حسان الہند علامہ میر سید غلام علی آزاد بلگرامی علیہ الرحمۃ کا ذکرِ جمیل

حسان الہند علامہ میر سید غلام علی آزاد بلگرامی علیہ الرحمۃ کا ذکرِ جمیل

٢٣ ذی قعدہ یکم جون کو خلد آباد میں عرس حسان الہند کا انعقاد ہوگا

غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں

ہندُستان کی تاریخ میں اپنے تحقیقی، فکری، روحانی، تاریخی، ادبی کارہائے علمیہ کے اعتبار سے حسان الھند علامہ میر سید غلام علی آزاد بلگرامی (متوفی ٢٤ ذی قعدہ ١٢٠٠ھ/١٥ ستمبر ١٧٨٦ء) کا اسمِ گرامی ممتاز حیثیت کا حامل ھے- آپ ساداتِ بلگرام شریف کے فردِ فرید ہیں- خانقاہِ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے ساداتِ کرام کا شجرۂ نسب بھی ساداتِ بلگرام شریف سے ملتا ہے- گویا مارہرہ مطہرہ و بلگرام شریف دونوں ہی نسبتوں کی آماج گاہ اور برکتوں کی جلوہ گاہ ہیں-
(١) حسان الہند علامہ میر سید غلام علی آزاد چشتی بلگرامی علیہ الرحمہ بارہویں صدی ہجری کے عظیم مؤرخ، محدث، عالم، شاعر اور سیاح ہیں- آپ نواب ناصر جنگ والی حیدرآباد کے استاذ ہیں-
(٢) بچپن ہی میں آپ کو خواب میں جلوۂ حبیبِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور پھر تسکینِ قلب کے لیے زیارتِ حرمیَن طیبیَن کی جانب تنِ تنہا پروانہ وار نکل پڑے۔ اس کا تذکرہ اپنی تصنیف "ماثر الکرام" میں خود فرمایا ہے-
(٣) شہرِ محبت مدینہ مقدسہ میں شیخ محمد حیات سندھی مدنی سے علمِ حدیث کادرس لیا۔
(٤) فریضۂ حج ادا کیا اور کئی ماہ مکۂ مکرمہ میں قیام کیا،مقاماتِ مقدسہ اور اسلامی آثار کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔
(٥) علامہ آزادؔ بلگرامی ایک عظیم شاعر بھی تھے۔آپ کی شاعری کو ہندُستانی عربی ادب کا شاہکار کہا گیا ہے۔ بلکہ شعری و ادبی فہم و بصیرت اور تعمق و مہارت پر اہلِ عرب نے مقالات قلم بند کیے ہیں-
(٦) آپ کے عربی اشعار کی تعداد محققین نے سترہ ہزار (١٧٠٠٠)کے قریب شمار کی ہے، جو عربی ادب کی فنی لطافتوں اور صوفیانہ نغمگی سے پُرہے۔ یوں ہی آپ کی نعتوں میں بوصیری و سعدی اور جامی کا رنگ و آہنگ جھلکتا ہے، کیف و سرور اور فرحت و انبساط حاصل ہوتا ہے- بزمِ حیات میں محبت کی کرنیں پھیل جاتی ہیں-
علامہ آزادؔ بلگرامی کی شاعری کا موضوع مدحتِ آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہے،اسی لیے انہیں’’حسان الہند‘‘جیسے باوقاراور عظیم لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
(٧) علامہ آزادؔ بلگرامی نے اپنی شاعری میں جابجا حب الوطنی کااظہار کیا ہے۔ طبعاً ہندی تھے فطرتاً عربی- جس کا اظہار اشعار میں خوب ہوتا ہے-
(٨) آپ نے سب سے پہلے اپنی نظم و نثر میں عظمتِ ہند کے نغمے گنگنائے ہیں۔ بلکہ ہند کی افادیت و اسلام سے رشتوں کی فصلیں اُگائی ہیں-
(٩) آپ کی بعض تصانیف کے نام اس طرح ہیں:
١- سبحۃالمرجان فی آثارِ ہندوستان (اس کا ایک ایڈیشن مصر سے مطبوع ہے)
٢- شمامۃالعنبرماورد فی الہند من سیدالبشرصلی اللہ علیہ وسلم
(شمامۃالعنبر کی اشاعت مع ترجمہ و تحقیق ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی نے دارالعلوم جائس سے کی۔)
٣- مآثر الکرام (بریلی شریف سے مآثرالکرام کی اشاعت عمل میں آئی ۔ اردو ترجمہ علامہ ڈاکٹر یونس رضا مونس اویسی نے فرمایا) 
٤- مالیگاؤں سے "روضۃالاولیاء" کی اشاعت سُنّی جمعیۃالعلماء کے زیر اہتمام ہوئی۔ اردو ترجمہ مولانا صابر رضا مصباحی نے فرمایا ہے-
٥- مظہر البرکات (اس پر تحقیق ڈاکٹر محمد فضل الدین نے کی)
٦- ارج الصبا فی مدح المصطفیٰ
٧- سرو آزاد
(١٠) آپ کے عربی شعری دیوان سے متعلق ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی(پروفیسر مولاناآزاد نیشنل اردو یونی ور سٹی حیدرآباد) نے نشان دہی کی ہے کہ آپ کے صرف چار دیوان مطبوعہ ہیں۔
(١١) قائد اہلسنّت علامہ ارشدالقادری کے فرزند مولانا ڈاکٹرغلام زرقانی(مقیم امریکہ)نے آپ کی عربی نگارشات پر مقالۂ تحقیق قلم بند کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔مقالۂ ڈاکٹریٹ کی اشاعت دارالکتاب دہلی سے ہوئی-"ارج الصبا فی مدح المصطفیٰ" پر محمد عبدالعلیم نے ڈاکٹر سید علیم اشرف کی نگرانی میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے مقالہ ڈاکٹریٹ قلم بند کیا- بعنوان "ارج الصبا فی مدح المصطفیٰ دراسۃ و التحقیق"... جناب پروفیسر عرفان محی الدین قادری کے مطابق مقالہ مطبوعہ ہے-
(١٢) علامہ آزادؔ بلگرامی نے بحیثیت شاعر و ادیب اور سیاح و مؤرخ اپنی علمی یادگاریں چھوڑی ہیں-
(١٣) بحیثیت محدث آپ نے بخاری شریف کی کتاب الزکاة تک کی شرح تحریر کی-
(١٤) آپ نے عربی و فارسی میں سیرت اورہندوستان کی اسلامی تاریخ سے متعلق متعدد کتابیں تحریر فرمائیں جن سے آپ کی مؤرخانہ و محققانہ شان و عظمت اجاگر ہوتی ہے۔ بلکہ اسی سبب مورخ ہندی کہے جاتے ہیں- اولیاے ہند، سلاطین ہند اور رجال اسلام کی تاریخ قلم بند کی-
(١٥) آج بھی علمی و ادبی تحریروں میں آپ کی تحقیق کوقولِ فیصل ماناجاتا ہے۔ بڑے بڑے مؤرخین آپ کی کتابوں کے حوالے نقل کرتے ہیں۔
(١٦) علامہ آزادؔ بلگرامی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے مگر بنیادی طور پر وہ ایک صوفیِ باصفا تھے۔ صاحب دل اور سرمد تھے-
(١٧) علامہ آزادؔ بلگرامی! نے زندگی کے آخری ایام گوشہ نشینی میں گزارے۔ مدینۃالاولیاء خلدآباد میں خلیفۂ محبوب الہی حضرت امیر علاء سجزی رحمۃاللہ علیہ (جامع ملفوظاتِ محبوب الٰہی "فوائد الفواد") کے مزار مبارک کے پہلو میں ایک قطعۂ اراضی خریدا، اس کا نام ’’عاقبت خانہ‘‘ رکھا۔ وصال سے کچھ دنوں قبل دکن کے صوفیا اور فقرا کی دعوت کی اور بعدہٗ ذکر الٰہی میں مشغول ہوگئے۔
(١٨) ٢٤ ذی القعده ١٢٠٠ھ میں علم و فن کا یہ ماہ تاب اپنے کمالات کی تمام تر رعنائیاں بکھیر کر وصال کی لذت سے سرشار ہوگیا۔ آپ کا عرس ہر سال خلدآباد میں ٢٣ ذی قعدہ کو ظہر تا عشا منایا جاتا ھے...سیدی اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ میں آپ کا حوالہ ذکر فرمایا ہے... اسی نسبت سے مضمون کا اختتام اعلیٰ حضرت کے اس شعر پر کرتا ہوں:

آسماں عینک لگا کر مہر و ماە کی دیکھ لے
جلوە انوار حق ھے صبح و شام بلگرام
***

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے