غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
اب تک فرانس اور اٹلی جیسے یورپین ملکوں ہی سے اسلامی لباس اور شعائر پر پابندی کی خبریں سنائی دیتی تھیں، اب خود کو ثقافت پرست اور لبرل دکھانے کے جنون میں مسلم ممالک بھی اسلامی تعلیمات پر پابندیاں لگانے پر اتر آئے ہیں۔تازہ معاملہ وسط ایشیائی ملک تاجکستان کا ہے۔جہاں 19 جون کو تاجک پارلیمنٹ نے حجاب اور برقع پر پابندی لگانے والے قانون کو منظوری دے دی ہے۔اب اس قانون کو ملک میں نافذ کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔قانون کی مخالفت کرنے پر 700 سے 3500 ڈالر تک کا خطیر جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔خلاف ورزی کا ارتکاب اگر مذہبی رہنماؤں اور سرکاری ملازمین کی جانب سے ہوتا ہے تو ان پر پانچ ہزار ڈالر تک بھاری بھرکم جرمانہ عائد کئے جانے کا التزام بھی کیا گیا ہے۔
_________تاجکستان کا محل وقوع اور آبادی
تاجکستان وسط ایشیا کا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔جہاں تقریباً ایک کروڑ کی آبادی ہے، جس میں اٹھانوے فیصد مسلمان ہیں۔اس کا رقبہ ایک لاکھ 43 ہزار ایک سو مربع کلومیٹر ہے، جس میں تقریباً 93 فی صد علاقہ پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ان پہاڑوں میں یامیر کے پہاڑ اپنی منفرد حیثیت اور پہچان رکھتے ہیں۔تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبے(Dushanbe) ہے۔جو قدیم وراثت کے ساتھ ساتھ ایک جدید اور ماڈرن شہر نظر آتا ہے۔تاجکستان کی سرحدیں شمال مغرب میں ازبکستان، مشرق میں کرغزستان اور جنوب میں افغانستان سے ملتی ہیں جب کہ مشرقی سرحد کا کچھ حصہ چین سے بھی ملتا ہے۔پہلے یہ ملک سوویت یونین روس کا حصہ ہوا کرتا تھا۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد 1991 میں تاجکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے منظر عام پر آیا۔آزادی ملتے ہی اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی جس کے باعث ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔پانچ سال کی طویل خانہ جنگی اور قتل وقتال کے بعد 1997 میں اس ملک میں قدرے استحکام آیا۔ملک کے صدر امام علی رحمان نے اپوزیشن پارٹیوں کے اشتراک سے حکومت سازی کا ایک مشترکہ فارمولہ پیش کیا جس کے تحت اپوزیشن کے لیے حکومت میں تیس فیصد حصے داری اور پارلیمنٹ میں ایک تہائی نشستیں متعین کی گئیں۔اس طرح حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مشترکہ تعاون سے ملکی انتظام بہتری کی جانب گامزن ہوا۔لیکن جیسے جیسے صدر امام علی رحمان کو تقویت ملتی گئی وہ اپوزیشن کو طے شدہ حصے داری سے بے دخل کرتے گیے۔ان کی خود سری اور مطلق العنانی یہاں تک بڑھی کہ انہوں نے 2015 میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت "اسلامی احیا پارٹی(IRPT) کو دہشت گرد جماعت قرار دے کر پابندی عائد کر دی۔اب وہ اس ملک کے مطلق العنان حاکم بنے ہوئے ہیں۔ان کی مطلق العنانی کا ہی نتیجہ ہے کہ اب انہوں نے حجاب اور برقع پر پابندی لگانے کا قانون بنا دیا ہے۔
________پابندی کیوں؟
تاجکستان میں حجاب اور برقع پر حالیہ پابندی اسلام دشمنی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔سن 2007 میں پہلی بار تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی نافذ کی گئی تھی۔اس کے بعد دفاتر اور دیگر اداروں میں بھی حجاب پر سختی برتی جانے لگی۔دفاتر کے علاوہ دیگر عوامی مقامات پر بھی حجاب پہننے والی خواتین کو پریشان کرنا، حجاب فروخت کرنے والے افراد اور ان کی دکانوں پر اینٹی ریڈیکلائزشن(anti radicalisation) مہم کے تحت چھاپے مارنا اور حیلوں بہانوں سے جرمانہ لگانے/دکان بند کرنے جیسے اقدامات چلتے رہے۔اب حکومت نے نہایت بے شرمی کے ساتھ حجاب اور برقع کو غیر قانونی اور غیر ملکی لباس قرار دے کر قابل جرمانہ جرم بنا دیا یے۔اس سے قبل اس ملک میں مَردوں کے داڑھی رکھنے پر بھی پابندی لگائی جا چکی ہے۔بی بی سی کی 2016 میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق محض ایک سال کے اندر 13 ہزار سے زیادہ مَردوں کی داڑھیاں حکومتی اہل کاروں کی جانب سے جبراً مونڈ دی گئی تھیں۔اسلامی احکامات پر پابندی کا یہ کھیل مقامی روایات اور ملکی کلچر کو فروغ دینے اور غیر ملکی رواج وکلچر سے عوام کو بچانے کے نام پر کھیلا جا رہا ہے۔اپنی فکر فاسد کو تھوپنے کا جنون اس قدر ہے کہ حکومت کی جانب سے Book of Recommendations نامی کتاب شائع کرائی گئی جس میں سات سال کی بچی سے ستر سالہ خاتون تک کے لیے ڈریس کوڈ طے کیا گیا یے۔اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کب، کس موقع پر کون سے کپڑے پہننے ہیں۔حجاب و برقع کے علاوہ خواتین کو سر ڈھانپنے کے لیے کپڑا رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔بظاہر کہنے کو یہ سب مقامی روایت اور کلچر کو بڑھاوا دینے کی بات ہے لیکن حکومت کو دہرا معیار اسی سے ظاہر ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو تو غیر ملکی(اسلامی) لباس سے بچانا چاہتے ہیں لیکن مردوں کے غیر ملکی(انگریزی) لباس پہننے سے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔یعنی انہیں اعتراض صرف اسلامی تہذیب سے ہے مغربی تہذیب(westren culture) سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔
_______مسلم حکمرانوں کی آزاد خیالی
گذشتہ دو صدیوں سے مسلم حکمرانوں میں آزاد خیالی اور لبرلزم نے اہل اسلام جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا تو اسلام کے شدید ترین دشمن بھی نہیں پہنچا سکے۔اس فہرست میں مصطفیٰ کمال پاشا ترکی(1881_1938ء) جلال الدین محمد اکبر، ہندوستان(1542_1605ء) جیسے نام نمایاں ہیں جنہوں نے محض اپنی حکومت، دشمنوں کے منظور نظر اور لبرل دکھنے کی چاہت میں مسلمانوں کو خوب نقصان پہنچایا۔انہیں کے فکری جانشین آج بھی اپنی حکومتوں کو چلائے رکھنے/بنائے رکھنے اور بچائے رکھنے کے لیے آئے دن اسلام اور مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں تاکہ انہیں اسلام دشمن طاقتوں کی حمایت ملتی رہے اور وہ مزے کے ساتھ حکومتی گدی پر خود اور اپنی نسلوں کو مسلط رکھنے میں کامیاب رہیں۔یہی کوشش ان دنوں تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کر رہے ہیں۔مگر جس طرح پاشا اور اکبر جیسے لوگ ناکام رہے صدر تاجکستان بھی اسی طرح ناکام ونامراد ہوں گے۔
ضرورت ہے کہ ایسے آزاد خیالوں کی نقاب کشائی کی جائے، وقتی مصلحتوں/مسلکی/مشربی اشتراک اور اسلام کے نام پر چند نمائشی کاموں اور تقریبات کی بنیاد پر ان کی مذہب بیزاری کو نظر انداز نہ کریں تاکہ ایسے حکمرانوں کے چہرے بے نقاب ہوں اور امت ان کے شر سے محفوظ ہو سکے۔
اچھی طرح یاد رکھیں!
اسلام جامع اور مکمل دین ہے، اسے چند نمائشی اعمال اور معمولات تک محدود کرنا یا علاقائی رسم ورواج کا پابند کرنا کسی طور پر قبول نہیں ہے۔اسلام تمام علاقائی رسم ورواج اور تہذیبوں سے بلند و بالا ہے۔اس کی روایات سب سے بہتر ہیں اور اس کی پیش کردہ تہذیب دنیا کی تمام تہذیبوں سے لاکھوں گنا زیادہ بہتر اور اچھی ہے۔جسے دنیا کے بڑے بڑے جابر بادشاہ نہ مٹا سکے تو امام علی رحمان کیا چیز ہیں؟
26 ذوالحج 1445ھ
3 جولائی 2024 بروز بدھ
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں