ہم دو ہمارے بارہ،، عورت کی عزت پر خاموش حملے کے مترادف

،،ہم دو ہمارے بارہ،، عورت کی عزت پر خاموش حملے کے مترادف

      ________ ✍️(حافظ)افتخاراحمدقادری 
     گزشتہ دہائی کے دوران اسلام مخالف ہوا کافی شدت اختیار کر چکی ہے۔مغرب سمیت دنیا کے بعض دوسرے حصوں میں مسلمانوں سے نفرت وعداوت کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ویڈیو نظر سے گزرا جس میں ،،ہم دو ہمارے بارہ،، نامی فلم کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ فلم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بنائی گئی ہے۔اس میں احکام شرعیہ کا مزاق اڑاتے ہوئے مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کیا گیا ہے۔اس متنازعہ فلم میں اسلام دشمن طاقتوں نے مذہب اسلام اور اس کے ماننے والوں کی کردار کشی کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مذہب اسلام میں خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی کی جاتی ہے اور مسلمان صرف عیش وعشرت کے لئے عورتوں کا استعمال کرتے ہیں دراصل یہ پروپیگینڈا یورپی ممالک کی پیداوار ہے جو شروع سے ہی مذہب اسلام کی صاف ستھری اور پاکیزہ شبہ کو داغدار کرنے میں اینڑی چوٹی کا زور لگائے ہُوئے ہے۔ اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں وہ جانتے ہیں کہ حقیقت اس پروپیگنڈے کے بالکل برعکس ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنا پاکیزہ اور خوش گوار ماحول مذہب اسلام نے عورتوں کو دیا ہے دیگر مذاہب میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

    مغربی ممالک کے باشندوں کو نہیں معلوم کہ مذہب اسلام نے صنف نازک کو عزت و عظمت کا جو مقام خاص عنایت کیا ہے بلاشبہ اس کی ہلکی سی مثال بھی دیگر مذاہب اور علمبرداران آزادئی نسواں پیش نہیں کر سکتے۔اگر عورت ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے اسلام کے وضع کردہ حقوق ومراعات کا صحیح ڈھنگ سے استعمال کرنے لگے اور ان حدود کو پھلانگنے کی کوشش نہ کرے جو شارع اسلام نے متعین فرمائے ہیں تو ہمارا دعویٰ ہے کہ اس طرح عورت اپنی عزت و عصمت کو پورے طور پر محفوظ رکھ سکتی ہے۔صرف اپنی زندگی ہی نہیں بلکہ پورے معاشرہ کو خیر و فلاح کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔مگر حیرت ہے کہ جو تہذیب عورت کو کردار کی پاکیزگی اور شخصیت کا نکھار پیدا کرتی ہے اور اس کی عفت وپاکدامنی کی کلی طور پر محافظ ہے آج کے دور میں بعض عورتیں خود ہی اس سے بیزار اور متنفر ہوتی جارہی ہیں۔اور جس تہذیب نے اسے نام نہاد آزادی اور ترقی کے نام پر بے شمار پیچیدہ مسائل اور پست کرداری کی سب سے نچلی سطح پر لا کھڑا کیا ہے عورت نے اسے قبولیت کی سند دے کر عریانیت و فحاشی کی بدترین مثال قائم کردی ہے۔

     آج مغربی تہذیب کو اپنی مادی ترقیات پر بڑا ناز ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ہر میدان میں بین الاقوامی سطح پر جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ ایک عالم کے لئے رہنمایانہ اصول کی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنی نت نئی ایجاد اور حیرت انگیز اصلاحات کی بنیاد پر وہ پوری دنیا سے خراج تحسین حاصل کر چکا ہے۔مگر خوب یاد رکھو!کہ جس طرح یہ دور جدید کے تمام پروپیگنڈے صداقت کے معیار پر پرکھنے کے بعد کھوکھلے ثابت ہو چکے ہیں اور یقیناً یہ اس کی ساری جد وجہد انسانیت کی خیر خواہی پر نہیں بلکہ اس کی ہلاکت خیزی و تباہی پر بنی ہے۔ٹھیک اسی طرح عورت سے متعلق اس کا نظریہ ترقی اور تحریک آزادی بھی درحقیقت عورت کی عزت و پارسائی پر خاموش حملے کے مترادف ہے اور اسے حقوق نسواں کی بحالی نہیں بلکہ عالمی پامالی کی انتہائی خطرناک کوشش قرار دی جاسکتی ہے۔جس کا رد عمل یہ ہے کہ آج ہر طرف بے حیائی بدکرداری اور جنسی رجحان کی شدت عام ہوکر رہ گئی ہے۔دن بدن جرائم کی شرح میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور فتنہ و فساد کا ایک ناٹوٹنے والا سلسلہ قائم ہے۔امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں واقع ان حیاء سوز مظاہرے و مناظر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے خود ایک انگریز مصنف جارج واکیلی اسکاٹ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ،،ہماری تاریخ کے کسی دور میں آج سے پہلے معزز گھرانوں کی لڑکیوں کی اتنی کثیر تعداد جنسی خواہشات کی تسکین میں کبھی پیش پیش نہ تھی،یہ صورتحال امریکہ اور یورپ کے ہر شہر میں موجود ہے جہاں لڑکیاں بہر وجوہ مردوں سے شادی کے بغیر اختلاط پیدا کر لیتی ہیں،یہ تمدن جدید کی دراصل فاحشہ گری ہے،آج کل بعض بے حیاء لڑکیاں اس وقت تک شادی کا خیال بھی نہیں کرتیں جب تک کہ گل چھرے اڑا کر تھک نہیں جاتیں،پہلے زمانہ میں مرد اس مرض میں مبتلا تھے لیکن آج کل اسلامی تہذیب سے دور رہنے والی ہر لڑکی کی زبان پر اس کا چرچہ ہے۔اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ پیدائش اولاد کے کام سے پہلو تہی کر کے تفنن طبع کی خاطر جنسی بے رہروی اختیار کی جائے دوشیزگی یا بکارت کے قائم رکھنے کو فرسودہ خیالی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جدید معاشرے میں لڑکی کی آزادی کا نظریہ تو یہ ہے کہ جب تک جوانی ہے عیش پرستی میں زندگی بسر کی جائے،اسی کی خاطر رقص و سرود کی محفلوں،ہوٹلوں اور شراب خانوں کی تفریح کی جاتی ہے۔بالفاظ دیگر جدید عورت اپنے آپ کو ایسے حالات اور ماحول میں پیش کرتی ہے جہاں جنسی ملاپ کے ابھرنے کے مواقع ملتے ہیں اور اس کا ناگزیر نتیجہ اختلاط جنسی کی صورت اور کی چاٹ میں ظہور پذیر ہوتا ہے،،۔( بحوالہ فریب تمدن: 152)

      یہ ہے دیارِ مغرب کی اپنی روایتی تہذیب جہاں شرافت و اخلاق کا ہلکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہی صورتحال وہ اسلامی معاشرہ میں پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلم خواتین میں بھی یہی تہذیب رواج پاسکے۔کون نہیں جانتا کہ وہ اسلام کو ہمیشہ سے اپنا سب سے خطرناک دشمن سمجھتا ہے اور صلیبی سامراج کی تمام تر سرگرمیاں اور منظم سازشیں صدیوں سے اسلام کے خلاف جاری ہیں۔وہ مسلمانوں کو مسلمہ بنیادی افکار اور پاکیزہ نظریات تک کو یکسر بدل کر رکھ دینا چاہتا ہے اور یہ بات بلا خوف وتردید کہی جاسکتی ہے کہ آزادی نسواں بھی اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتی ہے۔میرے خیال میں اپنے اس ناپاک مقصد کو پورا کرنے کے لئے شروع سے اب تک جتنی بھی تحریکیں مغرب نے چلائی ہیں ان تمام میں سب سے زیادہ فتنہ انگیز اور انتہائی گمراہ کن اگر کوئی تحریک ہے تو وہ یہی تحریک ہے جس پر آزادئی نسواں کا خوبصورت اور پر فریب لیبل لگا ہوا ہے۔ اور ان کی کوشش ہے کہ مسلمان عورتوں کو بگاڑا جائے۔عورت کی آزادی کے سلسلے میں جو جماعتیں کام کر رہی ہیں ان کا خوب خیال رکھا جارہا ہے۔ عورت کے حقوق کے سلسلہ میں گرما گرم بحثیں جاری ہیں،اس کو مرد کے مساوی قرار دیا جا رہا ہے، اسلامی نظام میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے اور طلاق دینے کی اجازت دینے کی مخالفت کی جارہی ہے۔اس کا مقصد شبہات کا پیدا کرنا اور یہ بتانا ہے کہ اسلامی شریعت اس دور کے لئے لائق عمل نہیں ہے،زندگی کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، وہ جانتے ہیں کہ عورت کی آزادی کے جراثیم اسلامی معاشرہ کی ہڈی کو کھوکھلا کردیں گے۔جیسا کہ اس متنازعہ فلم ،،ہم دو ہمارے بارہ،، میں عورتوں کے حوالے سے یہ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مذہب اسلام میں خواتین کی کوئی وقعت نہیں اس کو گھر کی چہار دیواری میں مقید کر دیا گیا ہے۔حالات کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جب بھی اس قسم کا کوئی واقعہ سامنے آیا تو ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا تھا ہے۔مسلمان فطری طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اسلام مخالف عناصر اظہارِ خیال کی آزادی کے نام پر ایسے واقعات کی حمایت کرتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیا جانے والا مین اسٹریم میڈیا بھی ایسے مواقع پر میدان میں کود پڑتا ہے اور اپنی غیر جانبدارانہ حقیقت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض مسلم دشمنی میں اسلام دشمن عناصر کی حمایت و تائید کرنے لگتا ہے۔لہٰذا!ایسی فلم جس میں شریعت کا مذاق اڑاتے ہوئے مسلمانوں کی کردار کشی کی گئی ہے ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور فوری طور پر فلم ڈائریکٹر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسی فلم کو نمائش کے لئے ہرگز نہ لائیں جس سے نقص امن کو خطرہ ہو۔

    
    iftikharahmadquadri@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے