Header Ads

فلمیں بنانا، بنوانا، ان میں فائنانس کرنا، ان کی آمدنی، اس آمدنی پر زکوٰۃ وغیرہ کا شرعی حکم

*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
*📚فلمیں بنانا، بنوانا، ان میں فائنانس کرنا، ان کی آمدنی، اس آمدنی پر زکوٰۃ وغیرہ کا شرعی حکم📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ
زید مراٹھی فلمیں فائینانس کرتا ہے اسے کروڑوں روپے منافع حاصل ہوتا ہے ۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا زید اس منافع کی رقم کی زکوٰۃ یا صدقہ نکال سکتا ہے ؟کسی مسجد یا دینی امر میں صرف کرسکتا ہے؟
اگر نا تو مذکورہ امور میں صرف کی کیا سبیل ہوگی؟زکوۃ و صدقات کس طرح ادا کرے۔
رہنمائی فرمائیں‌۔
المستفتی: مجیب الرحمٰن قادری امراؤتی مہاراشٹر
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:
فلمیں درجنوں گناہوں کا مجموعہ ہوتی ہیں ، مثلاً جاندار کی تصویر کشی ، نامحرم عورتوں سے اختلاط ، غیر محرمات سے بوس و کنار ، ان کے ساتھ تنہائی ، فحاشی ، بے حیائی ، عریانی ، ناچ گانا ، مزامیر وغیرہا ! اور یہ سب انفرادی طور پر حرام ہیں تو ان سب کا مجموعہ بدرجہ اولیٰ حرام ! فلہذا یہ فلمیں بنانا ، بنوانا ، ان میں پیسہ لگانا ، ان کی کسی طرح سے بھی معاونت کرنا ، ان میں کام کرنا وغیرہ بھی ناجائز و حرام ہے 

چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا کا ارشاد ہے :
*" اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ "*
*(القرآن الکریم ، ۲۴/۱۹)*
ترجمہ: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے

اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
*" وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ "*
*(القرآن الکریم ، ۵/۲)*
ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
*" إن ربي حرم علي الخمر والميسر والكوبة والقنين والكوبة الطبل "*
*(السنن الکبریٰ للبیہقی ، كتاب الشهادات ، باب ما جاء في ذم الملاهي من المعازف والمزامير ونحوها ، ۱۰/۳۷۵ ، رقم الحدیث: ۲۰۹۹۴ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الثانیۃ:۱۴۲۴ھ)*
ترجمہ: بے شک میرے رب نے میرے اوپر شراب، جوئے، کوبہ اور گانا گانے کو حرام کیا ہے اور کو بہ سے مراد طبلہ ہے

اور امام أبو محمد عبد الوهاب بن أحمد ( ابن وهبان ) حنفی متوفی ۷۶۸ھ فرماتے ہیں:
*" - وَمَنْ يَسْتَحِلُّ الرَّقْصَ قَالُوا بِكَفْرِهِ وَلا سِيَّما بالدُّفْ يَلْهُو وَيَزْمُرُ "*
*(المنظومۃالوھبانیۃ ، فصل من کتاب السیر ، رقم البیت : ۳۰۲ ، ص۹۱ ، مکتبۃ الفجر دمشق ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۱ھ)*
یعنی ، جو رقص کو حلال جانے فقہاء نے اسے کافر کہاہے خصوصاً جبکہ ڈھول باجے کے ساتھ ہو 

اور علامہ ابوالاخلاص حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی ۱۰۶۹ھ فرماتے ہیں:
*" الرقص المجمع على حرمته عند مالك والشافعي واحمد والأمام الاعظم "*
*(تیسیرالمقاصد شرح نظم الفوائد ، فصل من کتاب السیر ، تحت البیت:۳۰۲ ، ص۳۳ ، مخطوطہ ، رقم المخطوط:۵۷۵)*
یعنی ، رقص کی حرمت پر ائمہ اربعہ امام اعظم ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد رحمھم اللہ کا اجماع ہے 

بلکہ ایسا حرام ہے کہ اس کو حلال جاننے والا بعض فقہاء کے نزدیک کافر ہے 

چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں:
*" المراد به التمايل والخفض والرفع بحركات موزونة، كما يفعله بعض من ينتسب إلى التصوف، وقد نقل في "البرازية عن "القرطبي إجماع الأئمة على حرمة هذا الغناء وضرب القضيب والرقص، قال: ورأيت فتوی شیخ الإسلام جلال الملة والدين الكولاني ) أن مستحل هذا الرقص كافر))، وتمامه في الشرح الوهبانية ")، ونقل في "نور العين" عن "التمهيد" أنه فاسق لا كافر "*
*(ردالمحتار ، کتاب الجہاد باب المرتد ، مطلب في مستحل الرقص ، ۱۳/۱۲۶,۱۲۷ ، ت: صالح فرفور ، دارالثقافۃ والتراث دمشق ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۱ھ)*
یعنی ، رقص سے مراد حرکات موزونہ پر ڈولنا ، اوپر نیچے ہونا ہے ، جیساکہ بعض متصوف تصوف کی طرف نسبت کرکے کرتے ہیں ، اور بزازیہ میں قرطبی سے منقول ہے کہ اس قسم کا گانا گانے ، ڈھول بجانے اور ناچنے کی حرمت پر اجماع ہے اور میں نے شیخ الاسلام جلال الملۃ والدین کا ایک فتویٰ دیکھا کہ اس رقص کو حلال جاننے والا کافر ہے ، مکمل کلام شرح وہبانیہ میں ہے ، نورالعین میں تمہید سے منقول ہے کہ ایسا فاسق ہے کافر نہیں
ان روشن تصریحات سے معلوم ہوا کہ ناچ گانا ، رقص و سرود جو فلموں کا لازمی جزء ہے یہ سب حرام ہیں فلہذا ان کے ذریعہ جو آمدنی اور کمائی ہو وہ بھی خبیث و حرام! جسے نہ تو مسجد مدرسہ میں صرف کیا جاسکتا ہے نہ کسی اور امر دینی میں ، نہ اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی نہ اس سے صدقہ و خیرات کرنا جائز بلکہ خود اس کیلئے بھی استعمال کرنا جائز نہیں!

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
*" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيْبٌ لا يَقْبَلُ إِلا طَيْباً، وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ "*
*(الصحیح للمسلم ، كِتَابُ الزَّكَاةِ ، - بابٌ قَبُولِ الصَّدقة من الكَسْبِ الطيب وتربيتها ، رقم الحدیث: ۲۲۳۵ ، ص۴۶۱ ، دارالفکر بیروت)*
ترجمہ: "اے لوگو!اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک (مال) کے سوا (کوئی مال) قبول نہیں کرتا اللہ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا

اور علامہ مختار بن محمود زاہدی حنفی متوفی ۶۵۸ھ لکھتے ہیں:
*" ولوكان الخبيث نصابا لا يلزمه الزكوة لان الكل واجب التصدق عليه "*
*(القنیۃالمنیۃ لتتمیم الغنیۃ ، کتاب الزکاۃ ، باب فى اداء الزكوة والنية ، ص۶۵ )*
یعنی ، مال خبیث اگر نصاب تک پہونچ تو بھی اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی کیونکہ پورا مال صدقہ کردینا واجب ہے ، 

البتہ اگر اس کے پاس دوسرا حلال مال بھی ہے جو نصاب تک پہونچتاہے تو اس پر مال حلال پر ضرور زکوٰۃ فرض ہوگی اور تمام امور دینی و دنیاوی میں اس مال حلال کا استعمال و صرف بھی درست ہوگا 

چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی فرماتے ہیں:
*" وفي الفصل العاشر من "التاتر خانية عن "فتاوى الحجة": (( من ملك أموالاً غير طيبة، أو غصب أموالاً وخلطها ملكها بالخلط. وإن لم يكن له سواها نصاب فلا زكاة عليه فيها و وإن بلغت نصابا لأنه مديون، ومال المديون لا ينعقد سبباً لوجوب الزكاة عندنا)) اهـ. فأفاد بقوله: (وإن لم يكن له سواها نصاب إلخ)) أن وجوب الزكاة مقيد بما إذا كان له نصاب سواها، وبه يندفع ما استشكله في البحر ): ((من أنه وإن ملكه بالخلط فهو مشغول بالدين، فينبغي أن لا تجب الزكاة)) اهـ . لكن لا يخفى أن الزكاة حينئذ إنما تحب فيما زاد عليها لا فيها. "*
*(ردالمحتار ، کتاب الزکاۃ ، باب زكاة الغنم ، ۵/۵۲۶)*
یعنی ، تاتر خانیہ کے دسویں فصل میں فتاوی حجہ سے منقول ہے کہ جو غیر طیب ، غصب کردہ مال کا مالک ہو اور اسے اپنی ملک کے مال کے ساتھ ملا دے تو اگر مال خبیث کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی چاہے نصاب تک پہونچ جائے کیونکہ وہ مدیون ہے اور مال مدیون ہمارے نزدیک سبب زکوٰۃ نہیں ، اس سے یہ افادہ فرمایا کہ وجوب زکوٰۃ مقید ہے اس کے ساتھ کہ مال خبیث کے علاوہ نصاب ہو ، اسی سے وہ اشکال بھی دور ہوگیا جو البحر الرائق میں ہے .. لیکن مخفی نہیں ہے کہ زکوٰۃ اس وقت مال خبیث سے زائد پر زکوٰۃ فرض ہوگی خود مال خبیث پر نہیں 

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں:
*" سود ورشوت اور اسی قسم کے حرام و خبیث مال پر زکوۃ نہیں کہ جن جن سے لیا ہے اگر وہ لوگ معلوم ہیں تو انھیں واپس دینا واجب ہے۔ اور اگر معلوم نہ رہے تو کل کا تصدق کرنا واجب ہے "*
*(فتاوی رضویہ ، کتاب الغصب ، ۱۹/۶۵۶ ، رقم المسئلۃ: ۲۶۱ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

اس حرام و خبیث مال کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو جس سے لیا اس کو اور وہ نہ ہوتو اس کے ورثہ کو واپس کرے ورنہ صاحب مال کی طرف سے صدقہ کی نیت کرکے مستحقین پر تصدق کردے 

چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
*" والحاصل: أنه إنْ عَلِمَ أَرباب الأموال وجبَ رَدُّهُ عليهم، وإلا فإنْ عَلِمَ عين الحرام لا يَحِلُّ لَهُ، ويَتَصدَّقُ به بنية صاحبه "*
*(ردالمحتار ، کتاب البیوع ، باب البيع الفاسد ، مطلبٌ فِيمَن وَرِثَ مَالاً حَراماً ، ۱۴/۷۱۰)*
یعنی ، حاصل کلام یہ کہ اگر امال کے مالک معلوم ہوں تو ان واپس کرنا واجب ہے ، ورنہ معلوم ہوتے ہوئے مال حرام اس کیلئے حلال نہیں ہوگا اور صاحب مال کی نیت سے صدقہ کردینا واجب ہوگا 

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*✍🏻 کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ، شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند۔*

*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ٫ شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان) کراتشی۔*
*✅الجواب صحیح: محمد جنید النعیمی غفرلہ، المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان) کراتشی۔*
*✅الجواب صحیح: محمد مہتاب احمد النعیمی غفرلہ، المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان) کراتشی۔*
*✅الجواب الصحیح: فقط جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند۔*
*✅الجواب صحیح: محمد کاشف مشتاق النعیمی العطاری غفرلہ، المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان) کراتشی۔*
*✅الجواب صحیح: ابوحمزہ محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ، دارالافتاء محمدی ، محمدی مسجد گارڈن ویسٹ کراچی۔*
*✅الجواب صحیح: محمد شہزاد النعیمی غفرلہ، المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان) کراتشی۔*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے