارکانِ پنجگانہ کا کسی نہ کسی طرح سے نظامِ معیشت سے تعلق نظر آتا ہے اور بہت گہرا…
[۱۱] علم ایک عظیم معاشی قوت ہے جس کے ذریعے عالمی معاشیات نے وہ جست لگائی کہ دُنیا دیکھ دیکھ کر حیران ہوئی جاتی ہے… مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر…’’مہد سے لحد تک علم حاصل کرو‘‘… معاشی فلاح کا ایک عظیم نکتہ بیان فرما دیا اور ایک انقلابی تصوّر عطا فرمایا۔
[۱۲]حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالمیت و مظلومیت سے پاک معیشت کو پیش کیا اسی لیے سود کو حرام کیا کہ سود لینے دینے میں ایک ظالم ہوتا ہے اور دوسرا مظلوم…
[۱۳]حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراف و تبذیر سے منع فرما کر معیشت کو ممکنہ ابتری سے بچایا اور ایک خوشحال معیشت کے لیے نہایت ہی مفید اصلاح فرمائی۔
  ضرورت اس بات کی ہے کہ مصطفوی نظامِ معیشت پر عمل کیا جائے تا کہ مغرب کے مفسد نظام کی فتنہ سامانیوں سے بچا جاسکے۔ قومی معاشی ترقی کی تدابیر سے مسلم معاشرے کو مستحکم بنایا جا سکے۔ اسی کی ترغیب علما و حکماے اسلام نے دی۔ اسی کی ترغیب ’’کفل الفقیہ الفاھم‘‘ اور ’’تدبیر فلاح و نجات و اصلاح‘‘ میں اعلیٰ حضرت نے دی اور مصطفوی نظامِ معیشت کی تشریح و توضیح فرمائی۔
٭ ٭ ٭


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے